Header Ads Widget

علم کی فضیلت و اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

علم کی فضیلت و اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں 


علم کی فضیلت و اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

از: أيمن فراس 

علم خدا کی عظیم دولت ہے، ایک ایسا گراں مایہ جوہر ہے جس سے انسانی کمالات جگمگا اٹھتے ہیں، فطری صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں، انسان کو عزت و سربلندی حاصل ہوتی ہے، خیالات میں قوت اور فکر و نظر میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے اور انسان جب اس جوہر کو بروئے کار لاتا ہے تو معراجِ کمال کی بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔
قوموں کو عروج و اقبال مندی اور ترقی کے مدارج تک پہنچانے میں اسی علم کے جوہر کی کارفرمائی ہوتی ہے اور اسی کے فقدان کے باعث قومیں پستی و تنزل کے عمیق غار میں دھنستی چلی جاتی ہیں، قوم کے افراد اگر جوہرِ علم سے آراستہ ہوں تو کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں علم کو ہی کامیابی ترقی اور فلاح و کامرانی کا معراج تصور کیا جاتا ہے، اور یہ حقیقت مشاہد و محسوس بھی ہے کہ جس قوم یا ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی بہتات ہو وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی و فتح مندی کے جھنڈے گاڑ دیتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی ہر قوم نہ صرف یہ کہ علم کی اہمیت و افادیت کی قائل ہے؛ بلکہ اس کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے، اس کے لیے کثرت سے ادارے قائم کرنے اور اپنے افراد میں اس کا شعور پیدا کرنے کے لیے پیہم جد و جہد کرتی ہے، لوگوں کو اس کی ترغیب دینے کے لیے باضابطہ مہم چلائی جاتی ہے، شلوگن لگائے جاتے ہیں، دیواروں اور سڑکوں پر اشتہارات و اعلانات آویزاں کر، حصول علم کی اہمیت و ضرورت کو آشکارا کیا جاتا ہے اور نہ جانے حکومتیں اپنی عوام کو تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرتی ہیں۔
مگر علم کی فضیلت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے جو طرز اور اسلوب اسلام نے اختیار کیا ہے، اس کی نظیر کہیں بھی نظر نہیں آ سکتی ہے۔

اسلام کے علاوہ دیگر اقوام تعلیم کی اہمیت و افادیت کو اس وجہ سے تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک وہ دنیوی و مادی منافع و مصالح کے حصول کا ذریعہ ہے؛ جب کہ اسلام نے تعلیم کا رشتہ دین سے وابستہ کر دیا ہے؛ بلکہ اسے دین کا جزو لاینفک بناکر پیش کیا ہے، اس کے نزدیک ان مادی منفعتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اسلام نے ایسے علم کے حصول کی دعوت دی ہے جو بندے اور خالق کے درمیان حقیقی تعلق کے انکشاف کا ذریعہ ہے اور جس کے ذریعے انسان اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنے میں کامیاب اور اپنے خلافت فی الارض کے فریضے سے سبک دوش ہو سکتا ہے۔
چناں چہ اسلام نے حصول علم کی اہمیت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم کیا؛ بلکہ تاکیدی انداز میں اس کی ترغیب دی اور اسے ایک مستقل فریضہ قرار دیا، نیز قرآن کریم میں جا بجا علم اور اہل علم کی فوقیت و برتری بیان کی، نیز کئی احادیث میں حصول علم کی فضیلت و اہمیت بیان کی۔ ذیل میں انھی ذخیرۂ آیات و احادیث میں سے چند کو سپرد قرطاس کیا جاتا ہے؛ تاکہ معلوم ہو سکے کہ دین اسلام کے نزدیک علم کی اہمیت کیا ہے۔

علم کی فضیلت پر قرآنی آیات

علم و حکمت خیر کثیر ہے

اللہ تبارک و تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
يُؤۡتِى الۡحِكۡمَةَ مَنۡ يَّشَآءُ‌‌ ۚ وَمَنۡ يُّؤۡتَ الۡحِكۡمَةَ فَقَدۡ اُوۡتِىَ خَيۡرًا كَثِيۡرًا‌ ؕ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ (سورۃ البقرۃ)
ترجمہ: وہ جس کو چاہتا ہے حکمت سے نوازتا ہے، اور جس کو حکمت عطا ہوئی اسے یقینا خیر کثیر عطا ہو گئی، اور نصیحت تو بس صاحبان فہم ہی قبول کرتے ہیں۔

آیت مبارکہ میں حکمت سے مراد دین کا صحیح فہم ہے، جس کے زیر اثر انسان آج سے کل کے لیے ذخیرہ جمع کرے، آج ایسی تخم ریزی کرے کہ کل کی دائمی اور غیر منقطع زندگی میں اس کا ثمر ظاہر ہو، جو حکمت انسان کو مذکورہ عمل کے انجام دینے پر آمادہ کرے وہی خیر کثیر ہے۔ اور اس خیر کثیر کی تقسیم اللہ تعالی کی مشیت تکوینی کے ماتحت انجام پاتی ہے۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ علم خدا کی طرف سے ملنے والی نعمت ہے اور اس نعمت کے صحیح استعمال کی توفیق میسر آ جائے تو یہ بہت ساری بھلائیوں کی ضامن بن جاتی ہے۔

اہل علم ہی اللہ سے زیادہ ڈرتے ہیں

اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
اِنَّمَا يَخۡشَى اللّٰهَ مِنۡ عِبَادِهِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ غَفُوۡرٌ. (سورۃ الفاطر)
ترجمہ: اللہ سے تو اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں، بےشک اللہ زبردست ہے بخشنے والا ہے۔

مفسرین فقہا فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے علم کی فضیلت و اہمیت واضح ہوتی ہے، نیز یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کا خوف اور خشیت کا حصول علم کی راہ سے ہی حاصل ہو سکتا ہے، یہاں علما سے وہ روایتی علما مراد نہیں ہیں جو فلاں فلاں کتابیں پڑھ لیتے ہیں؛ بلکہ وہ علما مراد ہیں جو اللہ کی توحید، صفات، اس کی عظمت و قدرت اور حلال و حرام امور کی کامل معرفت رکھتے ہیں، کیوں ان چیزوں کا علم ہی دلوں میں خشیت الہی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

عالم اور جاہل کے درمیان تفاوت

اللہ تعالی سورہ زمر میں اہل علم اور غیر اہل علم کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‌ؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَاب. (سورۃ الزمر)
ترجمہ: آپ کہیے کیا علم والے اور بے علم کہیں برابر بھی ہوتے ہیں؟ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہوتے ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں اہل علم اور بےعلم کے درمیان واضح فرق کو بیان کیا گیا ہے، اہل علم سے وہ لوگ مراد ہیں جو اس بات کو جانتے ہیں کہ اللہ کی اطاعت کے عوض انھیں کیا صلہ ملےگا اور عدم اطاعت کی صورت میں ان پر کیسی مصیبتیں آئیں گی، پھر اس علم کے زیر اثر وہ اللہ تعالی کے احکامات کا بجا لاتا ہے اور اپنے آخرت کے لیے نیک اعمال کا ذخیرہ جمع کرتا ہے۔
اہل علم اور بےعلم کے درمیان اس واضح فرق کو اہل عقل بخوبی سمجھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طالب علم کی فضیلت

اہل علم کے لیے بلندی درجات

اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
يَرۡفَعِ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ ۙ وَالَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ. (سورۃ المجادلۃ)
ترجمہ: اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان لوگوں کے جنھیں علم دیا گیا درجے بلند کرےگا، اور اللہ کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ایمان اور علم کی ترغیب دی ہے؛ کیوں کہ یہی چیزیں بندے کے درجات کو بلند کرنے والی ہیں، مفسرین کے مطابق یہاں بھی علم سے علم شرعی یعنی کتاب و سنت کا علم مراد ہے، اور درجات کے لفظ کو جمع لاکر فرق مراتب کی طرف اشارہ کیا ہے، یعنی جس کا ایمان زیادہ قوی اور علم زیادہ وسیع اور نفع بخش ہوگا اس کو اسی قدر زیادہ بلند درجات حاصل ہوں گے۔

علم کی فضیلت پر احادیث

علم نبیوں کی وراثت ہے

علم کو انبیا علیہم السلام کی متبرک و پاکیزہ جماعت کا ترکہ سمجھا جاتا ہے؛ کیوں کہ انبیا کی جماعت دراہیم و دنانیر اور دولت و ثروت چھوڑ کر نہیں جاتی ہے؛ بلکہ وہ دین و شریعت کا علم اور وہ باطنی قوت و تصرفات چھوڑ کر جاتے ہیں جن سے اللہ تعالی کی معرفت نصیب ہوتی ہے؛ چناں چہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ، إنَّ الأنبياءَ لم يُوَرِّثوا ديناراً ولا درهماً، وأورثوا العلمَ، فمن أخذ به أخذ بحظٍّ وافرٍ. (رواہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق)
ترجمہ: اور بےشک علما نبیوں کے وارثین ہیں، انبیا نے دینار و درہم کی میراث نہیں چھوڑی ہے، انھوں نے علم کی میراث چھوڑی ہے، پس جس نے ان کا علم حاصل کیا اس نے (انبیا کی میراث) کا بڑا حصہ حاصل کر لیا۔

علم انسان کو ہمیشہ نفع پہنچانے کا ذریعہ

علم ایک صفت جاوداں ہے، یہ مال و دولت اور دیگر مادی اشیا کی مانند نہیں ہے جن کی منفعت ایک محدود متعین مدت کے بعد منقطع ہو جاتی ہے؛ بلکہ یہ تو انسان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی نفع رسانی کا کام انجام دیتا ہے؛ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: 
إذا مات ابنُ آدم انقطع عمله إلا مِن ثلاث: صدقةٍ جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له. (رواہ مسلم)
ترجمہ: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جاتا ہے یا ایسی اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔

علم قابل رشک نعمت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَی هَلَکَتِهِ فِي الْحَقِّ وَآخَرُ آتَاهُ اللَّهُ حِکْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا. (رواہ البخاری)
ترجمہ: رشک صرف دو لوگوں پر کیا جانا چاہیے، ایک تو وہ شخص جسے اللہ تعالی نے مال عطا کیا اور اس نے اسے حق کی راہ میں بےدریغ خرچ کیا، اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالی نے حکمت (قرآن و حدیث کا علم) عطا کی اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔

حدیث پاک سے علم کی فضیلت عیاں ہوتی ہے کہ یہ ایسی بڑی نعمت ہے جس پر بندوں کو رشک کرنا چاہیے، رشک کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دل میں یہ خواہش ظاہر کرے کہ کاش مجھے بھی یہ عظیم نعمت نصیب ہوتی تو میں بھی فلاں کی طرح اس علم پر عمل کرتا، اس کی روشنی میں لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا۔

علم کی طلب جنت تک لے جانے والی ہے

علم کی طلب و جستجو، اس کے لیے اسفار کرنا اور وطن عزیز کو خیر باد کہنا بہت بڑی فضیلت کا حامل ہے؛ بلکہ جنت تک لے جانے کا باعث ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
مَنْ سَلَكَ طَريقا يَبْتَغي فيه عِلْما سَهَّل الله له طريقا إلى الجنة. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: جو شخص علم کی تلاش میں کسی راہ پر چلتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔

عالم کی عابد پر عظیم فضلیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی کہ میری فضیلت تم سے ادنی شخص پر ہے۔

اس حدیث پاک سے اہل علم کی عظیم فضیلت ظاہر ہوتی ہے، کہ اس کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جیسی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی فضیلت ادنی صحابی پر ہے، ظاہر ہے ادنی صحابی تو کیا؛ کبار صحابہ کی فضیلت کا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و رفعت اور قدر و منزلت سے تقابل نہیں ہو سکتا، ٹھیک اسی طرح عالم کی رفعت و منزلت کا بھی عابد کی رفعت و منزلت سے کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتا۔

ان تمام آیات و احادیث میں علم کی جو فضیلتیں بیان کی گئی ہیں وہ شرعی علوم سے متعلق ہیں وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اس میں عمل کا عنصر بھی شامل ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے