Header Ads Widget

رزق میں تنگی کیوں پیدا ہوتی ہے؟ جانیے قرآن و حدیث کی روشنی میں

تنگیِ رزق کے اسباب قرآن و حدیث کی روشنی میں


رزق میں تنگی کیوں پیدا ہوتی ہے؟




رزاق و قسام اللہ کی ذات ہے

اللہ تعالی نے ہر مخلوق کے لیے رزق متعین کر دیا ہے؛ چناں چہ حق تعالی کا ارشاد ہے:
وفي السماء رزقكم وما توعدون فَوَرَبِّ السَّمَاءِ والأرض إِنَّهُ لَحَقٌّ مثل ما أنكم تنطقون. (سورة الذاريات)
ترجمہ: اور آسمانوں میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے، پس آسمان و زمین کے رب کی قسم یہ یقینا حق ہے اس بات کی طرح جسے تم بولتے ہو۔



لیکن رزق کی تقسیم کے اللہ تعالی نے مختلف معیار بنائے ہیں، کسی کو بڑی آسانی سے اس کا رزق حاصل ہو جاتا ہے، تو کوئی محنت و مشقت کی چکی میں پیس کر اپنا رزق پاتا ہے، غرض رزق حاصل کرنے کے مختلف طریقۂ کار ہیں کچھ سہل ہیں اور کچھ انتہائی شاق؛ لیکن اللہ تعالی نے بندوں کو تلاش رزق کا حکم فرمایا ہے، اس کے لیے اسباب و عوامل بنائے ہیں جنھیں اختیار کرکے انسان اپنے حصے کا رزق پاتا ہے، چوں کہ دنیا دارالاسباب ہے یہاں وہی پائے گا جو محنت کرےگا، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر آسمان سے دستر خوان کے نزول کا انتظار کرنے والے کو سوائے حرماں نصیبی کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔
تلاش رزق کے لیے اسباب اختیار کرنا بالکل معیوب نہیں؛ بلکہ ایک مستحسن فعل ہے، حلال رزق کا متلاشی حق تعالی کا بڑا محبوب ہوتا ہے؛چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
والذي نفسي بيده لأن يأخذ أحدكم حبله،فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا فيسأله أعطاه أو منعه“ (متفق عليه)

ترجمہ:  اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آ کر سوال کرے۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔
حاصل یہ ہے کہ سچے دل سے حلال و طیب رزق کی جستجو کرنے والے کو کبھی محرومیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے، مگر بسا اوقات کچھ ایسے اسباب و عوامل پیدا ہوتے ہیں جس کی بنا پر ہمارے رزق میں تنگی پیدا ہونے لگتی ہے یہ بھی من جانب اللہ ایک آزمائش ہی ہوتی ہے، ایسے وقت میں انسان کو ذیل میں بیان کردہ اسباب سے کامل اجتناب کرنا چاہیے، جس سے کہ اس کے رزق کی تنگی دور ہو، کیوں کہ یہ ایسے اسباب ہیں جن میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے اور بعد میں شکوہ کناں ہو جاتا ہے کہ ہمیں مالی وسعت فراہم نہیں ہے اور ہم رزق کی تنگی کے شکار ہیں۔

گناہ اور معصیت میں مبتلا ہونا

معاصی و ذنوب ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان دونوں جہاں کی بھلائی اور خیر سے محروم رہ جاتا ہے، اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم و يعفوا عن كثير“ (سورة الشورى) 
ترجمہ: اور تمھیں جو مصیبت پہنچی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے، اور وہ بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے۔
اس آیت میں اس بات کی طرف صاف اشارہ ملتا ہے کہ انسان کو تنگیِ رزق کی مصیبت ان کے کرتوت کی بنا پر لاحق ہوتی ہے، یعنی انسان جب معاصی و منکرات میں ملوث ہوتا ہے تو من جانب اللہ مختلف قسم کی مصیبتیں در آتی ہیں؛چناں چہ تنگیِ رزق کی مصیبت بھی اسی وجہ سے آتی ہے؛ البتہ انسان جب توبہ و استغفار کرتا ہے تو پھر رزق کے دروازے کھلنا شروع ہو جاتے ہیں؛ چناں چہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ“ (سورة هود)
ترجمہ:اے میری قوم ! اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگو، پھر اُس کی طرف رُجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارشیں برسائے گا، اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا، اور مجرم بن کر منہ نہ موڑو۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ کثرت استغفار کی وجہ سے اللہ تعالی رزق میں کشادگی پیدا فرما دیتے ہیں اور قحط سالی دور فرما دیتے ہیں۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے استغفار کا خاص اہتمام کریں۔

قطع رحمی کرنا

قطعِ رحم بھی تنگیِ رزق کا بڑا سبب ہے، قطعِ رحم کا مطلب یہ ہے کہ رشتہ داروں کے حقوق کی پاسداری نہ کی جائے اور ان کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ نہ کیا جائے۔
انسان جب رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق سے لاپروا ہو جاتا تو اس کے رزق میں تنگی پیدا کر دی جاتی ہے؛ چناں چہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا:
من سره أن يبسط عليه رزقه،أو ينسأ في أثره فليصل رحمه“ (متفق عليه)
ترجمہ:  جو اس بات کا خواہش مند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور اس کی عمر دراز کر دی جائے، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کیا کرے۔
پس معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کرنے سے بھی انسان کے رزق میں وسعت پیدا کر دی جاتی ہے؛ لہذا اس جانب خاص توجہ مبذول کرنا چاہیے، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کا معاملہ کرنا چاہیے۔


اللہ تعالی پر بھروسہ اور توکل میں کمی

 رزق کے حصول کے لیے اسباب جس قدر ضروری ہیں اسی قدر اللہ کی ذات پر بھروسہ اور امید بھی ضروری ہے؛ کیوں کی رزق دینے والی ذات تو فقط اللہ کی ہے؛لہذا انسان اللہ تعالی کے ساتھ جیسا گمان رکھےگا اللہ پاک اس کے ساتھ ویسا ہی فرمائیں گے، اگر انسان اللہ کی ذات سے رزق کی امید رکھے تو یقینا اللہ تعالی اس کے رزق میں فراخی پیدا فرمائےگا۔
حدیث مبارک میں آتا ہے:
لو أنكم كنتم توَكَّلُون على الله حق توَكُّلِهِ لرزقكم كما يرزق الطير، تَغْدُو خِمَاصَاً، وتَرُوحُ بِطَاناَ“ (رواه الترمذي)
ترجمہ:اگر تم اللہ پر ویسے بھروسہ کرو جیسا کہ بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے کہ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ ہوکر واپس لوٹتے ہیں۔  
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ انسان اگر صرف ظاہری اسباب کو اپناکر تلاش رزق کے لیے جد و جہد کرے اور اللہ کی ذات پر امید و توکل نہ کرے، تو اس کے رزق میں تنگی پیدا کر دی جاتی ہے۔ لیکن اگر انسان اسباب ظاہرہ کے ساتھ ساتھ اللہ پر کامل توکل بھی کرے تو اسے اس طرح رزق دیا جاتا ہے جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے، یعنی پرندے صبح سویرے خالی پیٹ محض اللہ کی ذات پر امید کرتے ہوئے تلاش رزق کے لیے نکلتے ہیں، اور جب واپس لوٹتے ہیں تو ان کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے۔



مالی حقوق کی عدم ادائیگی

مال میں کچھ حقوق واجب ہوتے ہیں جن کی ادائیگی انسان پر لازم ہوتی ہے، عدم ادائیگی کی صورت میں مال سے برکت چھین لی جاتی ہے اور تنگی مسلط کر دی جاتی ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
فأما من أعطى واتقى، و صدق بالحسنى، فسنيسره لليسرى، وأما من بخل واستغنى، وكذب بالحسنى، فسنيسره للعسرى“. (سورة الليل)
ترجمہ: پس جس شخص نے مال دیا اور پرہیزگار بنا،اور سب سے اچھی راہ کو سچ جانا،تو بہت جلد ہم اسے آسانی مہیا کر دیں گے، اور جس شخص نے بخل کیا اور لاپروا بنا اور سب سے اچھی راہ کو جھٹلایا،تو بہت جلد ہم اسے دشواری مہیا کردیں گے۔

آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہوا کہ اگر مالی حقوق یعنی زکات و صدقات واجبہ کی ادائیگی میں بخل سے کام لیا جائےگا تو مالی تنگی اور دشواری پکڑ لے گی، اور جو ان حقوق کو ادا کرےگا اللہ پاک اس کے لیے ہر چیز میں آسانی پیدا فرما دیں گے۔
پس ہمیں چاہیے کی زکات و صدقات کی ادائیگی میں بے اعتنائی اور عدم توجہی سے کام نہ لیا جائے۔


حرام مال کمانا

اللہ پاک نے حلال رزق کمانے کے دنیا میں مختلف طریقے پیدا فرما دیے ہیں، اس کے باوجود اگر کوئی شخص حرام مال کماتا ہے تو یقینا اس پر تنگی مسلط کردی جائےگی؛ کیوں کہ حرام مال کمانا کھانا کبیرہ گناہ ہے اور اللہ پاک نے قرآن کریم کے اندر صریح لفظوں میں انسانوں کو حرام مال سے خبردار کیا ہے اور حلال رزق کی جستجو کا حکم فرمایا ہے؛ چناں چہ ارشادِ باری تعالی ہے:
ياأيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل؛ إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم. (سورة النساء)
ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ؛ البتہ یہ ہو کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو۔
آیت کریمہ میں صریح طور پر حرام مال کے کسب سے منع فرمایا گیا ہے اور حلال طریقے سے کسب رزق کی ترغیب دی گئی ہے۔



یتیم کا مال کھانا

یتیم کا مال کھانا بہت بڑا ظلم ہے، قرآن کریم میں اس پر سخت ترین وعید وارد ہوئی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إن الذين يأكلون أموال اليتمى ظلما،إنما يأكلون في بطونهم نارا و يصلون سعيرا“. (سورة النساء)
ترجمہ:بیشک جو لوگ ناجائز طریقہ سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھر رہے ہیں،اور ایسے لوگ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔
یتیموں کا مال کھانا بے شک کبیرہ گناہ ہے اور آخرت میں اس کی بہت بڑی سزا ہے؛تاہم دنیا میں بھی سزا کے طور ایسے افراد پر رزق کی تنگی مسلط کردی جاتی ہے۔


سود و رشوت خوری

اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
وأحل الله البيع و حرم الربوا“ (سورة البقرة)
ترجمہ:اور اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے، سود و رشوت بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور آج تقریبا دنیا کی اکثریت اس لعنت کی شکار ہے؛ مسلمانوں کو چاہیے کہ حتی الامکان اس گناہ سے اجتناب کرے؛ کیوں رشوت و سود اور ہر ایسے طریقہ جس سے حرام مال برآمد ہوتا ہو شریعت میں حرام ہے اور ان کی وجہ سے مالی وسعت ختم ہو جاتی اور رزق میں تنگی پیدا ہو جاتی ہے، زندگی مشکل ترین ہوکر رہ جاتی ہے۔

اگر ان مذکورہ اسباب سے انسان کنارہ کشی اختیار کرے اور حلال و جائز طریقے سے رزق حاصل کرے تو ان شاءاللہ تعالی اسے اس کی زندگی میں رزق کی تنگی کی شکایت ہرگز نہ ہوگی۔









ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے