Header Ads Widget

علماء دیوبند اور علم حدیث

 علماء دیوبند اور علم حدیث


علماء دیوبند اور علم حدیث

از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی


بر صغیر یعنی علاقہ ہائے ہند میں اسلام کی آمد کا آغاز عہدِ صحابہ سے ہی  ہو چکا تھا، اور کئی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اپنی قدومِ میمنت اور تشریف آوری کے ذریعے سرزمینِ ہند کو شرف بخشا، چنانچہ مؤرخ ِ اسلام قاضی اطہر مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے دس ایسے صحابہ کرام کے نام شمار کرائے ہیں جنہوں نے اپنے ورودِ مسعود کے ذریعے ارضِ ہند کو فخر بخشا، حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفیؓ، حضرت حکم بن ابی العاصؓ، حضرت حکم بن عمرو ثعلبیؓ، حضرت سنان بن سلمہؓ اور عبداللہ بن معمر تیمی رضی اللہ أجمعین یہ وہ صحابہ کرام ہیں جن کے پاک نفوس اور مبارک قدم سے سرزمینِ ہند نے برکت و سعادت حاصل کی، اسی طرح تابعین کرام نے بھی سرزمین ہند کی جانب توجہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی تبلیغ کے سلسلے میں یہاں تک آئے اور قال اللہ و قال الرسول کے زمزمے بلند کیے، چنانچہ یہیں سے باشندگان ہند کو علم حدیث سے اشتغال پیدا ہوا اور چند ہی سالوں میں  ہندوستان میں محدثین کا ایک قافلہ تیار ہو گیا، چنانچہ خلف بن سالم سندھیؒ(٢٣١ھ)  محمد بن رجا سندھیؒ (م٢٨٦ھ) شیخ ابوالحسن لاہوریؒ(م٥٢٩) ابوالفوارث احمد بن محمد سندھیؒ (م٣٤٩) یہ سب شروع زمانے کے محدثین ہیں۔ اسی طرح بعد کے زمانے میں امام محمد بن صنعانی بدایونیؒ، شیخ الاسلام بہاءالدین زکریا ملتانیؒ (٦٦٦ھ) شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ یہ وہ نام ہے جنہوں نے علم حدیث میں گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔



علم حدیث کا ارتقا

               ہندستان میں علمِ حدیث بتدریج ترقی کے مراحل طے کر رہی تھی، اور چیدہ چیدہ محدثین مختلف علاقوں میں تدریسِ حدیث میں سرگرم تھے، کہ اسی دوران اورنگزیب عالمگیر مغل بادشاہ کی وفات کے چار سال قبل ۱۱۱٦ھ میں ایسی شخصیت نے عالم رنگ و بو میں آنکھیں کھولی جس نے اپنی بصیرت مندی، قوتِ تدبر، دقیقہ رسی اور بالغ نظری سے تاریخ ہند میں انقلابِ عظیم برپا کر دیا، اپنی معرکۃ الارا تصانیف خصوصا علوم شریعت و نبوت سے متعلق کتب میں ایک جہان پیدا کر دیا، ١١٤٣ھ میں جب آپ سفر حج میں گئے تو آپ نے شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم کردیؒ سے خصوصاً صحاحِ ستہ اور دیگر کتبِ احادیث کی سماعت و اجازت حاصل کی، ہندوستان واپسی کے بعد آپ نے باقاعدہ صحاحِ ستہ کے درس و تدریس کا آغاز کیا، اس لیے آپ ہندوستان میں سب سے پہلے صحت ستہ کو رواج دینے والے قرار دیے گئے اور بجا طور پر اپ مسند الہند قرار پائے، اپ نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے ذریعے علم حدیث میں غیر معمولی اور گراں قدر کارنامے انجام دیے، جہاں آپ نے اپنے تلامذہ اور مستفدین کی ایک بڑی جماعت تیار کی وہیں دوسری طرف شرحِ احادیث کے ذریعے علم حدیث کی ترویج و اشاعت کی، آپ کے بعد آپ کے تلامذہ اور نیک بخت فرزندان نے آپ کی مسند کو سنبھالا خصوصاً شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ (م١٢٣٩ھ) شاہ اسحاق دہلویؒ(م١٢٦٢ھ) شاہ عبدالغنی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ان تمام بزرگان و فیض یافتگان نے علم حدیث کی ترویج و اشاعت میں اپنی عمریں صرف کر دیں، اور زندگی بھر قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرتے رہے، انہیں میں سے آخر الذکر بزرگ و محدّث کے شاگردانِ عزیز بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی اور قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس اللہ سرہما ہیں، جن کے توسط علمِ حدیث میں ایک عظیم انقلاب اور نئی دنیا پیدا ہوئی۔


اکابر دیوبند اور علم حدیث

جیسا کہ ابھی ذکر ہوا کہ علمِ حدیث بتدریج اپنی ترقی کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آتا ہے اور یہاں سے علم حدیث کی ترویج و اشاعت کی شاہراہیں کھل جاتی ہیں، پھر حضرت شاہ ولی اللہؒ کے جانشین اور تلامذہ سے ہوتے ہوئے یہ سلسلہ حضرت عبدالغنی مجددی دہلویؒ مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے ان کے ارشد تلامذہ حضرت گنگوہیؒ و حضرت نانوتویؒ کے پاس آتا ہے، دراصل یہی حضرات دیوبندیت کے سرخیل اور امام ہیں، جو علم و عمل کے جامع اور مسلم شخصیات تھے، ان حضرات نے خصوصاً علمِ حدیث میں گراں قدر کارنامے انجام دیئے، صرف حضرت گنگوہیؒ اپنی پوری زندگی حتیٰ کہ زمانۂ پیری تک تنے تنہا صحاحِ ستہ کا درس دیتے رہے، سینکڑوں کی تعداد میں علماء کرام مستفید ہوئے، ان کی درسی تقاریر کو قلم بند کیا گیا جن سے کئی عظیم الشان شروحاتِ حدیث وجود میں آئیں، اور یہ درسی افادات عربی اور اردو دونوں زبانوں میں قلم بند کیے گئے، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جہاں ایک طرف مجتہدانہ صلاحیت اور فقیہانہ بصیرت کے مالک تھے، قران و حدیث سے استنباط مسائل میں ملکہ رکھتے تھے، وہیں دوسری طرف حفظ و ثقاہت، اتقان و عدالت، تبحّر و فراست جو ایک فائق محدث کے شایانِ شان ہوتی ہے، آپ ان خوبی و کمالات سے بدرجہ اتم متّصف تھے، اور اپ کے علمی تبحّر، فقہی بصیرت اور گوناگوں کمالات پر خود آپ کی تصانیف، فتاوی اور درسی افادات شاہدِ عدل ہیں جن کے مطالعہ کے ذریعے یہ بات عیاں  ہو جاتی ہے کہ حضرت گنگوہی کس شان اور شخصیت کے مالک تھے۔


حضرت نانوتویؒ کی محدثانہ شان

حضرت نانوتویؒ حضرت شاہ عبدالغنی مجددی دہلویؒ کے خصوصی فیض یافتہ تھے، حضرت نانوتوی ؒ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دیگر کارناموں کے علاوہ علمِ حدیث میں قابلِ قدر نقوش ثبت کیے ہیں، بزرگانِ دیوبند سے قبل ہندستان میں علمِ حدیث کی تدریس عموماً صرف ترجمۂ عبارت اور بیانِ مسالک تک ہی منحصر رہتا تھا، لیکن ان اکابر نے ان میں حدیث کو خصوصاً اپنے غور و تدبّر اور فکر تحقیق کا موضوع بنایا اور اس کی تدریس میں ایک منفرد انداز اختیار کیا جو متقدمین کی درسی خصوصیات سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ عہدِ نو کے جدید تقاضوں کو بھی احاطہ کیے ہوئے تھا، حضرت نانوتوی تدریس کے دوران ترجمہ حدیث کے ساتھ ساتھ سندِ حدیث اور متنِ حدیث سے متعلق تمام ضروری معلومات پیش کر دیتے، رجالِ سند پر وقیع تبصرہ فرماتے، متعلقہ مسائل میں مذاہب اربعہ کے بیان کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے دلائل کی غیر جانب دارانہ توضیح فرماتے، احناف کی ترجیح و اثبات عقل و نقل کی روشنی میں کرتے، متعارض احادیث میں اپنے خاص متکلمانہ اسلوب میں تطبیق دیتے، الغرض یہ کہ اسلاف و ائمہ کرام کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ حدیث کا تحقیقی، تجزیاتی اور استدلالی بحث فرماتے، آپ کے شاگردِ رشید حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” میں شاہ ولی اللہؒ صاحب کی تصانیف دیکھ کر حضرت نانوتویؒ کے درس میں حاضر ہوتا تھا، اور وہ باتیں پوچھتا تھا جو شاہ صاحب کی تصنیفات میں غایت مشکل ہوتی تھیں، شاہ صاحب کے یہاں جو آخری جواب ہوتا تھا وہ حضرت اول ہی مرتبہ فرما دیتے تھے، میں نے بارہا اس کا تجربہ کیا (تاریخ دارالعلوم دیوبند صفح ۱۱۳ ) حقیقت یہ ہے کہ حضرت نانوتوی جب کسی اہم اور مشکل مسئلے کو جمہور کے تصورات کے خلاف ثابت فرماتے تو بڑے بڑے ارباب علم و فضل حیران اور انگشتِ بدنداں رہ جاتے تھے جو حکم ظاہر میں قطعاً بے دلیل و برہان معلوم ہوتا وہ حضرت نانوتویؒ کی تقریر کے بعد عقل کے عین مطابق معلوم ہونے لگتا تھا، آپ کے پیش کردہ دلائل کے خلاف بڑے بڑے ارباب علم فضل کو جرات نہ ہوتی تھی۔ (ایضا ۱۱۳)


علمائے دیوبند اور اشتغال بالحدیث

اکابر دیوبند سے لے کر آج تک ان ڈیڑھ سو صدیوں میں علماء دیوبند کا اشتغال بالحدیث قابل فخر رہا ہے، علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے بقول علومِ حدیث اسی (80) علوم کا مجموعہ ہے (مفتاح الحدیث) اور ان تمام علوم میں علماء دیوبند نے نمایاں نقوش چھوڑے ہیں، جن کی تصانیف و تحقیقات کو دیکھ کر یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ یہ افراد متقدمین کے صرف یادگار ہی نہیں بلکہ انہیں میں سے چندہ رہ گئے تھے جو ابھی آئے ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ، زبدۃ  المحدثین مولانا خلیل سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ، امام العصر علامہ نور شاہ کشمیریؒ، شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلویؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، علامہ ظفر احمد عثمانیؒ، مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانیؒ، ابوالمآثر علامہ حبیب الرحمن اعظمیؒ، علامہ یوسف بنوریؒ، مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، فخر المحدثین علامہ فخر الدین مرادآبادیؒ، رئیس المحدثین سلیم اللہ خان جلال آبادیؒ، علامہ انظر شاہ کشمیریؒ، شیخ یونس جونپوریؒ، فقیہ النفس مفتی سعید احمد پالن پوریؒ، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور بحر العلوم علامہ نعمت اللہ اعظمی مد ظلہ العالی یہ مختصر طور پر چند وہ  نام ہیں جن کی پوری زندگی ہی قرآن و حدیث سے عبارت ہے، ان میں سے بعض تو وہ ہیں جنہوں نے نصف صدی تک بخاری شریف کا درس دیا، یہ حضرات علمِ حدیث میں علماء عرب عجم کے نزدیک سند کا درجہ رکھتے ہیں، عجم تو عجم عرب بھی ان کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں، ان کی تعریف میں رطب اللسان اور ان کی خدمات کے اعتراف میں مقالے شائع کرتے ہیں، علامہ زاہد الکوثری رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ کشمیری کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ ” احادیث سے مسائل کے استنباط میں شیخ ابن الہمام صاحبِ فتح القدیر کے بعد ایسا محدث و عالم امت میں نہیں گزرا “ اسی طرح ”اعلاءالسنن“  پر اپنے تاثر کا کچھ اس طرح اظہار کرتے ہیں ،،الحق یقال  انی دھشت من ہذا الجمعہ و ھذالاستقصاء ، ومن ھذا الاستیفاءالبالغ فی‌الکلام علی کل حدیث بما تقتضی الصناعۃ متنا وسندا من غیر أن یبدوأ علیہ آثارالتکلف فی تائید مذھبہ بل الانصاف رائدہ عندالکلام علی آراء اھل المذاہب فاغتبطتُ بہ غایۃ الأغتباط ( اعلاء السنن ج۱ ص ٦) یعنی ہر بات سے متعلق حدیثوں کے استقصاء و استیعاب اور ہر ہر حدیث پر متن و سند کے لحاظ سے محدثانہ کلام دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا، اور اس عظیم کارنامے کو دیکھ کر مجھے انتہائی رشک آنے لگا “ اور اتنا ہی نہیں بلکہ یہی علامہ زاہد الکوثری نے ان علماء کی خدمات کے اعتراف میں مقالے لکھے بنام ” حظ العلماء الہندیہ فی خدمت الاحادیث النبویۃ “۔

                    شیخ یوسف قرضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فنِ حدیث کے سلسلے میں علماءِ ہند کی خدمات کا خصوصاً بذل المجہود شرح سنن ابی داؤد، اوجز المسالک شرح موطا امام مالک، کا تذکرہ فرمایا ہے اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی فتح الملہم اور اس کا تکملہ جس کو شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ مسلم شریف کی تمام شروحات کے مقابلے میں اس شرح فتح الملہم کو حدیثی و فقہی اور دعوتی تربیتی اور دیگر موضوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے موسوعہ (انسا ئیکلوپیڈیا ) قرار دیا جا سکتا ہے، اور علامہ یوسف القرضاوی نے اب تک کی قدیم و جدید مسلم شریف کی تمام شروحات کے مقابلہ میں اس شرح کی اہمیت و افادیت کو بیان فرمایا ہے، بذل المجہود، اوجز المسالک، فتح الملہم، اعلاء السنن وغیرہ ہمارے اکابر کی شروح حدیث کی وہ کتابیں ہیں جو تمام بلاد عرب میں اصحاب علم و فقہ کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، جس طرح فتح الباری لابن الحجرؒ، شرح مسلم لنوویؒ وغیرہ، کہ سارے عالم میں حدیث و فقہ کے لیے علماء و طلبہ کے واسطے وہ بالخصوص قابلِ استفادہ اور معتمدِ عرب و عجم ہے، اسی طرح ہمارے اکابر کی ان شروحات بھی معتبر و مسلم اور ان کا فیض الحمدللہ سارے عالم میں جاری ہے (دارالعلوم کی مرکزیت ص ۱۹) میر یوسف سید ہاشم الرفاعی نے دارالعلوم دیوبند کے جلسۂ عام میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ” اسلام پر اعتراضات کے دفعیہ کے لیے ہم جلیل القدر علماء کے محتاج ہیں، ہمیں حافظ ذہبی اور ابن حجر کے معیار کے علماء کی ضرورت ہے، اور ہمیں فخر ہے کہ الحمدللہ اس درجے کے علماء اس دارالعلوم میں موجود ہیں۔ (تاریخ دار العلوم دیوبند ج ۱ ص ٤١٦)

علمائے دیوبند کا حدیثی نقطۂ نظر

               حدیث و سنت چونکہ قرآن کی شرح و تفسیر ہے، اور شریعت کا ماخذ بھی ہے، لہذا علماءِ دیوبند کے یہاں علمِ حدیث غیر معمولی اہمیت کی حامل اور تصنیفی کارناموں کی جولانگاہ ہے، ان کے مسلک میں اس حوالے سے بھی جامعیت اور اعتدال کا عنصر غالب ہے، لہذا علماءِ دیوبند ضعیف حدیث کو بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں بشرط یہ کہ وہ قابلِ احتجاج و استدلال ہو، حتیٰ کہ متعارض روایت کے سلسلے میں بھی بجائے ترک کے تطبیق و توفیق اور جمع بین الروایات کے قائل ہیں، تاکہ کوئی حدیث چھوٹنے نہ پائے، اور کسی نہ کسی صورت میں صحیح روایات رو بہ عمل ہو جاۓ، یعنی علماءِ دیوبند کے مسلک میں محض قوت سند یا اصح ما فی الباب ہونا اصل نہیں، بلکہ بصورت جمع مناطِ حکم اور بصورت ترجیح تفقّہ اصل ہے، کیونکہ صحتِ سند کی صورت میں صرف روایت کی پختگی معلوم ہوتی ہے، مگر منشاءِ شریعت اور غرضِ شارع صرف مناطِ حکم سے واضح ہوتی ہے، لہذا روایات کی تطبیق کی صورت میں غرضِ شارع تک رسائی کے لیے مناطِ حکم کو بنیاد بنانا ضروری ہے، اور حدیث سے متعلق یہی علماءِ دیوبند کا نقطۂ نظر ہے (مستفاد از علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج ص ١٤٧) 

شہرۂ آفاق تصانیفِ حدیث

(۱)فیض الباری علی صحیح البخاری۔  یہ خاتم المحدثین محدث العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمت اللہ علیہ کا درس بخاری ہے، جن کو ان کے شاگرد رشید شیخ بدر عالم میرٹھی نے عربی زبان میں مرتب  کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ شرح مصر سے شائع ہوئی، اس کے بعد بے شمار ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو چکی ہے، ترکی وغیرہ کئی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔

(۲) ایضاح البخاری۔ یہ کتاب فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی درسی تقاریر ہے جس کے مرتب حضرت مولانا ریاست علی بجنوری و مولانا فہیم الدین بجنوری استاد دار العلوم دیوبند ہیں، مکتبہ مجلس قاسم المعارف دیوبند سے شائع ہوئی ہے۔

(٣) فتح الملہم شرح صحیح مسلم۔ یہ علامہ شبیر احمد عثمانی کی مایۂ ناز شرح ہے، اور مسلم شریف کی حنفی نقطۂ نظر سے پہلی شرح ہے، مگر تین ہی جلدیں معرضِ وجود میں آئی تھی کہ علامہ عثمانی داعیِ اجل کو لبیک کہہ گیے، بعد میں شہرۂ آفاق عالم دین مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ نے ’’تکملہ فتح الملہم‘‘ کے نام سے شرح کی تکمیل کی، جو اب     جلدوں میں شائع ہوکر عرب و عجم کے لیے مراجع کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

(٤) معارف السنن۔ یہ اصلا علامہ کشمیری کے ترمذی شریف کی درسی افادات ہے، جس کو محدثِ کبیر علامہ یوسف بنوری نے مرتب کیا، مشہور اہل حدیث عالم مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کی شرح ترمذی ’’ تحفۃ الاحوذی‘‘ میں مسلک احناف پر پیش کردہ اعتراضات کا خصوصی طور پر جواب دیا گیا ہے، پوری کتاب چھے جلدوں پر مشتمل ہے،

(٥) بذل المجہود شرح سنن ابی داؤد۔ یہ شرح علامہ خلیل احمد سہارنپوری کی عظیم علمی شاہکار ہے، جامعیت کے ساتھ ساتھ سہل المأخذ بھی ہے، اس کی اور کئی خصوصیات بھی ہیں، عرب و عجم میں یکساں مقبول ہے، فی الحال مولانا تقی الدین ندوی کی تحقیق کے ساتھ ١٤ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔

(٦) اوجز المسالک شرح مؤطا امام مالک۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عظیم الشان علمی کارنامہ ہے، جن کی تحسین عرب کے عبقری علما حضرات بھی کیے ہیں، شروع میں ٩٠ صفحات پر مشتمل ایک اہم مقدمہ بھی شامل ہے، تحقیقِ حدیث میں غیر معمولی جستجو سے کام لیا گیا ہے، مصر بیروت اور لبنان سے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، مصری ایڈیشن ١٥ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔

(٧) اعلاء السنن۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے، اور احادیث الاحکام کا مجموعہ ہے، یہ الزام کہ مسلک احناف کی تائید احادیث سے کم ہوتی ہے، اسی الزام کا رد عمل ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی نگرانی میں علامہ ظفر عثمانی سے اس کی تالیف و ترتیب کروائی، یہ ایک بے مثال کارنامہ ہے، جو فقہی ترتیب پر خصوصاً مسلک احناف کی تائید میں لکھی گئی ہے، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ کی تحقیق و تعلیق اور شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی تقریظ کے ساتھ ٢١ جلدوں میں کراچی سے شائع ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: علماء دیوبند اور فقہی خدمات

یہ بھی پڑھیں: علماء دیوبند اور عشق رسول

یہ بھی پڑھیں: علماء دیوبند عربوں کی نظر میں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے