تقریر کیسے کریں؟
ما فی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے انسان کے پاس دو طریقے موجود ہیں، اول تحریر ہے اور دوم تقریر۔
تحریر سے اگر چہ دیر پا ہوتی ہے تاہم اس سے فقط پڑھا لکھا طبقہ ہی مستفید ہو پاتا ہے؛ جب کہ تقریر سے ہر خاص و عام مستفید ہوتا ہے، مستزاد یہ کہ تحریر کے اندر محرر کے جذبات کی بھرپور عکاسی نہیں ہوپاتی ہے، لیکن تقریر میں سامعین مقرر کے جذبات، چہرے کے ہاؤ بھاؤ اور اس کے درد و کڑھن کا ادراک کر لیتے ہیں؛ لہذا تقریر تحریر کی بنسبت زیادہ مؤثر ہے۔
جن حضرات کو تقریر کرنے کا کوئی موقع حاصل ہو انہیں ان امور کا لحاظ رکھنا چاہیے:
(۱) تقریر اللہ تعالی کی خوشنودی و رضاجوئی کی نیت سے کی جائے اور قبل از تقریر چند لمحے ذکر و اذکار کی نذر کیے جائیں، اس سے ان شاءاللہ سامعین پر ایک خاص اثر ظاہر ہوگا۔
(۲) تقریر کا موضوع حسب ضرورت اور حسب معلومات متعین کر لیا جائے،ذہن میں پہلے سے ایک خاکہ مرتب کر لیا جائے،مواد مہیا کر لیا جائے اور قرآن و حدیث اور صحابۂ کرام اور اکابرین کے اقوال کو بنیاد بنایا جائے، غیر مستند حکایات و اقوال یا غیر مصدق قول پیش کرنے سے قطعا گریز کیا جائے۔
(۳) تاریخی واقعات، اسرائیلی روایات اور واقعاتی تمثیلات کو بہت احتیاط سے ذکر کیا جائے، اسلامی عقائد و روایات سے معمولی درجہ کا انحراف جس واقعہ سے محسوس ہو اسے ترک کر دیا جائے۔
(۴) علمی مجالس و اہل علم کے اجتماعات میں عالمانہ اور سنجیدہ انداز اپنایا جائے اور پر وقار انداز میں میں تقریر کی جائے، اور عوامی اجلاس میں واعظانہ رنگ اختیار کیا جائے۔
(۵) زبان کا صحیح، رواں اور شستہ استعمال ہو،
مشکل تعبیرات سے گریز کیا جائے، بعض اشعار اثر انگیز اور نصیحت آمیز ہوتے ہیں لہذا موقع و محل کی مناسبت سے اشعار کہہ لیا جائے، البتہ اگر اشعار کی درست خواندگی و ادائیگی کی صلاحیت سے محروم ہیں تو پھر اس سے بچا جائے۔
(۶)قرآنی آیات کریمہ اور احادیث طیبہ کو صحیح تلفظ اور ایمان آفریں لہجہ میں پڑھا جائے،اصل عبارت و الفاظ میں شک ہو تو ترجمہ پر اکتفا کیا جائے، یا پڑھتے پڑھتے شک پیدا ہو تو فورا'الی آخرہ" کہہ کر ترجمہ شروع کر دیا جائے۔
(۷)تقریر کرتے وقت اپنی حرکات و سکنات اور لہجہ کے زیر و بم پر قابو رکھا جائے، بے محل گرجنا،چیخنا چلانا ہتک عزت کا باعث ہو سکتا ہے۔
(۸) تقریر کسی بھی موضوع پر ہو عقائد فاسدہ، اعمال بدعیہ، رسوم غیر شرعیہ اور اخلاق نامرضیہ کی اصلاح پر ضرور توجہ دلائی جائے، اس زمانے میں خصوصا توحید و رسالت،نماز،تلاوت،اتباع سنت اور اصلاح اخلاق کو موضوع بنایا جائے، اور دشمنوں کی شازشوں سے آگاہ بھی کیا جائے۔
(۹)تقریر میں عمومی خطاب ہونا چاہیے؛ کسی خاص شخص کو نشانہ بنانا معیوب اور خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
(۱۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،اسلاف و اکابر کا نام دوران تقریر ادب سے ذکر کیا جائے اور گرج کر نام نہ لیا جائے، تاکہ سامعین کے دل میں بھی ان شخصیات کے تئیں الفت و محبت پیدا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: تقریر کی تیاری کیسے کریں؟
0 تبصرے
تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!