Header Ads Widget

سیرتِ علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ

 سیرتِ علی مرتضی رضی اللہ عنہ


حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مختصر سیرت



حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی مختصر سیرت


آپ کا نامِ مبارک ”علی“ ہے، آپ کے والد کا نام ”ابوطالب ہے“ جن کا دوسرا نام ”عبدمناف“ ہے، آپ کی والدہ کا نام ”فاطمہ“ ہے، جنھوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرتِ مدینہ کا شرف بھی حاصل کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والدین دونوں خاندانی ہاشمی سے تعلق رکھتے تھے۔
آپ کے والد “ابوطالب“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔
آپ کا لقب ”اسد اللہ“، ”حیدر“ اور ”مرتضی“ ہے، آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ابوالحسن اور ”ابوتراب“ کے لقب سے بھی مخاطب فرمایا ہے۔

آپ ایامِ طفولیت سے ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ زمانۂِ طفلی میں اپنے فرزند کی طرح شفقت و محبت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔
زمانۂِ طفلی میں ہی آپ نے نو دس برس کی عمر میں ایمان قبول کر لیا تھا، آپ بڑے بہادر، اعلی درجہ کے زاہد اور مشہور خطیب تھے، آپ کی جرأت و بہادری کے نقوشِ تاباں کتابوں کے اوراق کی زینت بنے ہوئے ہیں، آپ بہت سے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے، جنگوں میں آپ کی جرأت و بہادری مثالی اور دیدنی ہوتی تھی، آپ نے غزوۂ خیبر میں قلعۂ خبیر کا ایک دروازہ اپنے ہاتھ سے اکھاڑ ڈالا تھا اور دشمنوں پر حملہ کے وقت اس کو بطور ڈھال استعمال کیا تھا۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی، پیاری اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے نکاح میں آئیں۔
سن ۲۵ ہجری میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی دردانگیز اور المناک شہادت کے بعد مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔ آپ کے دور خلافت میں مختلف فتنوں نے سر اٹھائے، اہلِ شام آپ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوئے، آپ کے دورِ خلافت میں کوئی نئی فتوحات نہیں ہوئیں؛ کیوں کہ آپسی بدگمانیوں کی وجہ سے بہت سے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، سن ۳۶ ہجری میں حضرت طلحہ و زبیر اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے جنگ کی نوبت آئی، سن ۳۷ ہجری میں جنگِ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہلِ شام سے مقابلہ کرنا پڑا، سن ۳۸ ہجری میں جنگِ نہروان میں خوارج سے مقابلہ ہوا۔

حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے درمیان جو اختلاف تھا اس کی بنیاد حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لینے پر تھی، حضرت معاویہ ان سے از خود بدلہ لینا چاہتے تھے، جب کہ حضرت علی کا موقف تھا کہ بلوائیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے؛ لہذا ان سے بدلہ لینا مزید انتشار و بدامنی کا سبب بن سکتا ہے۔ حضرت معاویہ خود بدلہ لینا چاہتے تھے اور حضرت علی ان کو روکنے پر بضد تھے؛ چناں چہ ان کی یہ کشمکش بالآخر فوج کشی اور جنگ پر منتج ہوئی۔

حضرت علی اور حضرت معاویہ جس وقت باہم محاذ آرا اور بر سرِ پیکار تھے، اس وقت روم کی عیسائی ریاستوں کے حکمرانوں نے سوچا کہ مسلمان آپسی لڑائیوں میں لگے ہوئے ہیں یہ بہت ہی اچھا موقع ہے کہ مدینہ منورہ پر لشکر کشی کرکے قبضہ کر لیا جائے؛ چناں چہ ان کی طرف سے اس جنگی مہم کی تیاری شروع ہونے لگی، جب حضرت امیر معاویہ کو ان کے ناپاک عزائم کی بھنک لگی تو آپ نے عیسائی سپہ سالار کو خط لکھا کہ: کہ اے رومی کتو! تم ہماری آپسی لڑائی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، جس وقت تم مدینہ کی طرف رخ کروگے تو خدا کی قسم علی کے لشکر سے جو پہلا سپاہی تمہاری سرکوبی کے لیے نکلےگا اس کا نام ”معاویہ“ ہے، اس خط کے پہنچنے کے بعد عیسائی لشکر کی ہمت پست ہو گئی اور وہ اپنے ناپاک عزائم پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے عاجز رہ گئے۔
حضرت علی مرتضی بہت بڑے دلیر اور طاقت ور تھے، ہمیشہ دلیری سے بات کرتے تھے، ان کی ہیبت کے سبب لوگ ان سے بات کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے، آپ ہزاروں اوصاف: علم و عمل، ورع و تقوی، جرأت و بہادری اور انگنت صفاتِ حمیدہ سے متصف تھے، آپ کی جانب علم و حکمت کی ہزاروں کلمات منسوب ہیں۔
سن ۴۰ ہجری میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ۱۸ رمضان المبارک کو کوفہ کے ایک مقام میں ایک خارجی عبدالرحمان بن بلجم کے ہاتھوں شہادت پائی۔
آپ کی مدتِ خلافت چار سال آٹھ مہینے رہی۔

یہ بھی پڑھیں: 






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے