Header Ads Widget

رزق کی تنگی کیسے دور کریں؟| معیشت کی تنگی کے اسباب و علاج

رزق کی تنگی کیسے دور کریں؟

معاشی تنگی کے اسباب اور اس کا علاج


رزق کی اہمیت

رزق اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے، اس کے بغیر حیاتِ انسانی کی بقا محال ہے، انسان کی دنیوی زندگی رزق پر ہی منحصر ہے؛ یہی وجہ ہے کہ انسان حصول رزق اور تلاشِ معاش کی خاطر گلی گلی پھرتا ہے، شہروں کی خاک چھانتا ہے، بادیہ پیمائی کرتا ہے، محنت و مزدوری کرتا ہے اور نہ جانے کتنے جتن کرتا ہے۔ رزق اور مال و دولت انسان کے لیے مرغوب کر دی گئی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا. (سورۃ الکہف)
ترجمہ: مال اور اولاد دنیوی زندگی کی رونق ہیں، اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔


دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ ہر شخص آب و دانہ کی تلاش میں حیراں و سرگراں ہے، یہ نوکری چاکری، تجارت و زراعت، پیشہ و ملازمت  غرض جتنے بھی امور انجام پذیر ہو رہے ہیں سب کا سرا رزق سے وابستہ ہے۔ 
رزق میں وسعت و کشادگی اور فراخی و فراوانی جہاں انسانوں کے لیے خوشحالی، آسائش و آرام اور راحت کا باعث ہیں، وہیں رزق کی قلت و تنگی مایوسی و غمگینی اور افسردہ خاطری کا سبب ہیں، جس کا مشاہدہ ہم اپنے آس پاس بہ آسانی کر سکتے ہیں۔
لیکن رزق کے حوالے سے ایک مومن کا اعتقاد یہ ہونا چاہیے کہ روزی روٹی کا مالک اللہ کی ذات ہے، رزق رسانی اسی کے دستِ قدرت میں ہے، زمین کی پشت پر چلنے والے درندے ہوں یا فضا میں اڑنے والے پرندے، سمندری مخلوقات ہوں یا زمینی حیوانات، غرض ہر ایک مخلوق تک رزق پہنچانے کی ذمہ داری اسی کی ہے، اس قسام ازل نے ہر ایک کا رزق متعین کر دیا ہے، جو اسے ملکر رہےگا، ممکن نہیں کہ کوئی مخلوق اپنے حصے کا رزق پائے اور کھائے بغیر مر جائے۔
نیز مومن کی یہ شان بھی ہونی چاہیے کہ جب اسے رزق کی فراوانی حاصل ہو تو اسے اپنے خالق و رازق کا احسان و کرم سمجھے اور سجدۂ شکر بجا لائے، اور جب تنگیِ رزق کا سامنا ہو تو اسے اپنے خالق کی حکمت و مصلحت گردانے اور صبر و شکیبت کا مظاہرہ کرے۔


بےشک رزق کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے؛ تاہم اسباب و عوامل کے اختیار کرنے کی ذمہ داری مخلوقات کو سونپی ہے، یہ دنیا دارالاسباب ہے، یہاں اسباب کے زیرِ اثر ہی امور انجام پاتے ہیں، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے حلال و مشروع ذرائع سے کسبِ معاش کی نہ صرف اجازت دی ہے؛ بلکہ اس کی تحسین بھی کی ہے؛ کیوں کہ حلال اور پاکیزہ رزق اللہ کی عظیم نعمت ہے اور اللہ کی نعمتوں کا استحقاق سب سے زیادہ ایک مومن کو ہی حاصل ہے۔

حصول رزق کے لیے محض اسباب و وسائل ہی کار آمد اور کافی نہیں ہیں؛ بلکہ اس کے علاوہ بھی امور ہیں جن کا تعلق انسانوں کے ایمان و اعتقاد سے ہے، جن کا اگر لحاظ کیا جائے تو تنگیِ رزق کی پریشانی ختم ہو جائےگی اور رزق میں برکت و وسعت ضرور پیدا ہوگی؛ بشرط کہ حصول رزق کے لیے اسباب و وسائل صحیح طور پر اختیار کیے جائیں۔

اس سے قبل کے ہم ان امور کا تذکرہ کریں جو رزق میں وسعت و فراخی کا سبب ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ رزق کی تعریف کر دی جائے؛ تاکہ رزق کا صحیح مفہوم ہمارے ذہن میں آ جائے۔

رزق کی تعریف

رزق ان مادی و معنوی اشیا کا نام ہے جو تجارت و زراعت اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں اور انسان ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
نیز اس کی ایک تعریف یوں بھی کی گئی ہے کہ رزق اس چیز کا نام ہے جسے اللہ تعالی مخلوقات تک پہنچاتے ہیں اور مخلوق اسے کھاتی ہے۔ (شرح العقائد النسفیہ)

رزق کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے

اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق سے پہلے جس طرح اس کی موت کا وقت متعین کر دیا ہے اسی طرح اس کو ملنے والے رزق کی مقدار بھی متعین فرما دی ہے؛ چناں چہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يا أيُّها النَّاسُ اتَّقوا اللهَ وأجمِلوا في الطَّلبِ فإنَّ نفسًا لن تموتَ حتَّى تستوفيَ رزقَها وإن أبطأ عنها فاتَّقوا اللهَ وأجمِلوا في الطَّلبِ خذوا ما حلَّ ودَعوا ما حرُم. (الترغيب والترهيب)

ترجمہ: اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور طلبِ معاش میں اعتدال اختیار کرو؛ اس لیے کہ کوئی جاندار اس وقت تک نہیں مرےگا جب تک کہ وہ اپنی روزی پوری نہ کر لے اگر چہ اس میں تاخیر ہو؛ لہذا اللہ سے ڈرو اور طلبِ رزق میں اعتدال اختیار کرو، حلال چیزیں لو اور حرام چیزیں چھوڑ دو۔

نیز قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
 وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا. (سورہ ہود)
ترجمہ: روئے زمین پر چلنے والوں جانداروں میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔

اس بات پر کامل ایمان رکھنا کہ رزق کی مقدار تقدیر میں نوشتہ ہے، اسی طرح یہ اعتقاد بھی ضروری ہے کہ بسااوقات کسی عارض اور سبب کی بنیاد پر بندے تک رزق پہنچنے میں تاخیر ہوتی ہے، اور اس تاخیر میں بھی حق تعالی کی مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، ابن آدم کا رزق اس کی پیدائش سے پہلے ہی مقرر ہو چکا ہے؛ چناں چہ حدیث شریف میں ہے:
إنَّ اللَّهَ عزَّ وجلَّ قد وَكَّلَ بالرَّحمِ ملَكًا، فيقولُ: أي ربِّ، نُطفةٌ، أي ربِّ، علقةٌ، أي ربِّ، مضغةٌ، فإذا أرادَ اللَّهُ أن يقضيَ خلقًا، قالَ: قال الملكُ: أي ربِّ ذَكَرٌ أم أنثى؟ شقيٌّ أم سعيدٌ؟ فما الرِّزقُ؟ فما الأجلُ؟ فيُكْتبُ كذلِكَ في بَطنِ أمِّهِ (رواه مسلم)

ترجمہ: بےشک اللہ تعالی نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے، وہ کہتا ہے اے میرے رب یہ نطفہ ہے، اے میرے رب یہ جما ہوا خون ہے، اے میرے رب یہ لوتھڑا ہے، پھر جب اللہ تعالی اس کے پیدا کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں، تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے یہ نر ہے یا مادہ، یہ شقی ہے یا سعید، اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے؟
پس اسی طرح سب کچھ اس کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔

رزق کی تنگی کیسے دور کریں؟


گناہوں سے پرہیز

رزق میں فراخی و وسعت کے لیے معصیات سے اجتناب لازمی امر ہے، انسان جب بہ کثرت گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ سے رزق میں بےبرکتی اور تنگی پیدا ہو جاتی ہے؛ جیسا کہ حدیث شریف میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إنَّ الرَّجلَ ليُحرمُ الرِّزقَ بالذَّنبِ يُصيبُه. (الترغیب و الترھیب)
ترجمہ: انسان گناہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

یوں تو تمام تر معاصی و ذنوب تنگیِ رزق کا باعث بنتے ہیں؛ لیکن خاص طور سے زنا اور فحش کام، ایسے گناہ ہیں جن کے متعلق خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ان کی وجہ سے رزق میں تنگی پیدا ہوتی ہے؛ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
الزِّنا يورِثُ الفقرَ. (رواه السفاريني في شرح كتاب الشهاب)
 یعنی زنا کی وجہ سے فقر و فاقہ پیدا ہوتا ہے۔
حدیث میں اگر چہ صرف زنا کا تذکرہ ہے؛ تاہم اس کے ضمن میں وہ تمام در معصیات داخل ہو جائیں گی جو زنا تک لے جانے والی ہیں، مثلا بد نظری وغیرہ۔

اللہ تعالی سے رزق میں برکت کی دعا کرنا

جب انسان کو رزق کی تنگی کا سامنا ہو تو اسے حق تعالی کی جانب کامل عاجزی و انکساری کے ساتھ متوجہ ہوکر رزق میں برکت اور وسعت و فراخی طلب کرنی چاہیے، جب بندے پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو حق تعالی چاہتے ہیں کہ بندہ اس کے دربار میں عجز و مسکنت کی چادر اوڑھے آئے اور اپنی پریشانی کا اظہار کرے، اور چوں کہ ایسے پریشانی کے وقت کی جانے والی دعاؤں میں اخلاص و عاجزی و انکساری کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے بہ ایں وجہ بندے کی دعائیں اللہ کو نہایت محبوب ہو جاتی ہیں؛ چناں چہ وہ خوش ہوکر اس کی تنگیوں اور پریشانیوں کا مداوا کرتا ہے؛ لہذا حق تعالی سے رزق میں برکت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔

صلہ رحمی کرنا

قطعِ رحم اور رشتہ داروں سے لاتعلقی کی بنا پر بھی رزق میں تنگی پیدا ہوتی ہے اور صلہ رحمی، خویش و اقارب سے حسن سلوک اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی سے زندگی خوشحال ہو جاتی ہے، رزق و معاش کی پریشانی اور تنگی ختم ہو جاتی ہے، جیسا کہ سرورِ کائنات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: 
مَن أحَبَّ أنْ يُبسَطَ له في رزقِه ويُنسَأَ له في أجَلِه فلْيتَّقِ اللهَ ولْيصِلْ رحِمَه. (رواہ ابن حبان في شرح ابن حبان) 
ترجمہ: جو شخص اس بات کو محبوب رکھتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر میں برکت پیدا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور صلہ رحمی کرے۔

صدقہ کرنا

صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بلاؤں، آفتوں اور پریشانیوں کو دور کرتا ہے، صدقہ کرنے سے بھی رزق میں فراخی حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالی صدقہ کرنے کے عوض اس سے کئی گنا دنیا ہی میں عطا کر دیتا ہے اور آخرت میں اس عمل کے عوض اللہ کے یہاں جو اجر و ثواب ہے اور انسانی تصور سے بالاتر ہے، بےشک یہ مال و دولت جو انسان کو حاصل ہے یہ سب رب تعالی ہی الطاف و عنایات ہیں وہ مال و دولت کے ذریعے آزماتا ہے جو اس کا درست اور صحیح استعمال کرتا ہے راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کرتا ہے گویا وہ اس امتحان و آزمائش میں کامیاب ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالی مسرور ہوکر اس پر اپنی رحمت کے دروازے وا کر دیتے ہیں؛ چناں چہ جس قدر بھی ممکن ہو نہایت اخلاص و للہیت کے ساتھ راہِ خدا میں صدقہ کرتے رہنا چاہیے، اس کا صلہ دنیا میں تو ملنا ہی ملنا ہے اور اگر نہ بھی ملے تو آخرت میں ملنے والا اجر و ثواب تو ہے ہی۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے