Header Ads Widget

سیرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مختصر سیرت


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مختصر سیرت


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے خلیفہ تھے صحابۂ کرام میں آپ کا مقام و رتبہ سب سے ممتاز ہے؛ بلکہ آپ امتِ محمدیہ میں سب سے افضل شخص ہیں۔


آپ کا اسم مبارک

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی قبل از اسلام ”عبدالکعبہ“ تھا، اسلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام ”عبداللہ“ تجویز فرمایا، آپ کا سلسلۂ نسب یوں ہے:
”عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب“ 
مرہ بن کعب پر جاکر آپ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسبی سلسلہ مل جاتا ہے۔
آپ کا لقب ”صدیق“ اور کنیت ”ابوبکر“ ہے، آپ اپنی کنیت سے زیادہ مشہور ہیں، آپ ”عتیق“ نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔

آپ کی ولادت 

آپ کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دو سال دو مہینے بعد سرزمینِ مکہ مکرمہ میں ہوئی، آپ کی پرورش مکہ ہی میں ہوئی، آپ صاحبِ مروت اور مہمان نواز انسان تھے، زمانہِ جاہلیت میں قریش کے خاندان میں رئیس سمجھے جاتے تھے، آپ تجارتی اغراض کے لیے مکہ سے باہر کا بھی سفر کرتے تھے۔


قبولِ اسلام اور خلافت و خدمات

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سامنے اسلام کا پیغام سنایا تو آپ نے بلا چوں و چرا اسلام قبول کر لیا اور یوں آزاد اور بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے دولتِ ایمان سے شرف یاب ہوئے، آپ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیقِ خاص رہے اور آپ کے ساتھ سفرِ حج اور غزوات میں شامل رہے، آپ نے اسلام کی خاطر اپنے اہل و عیال کو ترک کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غارِ حرا میں مقیم رہے اور آپ ہی کے ساتھ آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
آپ نے اسلام کے لیے بےپناہ خدمات انجام دی ہیں، بہت سا روپیہ پیسہ راہِ خدا اور اشاعتِ دین کی نذر کر دیا، نیز آپ نے بہت سارا مال خرچ کرکے کئی غلاموں کو آزاد کیا، حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو آپ ہی آزاد کیا تھا، اسلام میں آپ کا درجہ بہت اونچا ہے آپ ان دس ممتاز صحابۂ کرام میں سے ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت سنائی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ بالاتفاق خلیفہ و جانشیں قرار پائے، ۱۴/ ربیع الاول سن ۱۱ ہجری کو آپ ممبرِ رسول مقبول پر بیٹھے۔
آپ کے زمانۂ خلافت میں مختلف فتنے رونما ہوئے جو کہ فرو ہو گئے، طلیحہ کی نبوت کا فتنہ، مسیلمہ کذاب کی پیغمبری کا دعوی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دنوں میں ظاہر ہوا جو ختم کر دیا گیا۔
سن ۱۲ ہجری میں مسیلمہ کذاب اور اس کے حامی قبیلہ بنی حنیفہ کی شورش کو ختم کرنے کے لیے جنگِ یمانہ لڑنی پڑی، یہ قبیلہ بے انتہا قوت و طاقت کا مالک تھا؛ لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو اسلامی لشکر کے عظیم سپہ سالار تھے، جن کی جرأت و بہادری اور جنگی حکمتِ عملی کی وجہ سے مسیلمہ کذاب کے لشکر کو شکست ہوئی، اس جنگ میں بہت سے حافظانِ قرآن شہید ہوئے؛ چناں چہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فکر لاحق ہوئی کہ قرآن کریم کو جمع کر لینا چاہیے؛ چناں چہ اس کام کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جو کاتبِ وحی تھے مامور فرمایا، آپ نے قرآنی آیات کو جو کاغذوں، درختوں کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی ہوئی تھیں اور حفاظ کرام کے سینوں میں محفوظ تھیں یکجا کیا۔
آپ کے عہدِ خلافت میں بہت سی جنگیں لڑی گئیں، فتوحاتِ ارض عراق، ایران کے ساتھ جنگ اور فتوحاتِ شام و فلسطین آپ کے عہدِ خلافت میں ہوئیں۔

آپ سے بہت سی احادیث مروی ہیں؛ کیوں کہ آپ کو ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت و معیت نصیب ہوئی، تمام مصائب میں ان کے رفیق و مونس رہے، جب سے آپ نے اسلام قبول کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرقت گوارہ نہ کر سکتے تھے، آخر اسی غم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دو سال تین مہینے بعد ۲۲ جمادی الاخری سن ۱۳ ہجری کو دارِ فانی سے رخصت ہوئے اور پہلوئے رسول میں محوِ خواب ہوئے، آپ کی عمر مبارک ۶۳ سال تھی۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے