Header Ads Widget

سیرتِ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مختصر سیرت


حضرت عمر فاروق کی مختصر سیرت


آپ کا اسم مبارک ”عمر“ ہے، لقب ”فاروق“ اور کنیت ”ابوحفص“ ہے۔
آپ کی پیدائش 583 عیسوی مکہ میں ہوئی، خاندانِ قریش کے شرفا میں سے تھے، اسلام لانے سے پہلے کفر میں بڑی شدت سے تھے، بہادر بارعب اور قوی تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مسلمان ہونے کی دعا فرمائی تھی، ان کے مسلمان ہو جانے کے بعد مسلمانوں کو بہت تقویت حاصل ہوئی تھی، مسلمان جہاں چھپ چھپ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے اب کھلے عام نماز کی ادائیگی ہونے لگی۔
اسلام لانے سے پہلے جیسی شدت کفر میں تھی اس سے کہیں زیادہ اسلام میں ہوئی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جب لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ رسالت مآب اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو حضرت عمر فاروق بہت حیران و پریشان ہوئے، سخت غصہ کی حالت میں مسجدِ نبوی گئے اور ننگی تلوار لیکر کھڑے ہو گئے اور چلا چلا کر فرمانے لگے:
” جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے ہیں وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں، آپ کی وفات نہیں ہوئی ہے؛ بلکہ آپ تو خداوند تعالی کے پاس تشریف لے گئے ہیں، کچھ دیر بعد تشریف لائیں گے، اور جو لوگ آپ کی وفات کی خبر اڑائیں گے ان کو سزا دی جائےگی۔

اسی موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
”لوگو! جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ سن لیں کہ آپ رحلت فرما چکے ہیں اور جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ جان لیں کہ وہ زندہ ہے کبھی نہیں مرےگا“۔


خلافت اور تواضع و انکساری

خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سن ۱۳ ہجری میں عام مسلمانوں نے اتفاق رائے سے آپ کو خلیفہ منتخب کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

آپ کے مزاج میں سختی تھی اور آپ کو غصہ بہت جلد آ جاتا تھا؛ لیکن اپنی ذات کے لیے کبھی غصہ نہ کرتے تھے، لوگ آپ کی سخت گیری سے بہت خوفزدہ تھے اور گھروں کے باہر آزادانہ گھومنا بند کر دیا، آپ نے یہ دیکھ کر لوگوں کو جمع کیا اور خطبہ دیا:
” اے لوگو! مجھے آپ لوگوں نے خلیفہ چنا ہے میری آپ لوگوں پر کوئی سختی نہ ہوگی، میری سختی ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔ لوگو! اگر میں سنت نبوی اور سیرتِ صدیقی کے خلاف کوئی حکم دوں تو آپ مجھے فورا روک دینا، میں سب زیادہ اس شخص کو پسند کروں گا جو مجھے میرے عیبوں کے بارے میں بتائےگا“۔

خلیفہ ہونے کے بعد منبر پر اس جگہ پر بیٹھے جہاں ابوبکر صدیق اپنے پاؤں رکھتے تھے، لوگوں نے آپ کو اوپر بیٹھنے کو کہا تو آپ نے فرمایا، میرے لیے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبر کے پاؤں رہتے تھے۔
لوگوں نے آپ کو خلیفۂ رسول کہنا چاہا تو فرمایا میں اس قابل نہیں ہوں اور اپنے لیے ایک سادہ لفظ ”امیر المومنین“ پسند فرمایا، بیت المال سے اپنے لیے وظیفہ کم مقرر کیا جو آپ کی ضرورت کے لیے کافی نہ ہوتا تھا۔

امیر المومنین جن کے قبضہ میں عظیم سلطنت قیصر و کسری ہو، جن کا حکم عرب و عجم میں چلتا ہو، اس کی سادہ لوحی اور زہد کا یہ عالم تھا کہ آپ کے جسم پر جو لباس ہوتا تھا اس میں کئی کئی پیوند لگے ہوتے تھے، آپ کے اسی زہد و تقوی اور جاہ و جلال کو دیکھ کر وہ وفود جو مختلف سلطنتوں سے ملنے کے لیے آتے تھے کانپ اٹھتے تھے۔

آپ کے عہد میں بہت سی اسلامی جنگیں لڑی گئیں، بہت بڑا علاقہ اسلامی پرچم تلے آیا، آپ نے امورں سلطنت میں بہت سے نئے نئے قانون نافذ کیے، دفتر اور کچہری کا قیام آپ کے دور میں ہوا، آپ ہی نے سن ہجری جاری کیا، امورِ سلطنت کے لیے آپ نے تین قسم کے عہدےدار مقرر کیے:
(۱) امیرِ شہر: جو شہر اور فوج کا انتظام کرتا تھا۔
(۲) عہدۂ قاضی: اس کے پاس تمام امور کے فیصلہ کرنے کے حقوق ہوتے تھے۔
(۳) تحویلدار: اس کے پاس خزانے کا محکمہ ہوتا تھا۔
آپ نے شہروں کو آباد کرنے کے احکامات جاری کیے، عراق کے شہر بصرہ اور کوفہ آپ نے آباد کروائے تھے۔

وفات

امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھنے کے لیے سب سے پہلے مسجد تشریف لے جاتے تھے اور لوگوں کو نماز کے لیے جگاتے جاتے تھے، نماز ادا کرنے کے لیے صفیں سیدھی کراتے تھے۔
ابولؤلؤ مغیرہ کا غلام تھا، ابولؤلؤ نے اپنے آقا کے خلاف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس شکایت کی تھی، جس پر آپ نے ابولؤلؤ کو اپنے حسنِ سلوک سے اپنے آقا کو خوش کرنے کی تلقین کی تھی؛ لیکن ابولؤلؤ نے اس فیصلہ کو اپنے خلاف سمجھا اور آپ کے خلاف دشمنی کا جذبہ پیدا کر لیا۔
ایک روز ابولؤلؤ صبح کی نماز ادا کرنے کے لیے پہلی صف میں کھڑا ہو گیا، جب حضرت عمر صفیں سیدھی کروا چکے اور نماز پڑھانی شروع کی تو دفعۃ ابولؤلؤ نے آپ پر زہر آلود خنجر سے پیہم چھ وار کیے، جس سے آپ گر کر وہیں شہید ہو گئے، جن لوگوں نے ابولؤلؤ کو گرفتار کرنا چاہا تو اس نے انھیں بھی اس زہر آلود خنجر سے زخمی کر دیا؛ چناں چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ چھ دیگر اصحاب نے بھی جام شہادت نوش کیا، اور آپ پہلوئے رسول میں مدفون ہوئے، یہ واقعہ سن ۲۳ ہجری آخری ذوالحجہ کا ہے۔ اس طرح آپ کا عہدِ خلافت ۱۰ سال ۶ ماہ رہا۔




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے