Header Ads Widget

سیرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ

سیرتِ عثمان غنی رضی اللہ عنہ 

سیرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ


آپ کا اسم مبارک ”عثمان بن عفان“ اور لقب ”ذوالنورین“ ہے آپ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
آپ کی پیدائش ۵۷۶ ہجری میں ہوئی، اسلام سے پہلے آپ کی خاندانِ قریش میں بہت عزت تھی اور آپ بڑے سخی تھے، ثروت و سخاوت کی وجہ سے آپ کو بڑی شہرت حاصل تھی۔
آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رہنمائی میں اسلام لائے، مسلمان ہونے کی خبر جب قریش کو ہوئی تو انھوں نے آپ کو سخت ایذائیں دیں۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ کا نکاح ان کے ساتھ کر دیا، جب اہلِ قریش کی طرف سے ایذارسائیوں کا سلسلہ جاری رہا تو آپ اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ملک حبش چلے گئے، اس طرح آپ پہلے شخص تھے جس نے مع اہل و عیال ہجرت فرمائی۔
جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو حضرت عثمان بھی حبش سے مدینہ پہنچ گئے۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان کے ساتھ کر دیا؛ چوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں آپ کے نکاح میں آئیں اس لیے آپ کا لقب ذوالنورین ہوا۔


خلافت

سن ۲۳ ہجری میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خلیفہ چننے کا سلسلہ بند ہوا، حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ جو بزرگ اور قابلِ احترام اور جلیل القدر صحابی تھے، آپ نے بڑے بڑے صحابہ، حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ اور دیگر صحابہ کرام سے مشورہ کرکے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام خلافت کے لیے پیش کیا، جس پر بلا اختلاف حضرت عثمان کا انتخاب ہو گیا اور تمام مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

جب ہجرت کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو تمام غزوات بدر سے لیکر تبوک تک میں شریک رہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سفیر بناکر کفارِ مکہ کے پاس بھیجا، کفار مکہ نے آپ کو قید کر لیا؛ لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ آپ کو شہید کر دیا گیا ہے، اس لیے آپ کا سخت صدمہ ہوا، کفارِ مکہ سے انتقام لینے کے لیے آپ نے صحابہ کرام سے موت کی بیعت لی، اسی دوران خبر ملی کہ حضرت عثمان زندہ ہیں مگر قید ہیں، یہ خبر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ حضرت عثمان کا قرار دیا اور ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر کہا یہ عثمان کی طرف سے ہے، اسی بیعت کا نام بیعتِ رضوان ہے۔



حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں فتوحات

آپ کے عہدِ خلافت میں بہت سی فتوحات ہوئیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتح کیے ہوئے علاقے چھن لیے گئے تھے جو کہ پھر باگزار کیے گئے، ہمدان کے لوگ باغی ہو گئے تھے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے اس ملک کو فتح کیا، اسکندریہ کو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے زبردست معرکہ سر انجام دیکر اس باغی علاقے کو سلطنتِ اسلامیہ میں شامل کیا، حضرت ولید بن عقبہ کی کوششوں سے آذربائیجان کے علاقہ پر دوبارہ تسلط ہوا اور قرب و جوار کے علاقے فتح ہوئے، اس کے علاوہ آرمینیا کے علاقے فتح ہوئے، خلافت کے پہلے سال سن ۲۴ ہجری میں ملک روم کے بہت سے قلعے فتح ہوئے، حضرت بدر بن مغیرہ کوفہ کے حاکم تھے ان کو معزول کرکے سعد بن ابی وقاص کو وہاں کا حاکم بنایا۔

سن ۲۶ ہجری میں حضرت عثمان نے کچھ مکانانات خرید کر خانہ کعبہ کو وسیع کیا، سن ۲۷ ہجری میں حضرت عمرو بن عاص کو مصر سے معزول کرکے ان کی جگہ عبداللہ بن ابی سرح کو وہاں بھیجا، انھوں نے افریقہ پر حملہ کیا اور تمام ملک پر قبضہ کر لیا۔

سن ۲۹ ہجری میں حضرت عثمان نے مسجد نبوی کو وسیع کیا، جس کا رقبہ آپ کے عہدِ خلافت میں 450×480 ہو گیا، مسجد میں منقش پتھر لگوائے اور انھی پتھروں کے ستون بنوائے اور ساگوان کی لکڑی کا استعمال کیا گیا۔



عبداللہ بن ابی سرح جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے، جب ان کو مصر کا حاکم مقرر کیا تو کچھ عرصہ بعد ہی اس کے خلاف ظلم، جبر اور زیادتی کرنے کی شکایات حضرت عثمان کے پاس پہنچنے لگیں، تو حضرت عثمان نے چند جلیل القدر صحابہ کرام کے کہنے پر اس کو عہدہ سے معزول کر دیا، یہ شکایات لےکر مصر سے تقریبا سات سو آدمی پہنچے تھے جنھوں نے مظالم کی داستانیں سنائیں، یہ معاملہ اس وقت زبردست سیاسی چالبازی کا شکار ہو گیا، جس کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بدگمانی کا اظہار ہونے لگا، اس میں وہ لوگ پیش پیش تھے جنھوں نے حضرت عثمان کو دلی طور پر خلیفہ تسلیم نہیں کیا تھا اور جو لوگ آپ کی خلافت کی وجہ سے فائز عہدوں سے معزول ہوئے تھے۔


سن ۳۵ ہجری میں حضرت عثمان زبردست مخالفت کی وجہ سے گھر میں نظربند ہو گئے، اگر چہ آپ کی حفاظت کے لیے حضرت حسن، حضرت حسین، محمد بن طلحہ اور عبداللہ بن زبیر مامور تھے اور آپ کے دروازے پر چوکس کھڑے تھے؛ لیکن آپ کے مکان کے باہر بڑی جری بھیڑ کا زبردست شور و غل تھا، جس کی وجہ سے پورے مکان کی حفاظت ممکن نہ تھی، اہلِ مصر کے دو باشندے جو کہ حاکمِ مصر کے خلاف شکایت کنندگان کے ساتھ آئے تھے،  مکان کے کھلے حصے کی دیوار پھاند کر مکان کے اندر داخل ہو گئے اور آپ کو شہید کر دیا، شہادت کے وقت آپ کلام پاک کی تلاوت فرما رہے تھے اور آپ کا خون کلام پاک کے اوراق پر گرا، یہ کلام پاک آج بھی مدینہ منورہ میں محفوظ ہے، آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا، آپ نے بارہ سال تک خلافت کی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے