Header Ads Widget

دعا قبول نہ ہونے کے اسباب

دعا قبول نہ ہونے کے اسباب 





کہتے ہیں کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے، جب بندہ دنیوی مصائب و آلام اور آزمائشوں کے گرداب میں پھنس جاتا ہے اور ان سے گلوخلاصی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی اور سارے مادی اسباب و وسائل دم توڑ دیتے ہیں، ایسے وقت میں واحد شیی جو اسے ان آزمائشوں کے گرداب سے باہر نکال سکتی ہے وہ دعا ہے۔
دعا کے اندر حق تعالی نے بےپناہ قوت و تاثیر رکھی ہے اور اسلام کے اندر اسے مستقل عبادت کا درجہ عطا کیا ہے، نیز قرآن و احادیث میں متعدد مقامات پر دعا کرنے کی تلقین و ترغیب وارد ہوئی ہے؛ چناں چہ ایک مقام پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، گویا اللہ تعالی نے دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
دعا اگر سچی لگن اور تڑپ کے ساتھ کی جائے اور اس میں اخلاص کا عنصر شامل ہو تو ضرور قبول ہوتی ہے، آج مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت یہ سوچ کر دعا کا اہتمام نہیں کرتی ہے کہ ہماری دعائیں تو قبول ہی نہیں ہوتی ہیں؛ لہذا دعا کرکے کیا فائدہ؟
یہ نہایت گھٹیا سوچ ہے، ایک مومن کے لیے اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کوئی بھی سچی دعا رائیگاں نہیں جاتی، یا تو اللہ تعالی اسے قبول فرما لیتے ہیں یا اسے بندے کے حق میں آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیتے ہیں؛ لہذا دعا کرنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔


اگر مسلسل دعا کرنے کے باوجود قبول نہیں ہوتی ہے تو پھر دعا کرنے کے طریقے کی اصلاح کرنی چاہیے، بسااوقات انسان کچھ ایسے کام کرتا ہے جس کی وجہ سے دعا کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے اور شرفِ قبولیت سے ہمکنار نہیں ہو پاتی ہے۔
آخر دعا قبول نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ آئیے اس حوالے سے بات کرتے ہیں؛ تاکہ ہم اپنی اصلاح کرکے اپنی دعاؤں کو قبولیت کے لائق بنا سکیں۔

یوں تو دعا قبول نہ ہونے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں؛ لیکن ذیل میں فقط چند کو بیان کیا جاتا ہے۔


1. حرام مال کھانا

دعا کرنے والے کا دل ایمان کی دولت سے معمور اور تقوی و طہارت سے لبریز ہونا چاہیے، اور جب انسان حرام خوری کرتا ہے سود و رشوت کا مال کھاتا ہے تو اس کے دل میں خشیتِ الہی باقی نہیں رہتی دل میں قساوت پیدا ہو جاتی ہے، پھر جب ایسا شخص دعا کے لیے اللہ کی جانب متوجہ ہوتا ہے تو اس کا دل اطاعت کے جذبے سے خالی اور گناہ و معصیت سے سیاہ ہوتا ہے، بھلا ایسے دل پر اللہ کی رحمت اور اس کا نور کیسے اترےگا؟
چناں چہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (یہ الفاظ ایک طویل حدیث کے جز ہیں)
ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أشْعَثَ أغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إلى السَّماءِ، يا رَبِّ، يا رَبِّ، ومَطْعَمُهُ حَرامٌ، ومَشْرَبُهُ حَرامٌ، ومَلْبَسُهُ حَرامٌ، وغُذِيَ بالحَرامِ، فأنَّى يُسْتَجابُ لذلكَ؟ (صحيح مسلم)
ترجمہ: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو طویل اسفار کرتا ہے پریشان حال اور جسم گرد آلود ہے، وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاکر یارب یارب کہتا ہے (دعا مانگتا ہے) حالاں کہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام ہے تو بھلا اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟۔


2. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک دینا

بندہ جب بھی دعا کرتا ہے یا تو اللہ تعالی کی ذات سے خیر اور بھلائی طلب کرتا ہے یا پھر کسی بری چیز سے نجات چاہتا ہے، پھر اگر بندہ خود اپنی زندگی میں خیر اور بھلائی کا حکم نہیں کرتا اور برائیوں سے نہیں روکتا تو بھلا اللہ تعالی اسے خیر اور بھلائی کیوں عطا کرےگا اور بری چیزوں سے کیوں بچائےگا؟
چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: 
والَّذي نَفسي بيدِهِ لتأمُرُنَّ بالمعروفِ ولتَنهوُنَّ عنِ المنكرِ أو ليوشِكَنَّ اللَّهُ أن يبعثَ عليكُم عقاباً منهُ ثمَّ تَدعونَهُ فلا يَستجيبُ لَكُم. (رواه الترمذي) 
ترجمہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرور بھلائی کا حکم دو اور ضرور برائی سے روکو؛ ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم پر عذاب بھیج دے، پھر تمہاری دعائیں قبول نہ ہونے لگے۔

لہذا قبولیت دعا کے لیے لازم ہے کہ بندہ خود بھی نیک عمل کرے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے اور خود بھی بری باتوں سے بچے اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کرے۔


3. گناہوں کا ارتکاب

گناہوں کا کثرتِ ارتکاب بھی دعا کی قبولیت میں مانع بنتا ہے؛ کیوں کہ گناہ سے انسان کا دل سیاہ اور سخت ہو جاتا ہے، اور یہی قساوت قلبی دعا کو قبول ہونے سے روکتی ہے، اور جب تک بندہ گناہوں کو ترک کرکے اپنے دل کی اصلاح نہیں کرتا اور خود کو نہیں بدلتا تب تک اللہ تعالی اس کو نہیں بدلیں گے۔
چناں چہ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءً فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ. (سورة الرعد) 
ترجمہ: بےشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں، اور جب اللہ کسی قوم کی برائی چاہتا ہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا، اور اس کے سوا کوئی ان کا مددگار نہیں ہو سکتا۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ اولا ہم اپنے نفس کی اصلاح کریں، گناہوں سے بچیں اور خود کو بدلیں؛ تاکہ اللہ تعالی بھی ہماری زندگی کو بدل کر خوشحال بنادے، اور ساری دعائیں شرف قبولیت سے ہمکنار ہوں۔

4. دعا کی قبولیت میں جلد بازی کرنا

کچھ لوگ دعا تو کرتے نہیں ہیں اور کرتے بھی ہیں تو اس کے نتائج فی الفور دیکھنا چاہتے ہیں، مثلا صبح دعا کی تو چاہتے ہیں کہ شام تک قبول ہو جائے، شام کو کی تو صبح تک قبول ہو جائے۔
حالاں کہ دعا تو میں تو اللہ تعالی کو اختیار ہے وہ جب چاہے قبول کرے یا نہ کرے کوئی اسے روک ٹوک نہیں سکتا، لیکن جب بندہ جلد بازی دکھاتا ہے تو گویا وہ دعا نہیں کر رہا؛ بلکہ حکم دے رہا ہے۔ (العیاذ باللہ)
دعا پوری امید اور اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے اور ہمیشہ اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے، جلد بازی کا مظاہرہ کرنے سے مایوسی دل میں سمانے لگتی ہے؛ لہذا اس سے کامل اجتناب کرنا چاہیے۔
حدیث پاک میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
يُسْتَجابُ لأحَدِكُمْ ما لَمْ يَعْجَلْ، يقولُ: دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي. (صحیح البخاری)
ترجمہ: تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلدبازی نہ کرے کہ وہ کہنے لگے میں نے دعا مانگی تھی؛ لیکن قبول نہ ہوئی۔

5. معصیت یا قطعِ رحم کی دعا کرنا

دعا کی مشروعیت اس لیے ہوئی ہے؛ تاکہ بندہ اس کے ذریعے اللہ تعالی سے اپنی حاجات و ضروریات کا سوال کر سکے اور مصائب و آلام سے پناہ مانگ سکے، اب اگر کوئی شخص اس کے برخلاف کسی معصیت، گناہ یا قطعِ رحم کی دعا مانگتا ہے تو اس کی دعا رد کر دی جائےگی، مثلا حرام کاروبار کرکے دعا کرنا کہ اللہ تعالی اس میں برکت دے، یا اسی طرح یہ دعا کرنا کہ فلاں میاں بیوی کے درمیان تفریق پیدا ہو جائے، اس طرح کی دعائیں نہ صرف یہ کہ رد کر دی جاتی ہیں؛ بلکہ اس پر گناہ بھی ہوتا ہے۔
چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
 لايَزَالُ يُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ، ما لَمْ يَدْعُ بإثْمٍ، أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ. (صحیح مسلم)
ترجمہ: بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی رہتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے۔

دعا کے قبول نہ کرنے میں اللہ تعالی کی حکمت

اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ کوئی بھی دعا رائیگاں نہیں جاتی ہے، اس کی تائید میں ایک حدیث پاک پیش کی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ما من مسلمٍ يدعو بدعوةٍ ليس فيها إثمٌ ، ولا قطيعةُ رَحِمٍ ؛ إلا أعطاه بها إحدى ثلاثَ : إما أن يُعجِّلَ له دعوتَه ، وإما أن يدَّخِرَها له في الآخرةِ ، وإما أن يَصرِف عنه من السُّوءِ مثلَها . قالوا : إذًا نُكثِرُ . قال : اللهُ أكثرُ. (صحيح الترغيب)
ترجمہ: جو بھی مسلمان دعا کرے جب کہ اس کی دعا کسی گناہ یا قطعِ رحم کے لیے نہ ہو، تو اللہ تعالی اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز عطا فرماتے ہیں، (۱) یا تو اس کی دعا فی الفور قبول فرما لیتے ہیں، (۲) یا آخرت میں اس دعا کو اس کے لیے ذخیرہ بنا دیتے ہیں، (۳) یا اس دعا کے بدلے اس طرح کی کوئی مصیبت ٹال دیتے ہیں۔ صحابہ نے کہا: تب تو ہم خوب دعائیں کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ بھی خوب عطا کرےگا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے