Header Ads Widget

نمازِ تہجد کی اہمیت و فضیلت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

 نمازِ تہجد کی اہمیت و فضیلت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

نماز تہجد کی اہمیت و فضیلت احادیث کی روشنی میں


تخلیقِ انسانی کا واحد مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی عبادت و بندگی کرے، اس کے علاوہ جتنے بھی امور ہیں جن کو انسان انجام دیتا ہے اس لیے ہیں تاکہ وہ عبادتِ الہی کے معاملے میں انسان کے معاون بن سکیں، انسان کی صحت و تندرستی، قوت و طاقت، مال و دولت، کھانا پینا؛ غرض ہر ایک چیز اس لیے ہے تاکہ انسان مستعد ہوکر اپنے مقصدِ اصلی کو انجام دے سکے۔

عبادت اللہ تعالی کے اوامر کی بجاآوری اور نواہی سے اجتناب و کنارہ کشی کا نام ہے، یعنی اللہ کے حکم کردہ چیزوں کو انجام دینا اور منع کردہ چیزوں سے رک جانا۔
لیکن عبادات کے اندر بھی فرقِ مراتب کا لحاظ کیا گیا ہے، یعنی ان کی انجام دہی کی صورت میں مرتب ہونے والے اجر و ثواب میں بڑا فرق ہے۔ چناں چہ کچھ امور ایسے ہیں جن کی فضیلت و اہمیت اور اجر ثواب بہت زیادہ ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کا اجر و ثواب دیگر عبادتوں کی بہ نسبت کچھ کم ہے۔

عبادات کی بہت سی انواع و اقسام ہیں؛ لیکن جب کبھی ہماری سماعت سے عبادت کا لفظ ٹکراتا ہے تو یقینی طور پر ہمارے ذہن میں نماز کا تصور گردش کرنے لگتا ہے، گو عبادات کا دائرہ نماز ہی میں محدود نہیں؛ تاہم اس کی اہمیت و فضیلت اس قدر نمایاں اور اس کا ثواب اس قدر زیادہ ہے کہ عبادت کا تصور نماز کے بغیر محال معلوم ہوتا ہے۔
پھر نمازوں کی اہمیت و فضیلت میں بھی تفاوت ہے؛ چناں چہ نمازوں میں سب سے اونچا و اعلی درجہ فرض و واجب کا ہے پھر سنت مؤکدہ کا پھر غیر مؤکدہ اور پھر نوافل کا۔

اگر چہ نمازوں میں نوافل کا درجہ اخیر کا ہے؛ تاہم اگر اس کو خلوص و للہیت اور حضور قلبی کے ساتھ ادا کیا جائے تو اس کی فضیلتیں اس قدر ہو جاتی ہیں کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا، بہت سی احادیثِ مبارکہ میں نوافل کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے، پھر نوافل میں جو مقام و مرتبہ نماز تہجد کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں ہے، تہجد کی نماز قبولیت کی ضامن ہے، نمازِ تہجد قربتِ الہی کا ذریعہ ہے، یہ نماز خوشنودئ رب کا باعث ہے، اس سے حسنات میں اضافہ ہوتا ہے، سئیات معاف ہوتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں، نمازِ تہجد سے محبتِ الہی کا حصول ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی توفیق ان ہی چنندہ افراد کے دامن میں آتی ہے جو اللہ کے لاڈلے ہوں، جن کا دل محبتِ الہی سے لبریز اور باطن تقوی و طہارت کے نور سے منور ہو، اور یہ یقینی بات ہے کہ شب کی مہیب تاریکی میں جب پوری دنیا آغوش خواب میں محوِ استراحت ہو، ہر سو سناٹا ہو اور فضائیں خاموش ہوں ایسے وقت میں نیند کی مٹھاس کو قربان کرکے نرم و گداز اور آرام دہ بستر سے اٹھ کر سخت سردی کے عالم میں وضو کرکے حضورِ الہی میں سر بہ سجدہ ہوکر رب سے سرگوشیاں کرنے والا رب کا لاڈلا اور پیارا نہ ہوگا تو کون ہوگا؟


زیرِ نظر تحریر نمازِ تہجد کے فضائل و برکات پر مشتمل ہے، جس میں احادیث کی روشنی میں تہجد کے انوار و برکات اور دینی و دنیوی فوائد کو بیان کیا گیا ہے، اس سے پہلے کہ ہم انھیں بیان کریں یہ بیان کر دینا ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ نمازِ تہجد کی کتنی رکعات ہیں اور ان کا وقت کب ہے؟

نماز تہجد کا وقت اور رکعات

نمازِ تہجد کا وقت عشا کی نماز کے بعد سے طلوعِ صبحِ صادق تک ہے، حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے شب، درمیانِ شب اور آخر شب میں تہجد کی نماز پڑھی ہے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آخرِ شب میں پڑھنے کا تھا، اور یہی افضل ہے؛ کیوں کہ جس قدر رات کا وقت گزرتا جاتا ہے اللہ تعالی کی الطاف و عنایات اور رحمت میں اسی قدر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے؛ لہذا سدسِ اخیر یعنی رات کے آخری چھٹے حصے میں تہجد کا ثواب سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

اگر اس کی رکعات کی بات کریں تو احادیث مبارکہ میں دو رکعت سے لیکر بارہ رکعت تک کا ثبوت ملتا ہے؛ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اکثر آٹھ رکعات پڑھنے کا تھا؛ چناں چہ علمائے احناف نے آٹھ رکعت تہجد کو افضل قرار دیا ہے۔



نمازِ تہجد کی فضیلت و اہمیت احادیث کی روشنی میں

یوں تو قرآن حکیم کی بہت سی آیات میں بھی قیام اللیل یعنی تہجد کا تذکرہ ملتا ہے؛ بہ خوفِ طوالت ہم صرف احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس کے فضائل کو جانیں گے، ہم ذیل میں احادیث کی روشنی میں نماز تہجد کی اہمیت و فضیلت بیان کر رہے ہیں۔

تہجد دخول جنت کا باعث

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہلی بار مدینہ تشریف لائے اور لوگ دیوانہ وار آپ کی زیارت کے لیے دوڑے جا رہے تھے تو ہم بھی یہ جاننے کی غرض سے گئے تھے کہ آپ واقعۃ اللہ کے نبی ہیں یا نہیں؟ پھر جب ہماری نظر آپ کے رخِ انور پر پڑی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا یقینا آپ اللہ کے پیغمبر ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم) اس موقع پر سب سے پہلا ارشاد جو ہم نے آپ کی زبانِ رسالت سے سنا وہ یہ تھا:
قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ. (جامع ترمذی، حدیث نمبر ۲۴۸۵)
ترجمہ: اے لوگو! آپس میں سلام کا رواج دو، کھانا کھلاؤ اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤگے۔

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعمال کو بیان فرمایا ہے جو سلامتی کے ساتھ جنت میں لے جانے کے باعث ہیں جن میں سے تہجد کی نماز بھی ہے؛ کیوں کہ یہ ایسے وقت میں ادا کی جاتی ہے جب ہر سو غفلت و خوابیدگی کا سماں ہوتا ہے اور اس کی ادائیگی انسان پر شاق گزرتی ہے۔

قربتِ الہی کا حصول اور سئیات کا کفارہ

حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
عليكمْ بقيامِ الليلِ فإنَّه دأبُ الصالحينَ قبلكمْ، و قربةٌ لَكُمْ إلى رَبِّكُمْ ، ومُكَفِّرَةٌ لِلسيئاتِ و منهاةٌ عنِ الإثمِ. ( صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر ۱۱۳۵)
 ترجمہ: تم قیام الیل (تہجد) کو لازم پکڑو اس لیے کہ وہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا شیوہ تھا، اور وہ تمھیں تمہارے رب سے قربت کا ذریعہ ہے اور گناہوں کو مٹانے وانے والا ہے اور برائیوں سے روکنے والا ہے۔

مذکورہ حدیث میں نمازِ تہجد کی چار خصوصیات کا ذکر ہے، اول یہ کہ وہ نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے، دوم یہ کہ اس سے انسان اللہ کے قریب ہوتا ہے، سوم یہ کہ اس سے انسان کے گناہ مٹتے ہیں اور چہارم یہ کہ تہجد کے اہتمام سے انسان گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔

مومن کا شرف و اعزاز

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا: 
يَا مُحمَّدُ! شَرَفُ الْمُؤْمنِ قِيَامُ الَّيْلِ وَعِزُّهُ اسْتِغْنَائُه عَنِ النّاسِ. (المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر ۷۹۲۱)
ترجمہ: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) مومن کی شرافت قیام اللیل ہے اور اس کی عزت لوگوں سے بے نیاز ہونے میں ہے۔
یعنی نمازِ تہجد مومن کے لیے باعثِ شرافت و کرامت اور اعزاز ہے۔

جنت میں خوبصورت بالاخانہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کے اندر سے باہر کا خوبصورت اور دلفریب نظارہ دکھائی دےگا اور باہر سے بھی اندر کی چیزوں کا حسن نظر آئےگا، ایک اعرابی وہاں موجود تھا اس نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ بالاخانے کن کو حاصل ہوں گے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
لمن أطابَ الكلامَ وأطعمَ الطَّعامَ وأدامَ الصِّيامَ وصلَّى باللَّيلِ والنَّاسُ نيامٌ. (سنن ترمذی، حدیث نمبر ۱۹۸۴)
ترجمہ: اس شخص کے لیے ہوگا جو اچھی گفتگو کرے، (ضرورت مندوں کو) کھانا کھلائے، ہمیشہ روزہ رکھے اور رات کو اس وقت نماز پڑھے جب لوگ سو رہے ہوں۔

حدیث پاک کا مفہوم صاحب ظاہر ہے کہ مذکورہ اعمال کرنے والوں اور تہجد کی نماز ادا کرنے والوں کو جنت میں خوبصورت اور شاندار بالاخانوں سے نوازا جائےگا۔

قبولیتِ دعا کی گھڑی

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ! کون سی دعا زیادہ قبول ہونے والی ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جَوْفَ الّلَيْلِ الآخِرِ وَدُبُرَ الصّلَواتِ المَكْتُوباتِ.  (ترمذی، حدیث نمبر ۳۴۹۹)
ترجمہ: پچھلی راتوں کے درمیان اور فرض نمازوں کے بعد۔

یعنی دو وقت دعاؤں کی قبولیت کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اول جب رات کا صرف تہائی حصہ باقی رہ جائے یعنی تہجد کی نماز کے وقت اور دوم فرض نمازوں کے بعد، جو لوگ تہجد کی نماز پڑھیں گے یقینی طور پر انھیں قبولیت دعا کی یہ گھڑی حاصل ہوگی۔

نمازِ تہجد عظیم فضیلت

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فَضْلُ صلوة اللَّيلِ على صلوةِ النَّهارِ كَفَضْلِ صَدَقَةِ السِّرِّ علٰى صَدَقَةِ الْعَلَانِيَّةِ. (المعجم الکبیر، حدیث نمبر ۱۰۳۸۲)
ترجمہ: رات کی نماز (تہجد) کی فضیلت دن کی نماز (نوافل) پر ایسی ہے جیسی پوشیدہ طور پر صدقہ کرنے کی فضیلت علانیہ صدقہ کرنے پر۔

اس عظیم فضیلت کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ پوشیدہ طور پر صدقہ کرنے میں خلوص و للہیت ہوتی ہے اور نمود و ریا کی آمیزش بالکل بھی نہیں ہوتی ہے یہی حال تہجد کا ہے اس وقت بندے کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے وہ صرف خالص اللہ کی محبت سے سرشار ہوکر اس عبادت کو انجام دیتا ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے