Header Ads Widget

قرآن مجید حفظ کرنے کی فضیلت اور حافظ قرآن کا مقام و مرتبہ

 قرآن مجید حفظ کرنے کی فضیلت


قرآن مجید حفظ کرنے کی فضیلت



قرآن مجید ایک ناقابلِ ترمیم کتاب

قرآنِ حکیم اللہ تعالی کا نازل کردہ وہ مقدس صحیفہ ہے، جس نے اپنے سے پہلے نازل شدہ تمام تر الہامی و آسمانی کتابوں کو منسوخ کر دیا، آج کوئی بھی آسمانی صحیفہ دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو تحریف و تبدیل کے نقائص و عیوب سے پاک اور انسانوں کی خود تراشیدہ عبارات، دست درازی اور خرد برد سے کامل طور پر محفوظ ہو، یہ اعزاز صرف قرآن کو حاصل ہے کہ زمانے کے حوادث و تغیر اور دشمنانِ اسلام کی پیہم تحریفی کوششوں کے باوجود اپنی اصل شکل و صورت میں موجود ہے، اس کے زمانۂ نزول سے ہی شرپسندوں کی مساعی و کوششیں اس کی تحریق و نذرِ آتش میں صرف ہوئیں اور تاہنوز یہ تسلسل رواں ہے؛ مگر اسے قرآن کا اعجاز کہیے یا خدا کی کرشمہ سازی کہ اس کا ایک نقطہ بھی مسخ نہ ہوا۔

یہ در حقیقت اس کے نازل کرنے والی ذات کے اس عالم گیر و وسیع نظام اور اقدام و تدبیر کا نتیجہ تھا جو اس نے اپنے کلام کی حفاظت و صیانت کی خاطر حفظ قرآن کی صورت میں جاری فرمایا تھا، قرآن کے زمانۂ نزول سے ہی قدرت کا یہ نظام کار فرما ہوا اور تا قیامت جاری رہےگا، ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں؛ بلکہ کروڑوں افراد کلامِ الہی کو حرف بہ حرف اپنے سینوں اور ذہن کے آب گینوں میں محفوظ کیے ہوئے ہیں، اسی سال سے متجاوز عمر کے بھی حافظ و قاری مل جائیں گے اور بچپن و نوخیزی کی بہاروں کی آغوش میں چہچہانے والے معصوم حفاظِ قرآن بھی مل جائیں گے، جن کا شغلِ حیات از صبح تا شام قرأتِ قرآن کے ماتحت ہوتا ہے، اور عمرِ مستعار کے تمام لمحات اس کے پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے میں صرف کر دیتے ہیں، اور ایسا کسی کے زور، زبردستی اور جبر و قہر سے محبور ہوکر نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ قرآن کے لیے اپنی زندگی فنا کردینے کو اپنے حق میں سعادت و خوش بختی گردانتے ہیں ہوئے ایسا کرتے ہیں۔


حافظِ قرآن کا مقام و مرتبہ

آئیے جانتے ہیں کہ حافظِ قرآن کو قیامت کے دن کن انعامات و عطیات سے سرفراز کیا جائےگا۔


1. حافظِ قرآن کے حق میں بروزِ حشر قرآن سفارش کرےگا، جیسا کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے صاحبِ قرآن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے:
الصِّيامُ والقرآنُ يشفَعانِ للعبدِ يومَ القيامةِ يقولُ الصِّيامُ أي ربِّ منعتُهُ الطَّعامَ والشَّهواتِ بالنَّهارِ فشفِّعني فيهِ ويقولُ القرآنُ منعتُهُ النَّومَ باللَّيلِ فشفِّعني فيهِ قالَ فَيشفَّعانِ. (مسندِ احمد)
ترجمہ: روزے اور قرآن روزِ قیامت بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہےگا اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن بھر کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا، پس تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہےگا میں نے اس شخص کو رات بھر جگائے رکھا پس تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما، پس ان دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائےگی۔


2. اللہ تعالی روزِ قیامت حافظ قرآن کو شرافت و کرامت کا تاج اور عمدہ جوڑا پہنائیں گے، جنھیں دیکھ کر دوسرے لوگ رشک کر رہے ہوں گے کہ کون خوش بخت ہے جس پر رب کی الطاف و عنایات کی بارش اس قدر ہے کہ محشر کی ہولناکیوں اور درد سامانیوں سے محفوظ مست تخت پر تاج پہنے جلوہ آرا ہے؛ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يجئ القرآن يومَ القيامةِ فيقولُ: يا ربِّ حلِّهِ، فيُلبسُ تاجُ الكرامةِ، ثم يقولُ: يا ربِّ زدهُ، فيُلبسُ حُلَّةَ الكرامةِ، ثم يقول: يا ربِّ ارضِ عنهُ، فيقالُ: اقرأْ وارقأْ ويزادُ بكلِّ آيةٍ حسنةً. (سنن ترمذی)
ترجمہ: قیامت کے دن قرآن آئےگا اور کہےگا اے میرے رب: اس کو (حافظ قرآن) کو جوڑا پہنا، تو اسے عزت و شرافت کا تاج پہنا دیا جائےگا، پھر قرآن کہےگا اے میرے رب: اس کو مزید نوازیے، پس اسے شرافت و کرامت کا جوڑا پہنا دیا جائےگا۔ پھر قرآن کہےگا اے میرے رب! تو اس سے راضی ہو جا، تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو جائیں گے اور کہا جائےگا پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا، تیرے لیے ہر آیت کے عوض نیکی کا اضافہ ہوتا جائےگا۔




3. جب حافظ قرآن محوِ تلاوت ہوتا ہے تو ملائکہ پروانہ وار اس مجلس میں ٹوٹ پڑتے ہیں پوری مجلس کو اپنی نازک پروں کے حصار میں لے لیتے ہیں، جس مجلس میں فرشتوں کا ورود اس کثرت سے ہو اس میں رحمتِ الہی کے نزول کا کیا عالم ہوگا، اور خود پڑھنے والے پر خدا کی کس قدر رحمتیں اترتی ہوں گی۔
تائید میں حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیں!
 عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله تعالى، يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم، إلا نزلت عليهم السكينة، وغشيتهم الرحمة، وحفتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده. (صحیح مسلم)
ترجمہ: جب بھی کوئی قوم کسی گھر میں جمع ہوکر قرآن کی تلاوت کرتی ہے اور آپس میں پڑھتی پڑھاتی ہے ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے، رحمتِ الہی انھیں ڈھانپ لیتی ہے اور ملائکہ انھیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالی اپنی مجلس میں فرشتوں کے درمیان ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہیں۔

4. حافظِ قرآن اور قرآن پڑھنے پڑھانے والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بہتر قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
خيركم من تعلم القرآن و علمه. (بخاری شریف)
یعنی تم میں سب سے اچھا وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
بھلا اس سے بڑا اعزاز و امتیاز حافظ قرآن کے لیے کیا ہو سکتا ہے کہ اسے سرورِ کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی دیگر افراد پر فوقیت و برتری عطا کی جا رہی ہے؛ چناں چہ اسی برتری کا ثمرہ ہے کہ فقہا کے نزدیک نماز میں امامت کا مستحق وہ شخص ہوگا جو حافظِ قرآن اور عمدہ لب و لہجے کا مالک ہو۔
اس اولیت و فوقیت کا لحاظ محض دنیا تک محدود نہیں ہوتا؛ بلکہ اگر چند لوگوں کی وفات ہو جائے اور جگہ کی تنگی کے باعث انھیں ایک ہی لحد میں اتارا جا رہا ہو تو ان میں سے جو قرآن کو زیادہ یاد رکھنے والا ہوگا اسے لحد میں پہلے رکھا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا تھا جو قرآن کو زیادہ یاد رکھنے والا تھا اسے قبر میں پہلے اتارا گیا پھر جو اس کے بعد زیادہ یاد رکھنے والا تھا اسے اتارا گیا علی ہذا الترتیب۔
یعنی کہ حافظِ قرآن کی فوقیت و برتری کا لحاظ مرنے کے بعد بھی ہوتا ہے۔


5. حفظِ قرآن کی سب سے بڑی فضلیت یہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا عنصر موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حافظِ قرآن تھے اور ہر سال ماہِ رمضان میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ دور فرمایا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ایک سنت کی اتباع کی توفیق نصیب ہو جانا کتنی بڑی سعادت مندی اور خوش بختی ہے؛ نیز حفظِ قرآن میں اکابر و اسلاف کی پیروی بھی ہے کہ ہمارے اسلاف و اکابر کا معمول بھی حفظ قرآن کا تھا۔

لیکن حفاظِ قرآن کے پیشِ نظر یہ بات رہنی چاہیے کہ یہ ساری فضیلتیں اس وقت حاصل ہوں گی جب حفظِ قرآن اخلاص و للہیت کی بنا پر ہو اور اس عمل سے کوئی دنیاوی مفاد و غرض یا طلبِ مال و شہرت متعلق نہ ہو اور قرآنی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتا ہو اور اس کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتا ہو، اور یہ فضیلتیں محض حفاظِ قرآن کے ساتھ ہی خاص نہیں ہیں؛ بلکہ ہر وہ شخص جو قرآن پڑھتا پڑھاتا یا سمجھتا سمجھاتا ہو اس کی تلاوت کرتا ہو، اس سے محبت کرتا ہو اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ اسے بھی یہ فضیلتیں حاصل ہوں گی۔










ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!