Header Ads Widget

علماءِ دیوبند اور فقہی خدمات

 علماءِ دیوبند اور فقہی خدمات

علماءِ دیوبند اور فقہی خدمات



از قلم: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی


ہندوستان میں فقہ حنفی کا رواج اسی وقت سے ہے جب سے  یہاں پر مسلمانوں نے اپنے قدم رکھا، اور تب سے لے کر تا حال مسلمانوں کی اکثریت فقہ حنفی ہی کی پیروکار اور متبع رہی ہے، اور ہندوستان کی تقریباً تمام مسلم حکمرانوں کے مابین سب سے زیادہ اسی فقہ حنفی کی پذیرائی ہوئی، اور انہوں نے اسی فقہ کو اپنایا اور اپنے نظامِ سلطنت کی بنیاد فقہ حنفی پر رکھا، اور اسی فقہ کو ان سب نے اپنے یہاں آئینی حیثیت اور دستور العمل قرار دیا، چنانچہ ان مسلم حکمرانوں نے فقہ حنفی سے استفادے کے ساتھ ساتھ اس میں گراں قدر اضافہ بھی کیے ہیں،  فتاویٰ غیاثیہ، فتاویٰ فیروز شاہی، فتاویٰ قرا خانی، فتاویٰ تاتارخانیہ اور فتاویٰ عالمگیری وغیرہ یہ سب اسی دور اور انہیں حکمرانوں اور فرمان رواؤں کی یادگار ہیں، پھر جب اخیر میں سلطنت مغلیہ کا چراغ گل ہو گیا، اور مسلمانوں کا اقتدار زوال پذیر ہو گیا،  نتیجتاً اسلامی تعلیمی نظام منتشر ہو کر رہ گیا۔

            تو اللہ تعالیٰ نے اسلامی علوم و فنون کی حفاظت اور مسلمانوں کی علمی روایات کو آگے بڑھانے اور مزید ترقی دینے کے لئے دارالعلوم دیوبند کا انتخاب فرمایا، اور اسے علوم و فنون کا مرکز بنا دیا، چنانچہ علماءِ دیوبند کو یہ توفیق میسر ہوئی کہ انہوں نے فقہ اسلامی کو اپنے خصوصی توجہ کا مرکز و محور بنایا، اور فقہ و اصول فقہ کی تعلیم و تدریس پر غیر معمولی توجہ صرف کی، کیونکہ فقہ اسلامی علوم و فنون کا سب سے بڑا سرمایہ اور کتاب و سنت کا عطر اور نچوڑ ہے، اور وحیِ الہیٰ کی ہدایات کا خلاصۂ ہے۔

                        اسلام چوں کہ ایک دائمی و ابدی اور آفاقی و عالمگیری دین و مذہب ہے، اور انسانوں کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات اور دستور زندگی ہے، جہاں روز مرہ کے پیش آمدہ مسائل کا حل دریافت کیا جاتا ہے، اور جہاں مذہبی نقطۂ نظر سے نوعِ انسانی کی رہنمائی کی جاتی ہے، اس لیے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے ایک مستقل شعبہ کی ضرورت پیش آئی، لہذا علماءِ دیوبند نے ان ضرورتوں کا احساس کیا، اور اس کی تکمیل کی فکر میں سرگرداں اور کوشاں رہنے لگے، چنانچہ فقہ حنفی کے ترجمان اور پاسبان علماءِ دیوبند نے مختلف جہات سے فقہ حنفی کی خدمت کی، انہوں نے مدارس کے ساتھ ساتھ مستقل فقہی ادارے بھی قائم کیے، فقہی مجالس اور سیمینار کی قیادت کی، فقہی کتابیں اور رسائل تصنیف کیے، قدیم فقہی مآخذ و مراجع کو نئی تحقیق اور تشریح و تسہیل کے ساتھ اشاعت کا فریضہ انجام دیا، نئے نئے مسائل پر مختصر و مطول کتابیں لکھی، مسائل جدیدہ میں زبانی و تحریری امت کی رہنمائی کی۔

                        

              دارالعلوم دیوبند کے ڈیڑھ سو سالہ دور میں فضلاء دیوبند نے جس بحث و تحقیق اور فکر و نظر کے ساتھ فقہ و فتاویٰ میں ہر اعتبار سے خدمات انجام دئے ہیں، اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ محض اس شعبے کی خدمات سے متعلق ایک مبسوط اور ضخیم دفتر تیار ہو سکتا ہے، مگر یہاں مختصر انداز میں بہ طورِ نمونہ کے ان تمام کی طرف اشارے کیے جائینگے۔


عالمِ اسلام میں دارالعلوم دیوبند کے فتوے کی اہمیت و وقعت

         اہلِ علم و فہم پر یہ بات بہ خوبی واضح ہے کہ شرع اور صاحب شرع کی نگاہ میں فتویٰ کس قدر اہمیت و نزاکت کا حامل ہے گویا کہ ایک مفتی شارع کا نائب ہوتا ہے، اور شارع ہی کی طرف سے احکام شرعیہ میں امت کی رہنمائی کرتا ہے، اور منشاے خداوندی و مرادِ باری تعالیٰ کی تشریح و توضیح میں ایک ذمے دارانہ کردار ادا کرتا ہے دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم اور شہرت یافتہ ادارے نے بڑے ہی حسن و خوبی اور احساس مسئولیت کے ساتھ اس فریضے کو انجام دیا ہے، یہی تو وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کے فتاویٰ کی بڑی اہمیت و و وقعت ہے، بڑے ہی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور بہ قول مفکّرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی کے کہ علماء دیوبند کا فتویٰ سکۂ رائج الوقت کی طرح چلتا ہے، یہاں سے لے کر سوڈان و ترکستان تک دارالعلوم کا فتویٰ چلتا ہے، اور مسلمان اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتے جب تک علماءِ دیوبند کا فتویٰ ان کے سامنے نہ آ جاے۔

دار العلوم دیوبند کا فقہی منہج

                   تقلید و اجتہاد اور فقہ فتاویٰ کے باب میں علماء دیوبند نے بجاے افراط و تفریط کے میانہ روی اور معتدل راہ کو اپنایا ہے، کہ نہ تو اسلافِ امت کے قائم کردہ اصول فقہ اور ان سے مستنبط و مستخرج فروعی مسائل سے بیزار ہیں، کہ اپنے تئیں مجتہد ہونے کا مدعی ہو جاے، اور نہ ہی اسی پر جمود کیے ہیں، کہ اب مزید اجتہاد کی بالکلیہ گنجائش ہی نہیں، بلکہ ان کے بین بین ایک معتدل راہ اختیار کیے ہیں، وہ وہی راہ ہے جس کے بارے میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ” یہ ہے وہ فقہی منہج جو بزرگانِ دیوبند نے اپنے اخلاف کے لیے دیا ہے، جس میں تقلید بھی ہے، تمام فقہاء و محدثین کا احترام بھی، نصوص کا اہتمام بھی، اور سلفِ صالحین کے اجتہادات سے ارتباط بھی، جس میں احتیاط اور اباحیت سے حفاظت بھی ہے، اور امت کے حقیقی ضروریات کا حل اور وسیع الفکری بھی، احکامِ شریعت کی تشریح و توضیح میں سلفِ صالحین کے اجتہاد و بیان سے آزاد ہو جانا بھی دیوبندیت نہیں، اور تقلید میں جمود اور غلو اور نصوص کے شارحین کو شارعین کا درجہ دینا بھی دیوبندیت نہیں، اور شاید اسی کا نام فکرِ ولیِ اللہی ہے، جس کو تمام بزرگانِ دیوبند نے اپنی فکر کا اصل مرجع و منبع اور سر چشمہ قرار دیا ہے۔ ( فضلاء دیوبند کے فقہی خدمات۔  ۳۶؃)

دارالعلوم دیوبند میں دار الافتاء اور مفتیان کرام

          دارالعلوم دیوبند میں فتاویٰ نویسی کو کئی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جن میں مختلف بالغ نظر و بیدار مغز اور اہلِ بصیرت اہلِ علم اور اربابِ فقہ نے اس مقدس فریضے کو انجام دیا، چنانچہ پہلا دور خود حضرت نانوتوی کا ہے جس میں آپ بذات خود خاص مسائل و موضوعات پر استفتاءات کے جوابات لکھتے، تا ہم فتویٰ نویسی کی عمومی کاکردگی حضرت گنگوہی علیہ الرحمۃ کے سپرد تھا، تیسرے دور میں حضرت مولانا یعقوب نانوتوی فتویٰ نویسی کے لیے منتخب ہوے، چوتھے دور میں مولانا یعقوب نانوتوی ہی کی نگرانی و سرپرستی میں فتویٰ نویسی کی ذمہ داری حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے حوالے رہا، جب کہ آپ ابھی دار العلوم میں اپنے تعلیمی مراحل میں ہی تھے، حضرت مولانا یعقوب نانوتوی کی وفات کے بعد یہ کام دار العلوم کے تمام اساتذہ پر منقسم تھا، ان تمام استفتاء کے خطوط کا جواب مختلف اساتذہ ہی دیتے تھے مگر اب تک دارالعلوم دیوبند میں با ضابطہ دار الافتاء کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔

          پھر ۱۳۱۰ھ/ ١٨٩٢ء میں  ایک مستقل شعبہ کی حیثیت دار الافتاء کا قیام عمل میں آیا، جس میں فتویٰ نویسی کیے لیے بہ طورِ مفتی مفتی عزیز الرحمٰن صاحب عثمانی نامزد ہوے، جب کہ آپ اس وقت دارالعلوم کے نیابتِ اہتمام کے منصب پر فائز تھے، آپ نے ۱۳۱۰ھ سے ۱۳٤٤ھ تک مسلسل ۳٤ سال مسندِ افتا کو رونق بخشی، اس دور میں آپ نے بڑے بڑے معرکۃ الآراء مسائل حل کیے، آپ کے فتاویٰ کی تعداد حضرت قاری محمد طیب علیہ الرحمۃ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے ایک سرسری اندازے کے مطابق ایک لاکھ اٹھارہ ہزار (١١٨٠٠٠) کے قریب ہے، جو اس وقت عزیز الفتاوی اور فتاوی دارالعلوم دیوبند کے نام سے شائع اور محفوظ ہے۔

             پھر اس کے بعد دوسرے مفتی کی حیثیت سے مفتی ریاض الدین بجنوری صاحب مسندِ افتا پر فائز ہوے، انہوں نے ۱۳۵۰ھ تک اپنے دوسال کے عرصے میں تقریباً سات ہزار استفتاءات کے جواب لکھے، پھر تیسرے مفتی کی حیثیت سے مفتی شفیع عثمانی صاحب مسند پر جلوہ افروز ہوئے، انہوں نے ۱۳۵۰ھ سے ۱۳٦٢ھ تک (درمیان میں تقریباً چار سال کے وقفے کے ساتھ) دار العلوم میں صدر مفتی کے حیثیت سے رہے، بعد میں پاکستان ہجرت کر گئے، آپ کے زمانے میں دارالعلوم کے دار الافتاء سے ۲٦ ہزار کے قریب فتاویٰ لکھے گیے، جس کا ایک بڑا حصہ امداد المفتیین اور فتاوی دارالعلوم میں مطبوع ہے، پھر یکِ بعد دیگرے تا دمِ ایں کُل بارہ اہلِ بصیرت مفتیان حضرات نے فتاویٰ نویسی کے خدمات انجام دیں، جب کہ تاحال مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی منصبِ افتا کو سنبھالے ہوئے ہیں۔


علماء دیوبند اور فقہی ادارے 

            علماء دیوبند اور فضلاء دیوبند کے ذریعے قائم کردہ فقہی ادارے یوں تو ملک اور بیرونِ ملک تک پھیلے ہوئے ہیں، حتی کہ یورپ و افریقہ تک وسیع ہے، ان میں کچھ چھوٹے بھی ہیں کچھ بڑے بھی ہیں، اور بعض تو وہ ہیں جو کافی شہرت و اہمیت کے حامل ہیں،  اور جن کی افادیت ملک گیر یا عالم گیر ہے ذیل میں چند انہیں معروف و مشہور اداروں کا تذکرہ کیا گیا ہے:

(۱) دار الافتاء دار العلوم دیوبند:  جس کا باضابطہ قیام ۱۳۱۰ھ میں ہوا، جس کے سب سے پہلے مفتی مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی صاحب تھے، اس سے متعلق سطورِ بالا میں قدرے تفصیل سے بات آ چکی ہے۔

(۲) دار القضاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ:  ۲٦جون ۱۹۲۱ء مطابق ۱۹ شوال ۱۳۳۹ھ کو مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کے شبانہ روز کاوشوں سے صوبائی پیمانے پر قائم ہوا، جن میں بہار جھارکھنڈ اور اڑیسہ شامل ہے۔

(۳)  ادارۃ المباحث الفقیہ:   ۱۹٧٠ء/ میں مفتی محمد میاں علیہ الرحمہ کی تحریک میں قیام پذیر ہوا، جو مختلف اوقات میں مختلف مسائل و موضوعات پرفقہی اجتماعات قائم کرتی ہے۔

(٤)  دار الافتاء مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد:  استفتاءات کی کثرت کی بنا پر ۱۳٤٢ھ میں باضابطہ اس شعبے کا آغاز کیا گیا جس میں بحیثیت مفتی سب سے پہلے مفتی مصلح الدین صاحب نے خدمات انجام دی۔

(٥)  المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد: فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے تمام تر جد و جہد اور کد و کاوش کی بنا پر شوال ١٤٢٠ھ میں اس کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد فضلاء مدارس کو افتا اور دیگر علوم و فنون میں خصوصی تربیت دینا ہے۔

(٦)  المعھد العالی للتدریب فی القضاء و الافتاء پٹنہ: اس ادارے کو شوال ١٤١٩ھ مطابق ١٩٩٩ء میں ممتاز فقیہ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے قائم کیا، آپ تا حیات اس ادارے کے صدر بھی رہے، جس میں فضلاء مدارس کو افتا و قضا کی تربیت دی جاتی ہے۔

(٧)  اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا: اس کے بانی ممتاز فقیہ و مفتی قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمۃ ہیں، جس کی بنیاد ١٩٨٩ء میں رکھی گئی، اس کا صدر دفتر اوکھلا نئی دہلی میں ہے، اس کا مقصدِ قیام قرآن و سنت کی مکمل پاسداری کے ساتھ ساتھ موجودہ عہد کی اقتصادی، سیاسی، معاشرتی اور صنعتی در پیش مشکلات کا حل کرنا ہے۔

علماء دیوبند کے فتاویٰ جات

(١)  فتاویٰ دار العلوم دیوبند:  دارالعلوم دیوبند کے مفتیِ اول مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی علیہ الرحمہ (م١٣٤٧) کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جس کی جمع و ترتیب اولاََ مفتی ظفیر الدین مفتاحی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہ جلدوں میں دیے ہیں۔


(٢) فتاویٰ رشیدیہ:  یہ قطب الاقطاب مولانا رشید احمد گنگوہی علیہ الرحمہ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جس میں وقت کے تقاضے کے مطابق بدعات و خرافات اور عقائد سے متعلق کافی فتاویٰ موجود ہیں، اس کے صفحے کی تعداد چھے سو سے زائد ہے۔

(٣)  امداد الفتاوی:  یہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جو آپ نے دارالعلوم دیوبند، جامع العلوم کانپور اور خانقاہِ امدادیہ تھانہ بھون میں رہ کر لکھے تھے، جس کے مرتب مفتی شفیع عثمانی اور محشی مفتی سعید احمد پالن پوری ہیں۔

(٤)  کفایت المفتی:  یہ مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جو مدرسہ امینیہ دہلی کے دار الافتاء سے جاری ہوے تھے، آپ کے فرزند اکبر مولانا حفیظ الرحمٰن نے اس کو نو جلدوں میں ترتیب دیا ہے۔

(٥)  فتاویٰ محمودیہ:  یہ مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ ( سابق صدر مفتی دار العلوم دیوبند )  کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے، جس کو بیس جلدوں میں مولانا سلیم اللہ خان کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا ہے، اس مجموعے میں نو ہزار آٹھ سو پچاسی (٩٨٨٥) استفتاءات کے جوابات ہیں۔

(٦)  فتاویٰ قاضی:  یہ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جس میں فتاویٰ کی تعداد ڈیڑھ سو سے کچھ زیادہ ہیں۔ 

(٧)  کتاب الفتاوی:  یہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جس کو آپ ہی کے شاگرد مولانا عبداللہ سلیمان مظاہری نے چھ جلدوں میں ترتیب دیا ہے، جس میں اکثر و بیشتر نئے نئے سوالات کے جوابات ہیں۔  

(٨)  فتاویٰ قاسمیہ: یہ حضرت مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی (مفتی مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد) کے انتیس سالہ فتاویٰ کا مجموعہ ہے، جس میں تقریباً بارہ ہزار مسائل کا حل ہے، جو چھبیس (٢٦) ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔

مشاہیر مفتیان کرام

      علماء دیوبند میں فقہ فتاویٰ کے حوالے سے خدمات انجام دینے والوں کی فہرست کافی طویل ہے، جنہوں نے ملک و بیرون ملک میں فقہ و فتاویٰ کے میدان میں اپنی خدمات کے گہرے اور روشن نقوش ثبت کیے، لیکن ذیل میں ان چند مشاہیر مفتیانِ عظام کے نام درج کیے جاتے ہیں کہ جن کی زندگی فقہ و فتاویٰ ہی سے عبارت ہے اور جنہوں نے اپنی حیات عزیز کو اس مبارک فریضے کی ادائیگی میں مصروف کیے ہوے ہیں، ان میں سے چند نام یہ ہیں،   حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی دیوبندی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مفتی شفیع عثمانی دیوبندی ثم پاکستانی، مفتی سید مہدی حسن شاہ جہاں پوری، مفتی محمود حسن گنگوہی، مفتی میاں دیوبندی، مفتی نظام الدین اعظمی، مفتی رشید احمد لدھیانوی، مولانا یوسف لدھیانوی، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مفتی ظفیر الدین مفتاحی، مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی، مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مفتی احمد خانپوری، مفتی ثناء الہدی، مولانا برہان الدین سنبھلی، مفتی عتیق احمد بستوی، مولانا عبید اللہ الاسعدی، مفتی شبیر قاسمی، مفتی سلمان منصورپوری، مفتی اختر امام عادل قاسمی، مفتی نذیر احمد کشمیری۔

یہ بھی پڑھیں: علماء دیوبند اور عشق رسول

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے