Header Ads Widget

علماءِ دیوبند اور عشقِ رسولﷺ

 علماءِ دیوبند اور عشقِ رسولﷺ


علماءِ دیوبند اور عشقِ رسولﷺ

از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس و انور سے عشق و محبت، الفت و عقیدت، انس و ارادت اور تعلق و شیفتگی یقیناً ایک مومن کے ایمان کا جزءِ لا ینفک  ہے، ایمان اور اسلام اس وقت تک مکمل و مقبول نہیں جب تک کہ شاہِ طیبہ و سردارِ بطحا کی ذاتِ والا صفات سے بے انتہا اطاعت و فرماں برداری، جاں نثاری و وفا شعاری سرمایہ حیات اور متاع زیست نہ سمجھی جائے، رحمتِ کون و مکاں، والیِ زمین و زماں، جانِ نوعِ انساں، فخرِ رسولاں ہی کی وہ ذات ہے جن کی تابعداری مکمل باعثِ نجات اور موجبِ رضائے رب ہے، آپ ہی کی ذات وہ ذات ہے جن کی اطاعت میں سرفرازی و سربلندی مسلّم ہے، جن کی غلامی و نوکری میں نوعِ انسانی عظمت و رفعت کے منازل طے کرتی ہے، آپ ہی کا در وہ در ہے جن کی خاک روبی و جاروب کشی قدر و منزلت کے آسمان پر لےجاتی ہے آپ کی ادائیں ہی وہ ادائیں ہیں جن پر مخلوق تو کجا خالقِ کون و مکاں بھی فدا ہے، جن کی تعریف و توصیف میں ہم جیسوں ہی کی زبان کیا، رب المشرقین و والمغربین بھی رطب اللساں ہے، آپ کے عطا کردہ  آئین و قوانین ہی اس قدر محبوب و مقبول ہیں کہ جس پر دونوں جہاں کی کامیابی و کامرانی معلق ہے، آپ کی سنت مطہرہ اور اسوۂ حسنہ ہی اس قابل ہے کہ جس کو نمونۂ حیات قرار دیا جا سکے، آپ کی حیات طیبہ اور سیرتِ عظمیٰ ہی اس قدر لائق اور مستحکم ہے کہ جن کو پیش نظر رکھ کر زندگی کی شاہراہوں کو عبور کیا جا سکے، جن کا دیار ہی وہ دیار ہے جو بارگاہِ تجلی اور مرجعِ خلائق ہے، جن کا خطۂ زمین ارضِ اسلام ہے، جہاں پر ہر صبح و شام، لیل و نہار عقیدت و نیاز مندی کے پھول برسائے جاتے ہیں، جہاں ہر لحظہ و ہر لمحہ صلاۃ و سلام کی گراں قدر سوغات پیش کی جاتی ہے۔

عشقِ رسالت کی سچی تصویر

         جب دربارِ نبوت و بارگاہِ رسالت اس قدر عظیم و اعلی اور رفیع و بالا ہے، تو کون ایسا شخص ہے جو اس در کی نسبت کو اپنے لیے  باعثِ افتخار اور سندِ اعتبار نہ سمجھے؟ کون ایسا عقلمند ہے جو اس پاک در کی خاک روبی و دریوزہ گری کو اپنی عمر عزیز کا اندوختہ یقین نہ کرے، چنانچہ علماءِ دیوبند رحمہم اللہ بھی عشقِ محمدی ( علی صاحبہا صلوۃ وسلام) کے پیکرِ جمیل تھے، خیر القرون کی یادگار تھے، عشقِ نبوی میں سلف صالحین اور علماءِ دین کا مکمل نمونہ تھے، ان علما کے عشقِ رسول کے واقعات بے مثال ہیں، علماءِ دیوبند کا عشقِ رسالت محض زبانی دعوؤں اور جذباتی نعروں سے عبارت نہیں، بلکہ ان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ عشقِ رسول کے خوشبو سے معطر ہے، مدرسے اور خانقاہ کی گوشۂ نشینی و خلوت گزینی ہو یا خلق خدا کے مجمع ، درس و تدریس کے مواقع ہو یا میدانِ جہاد میں تیغ بکف مشکل گھڑیاں، ہر موقع پے انہوں نے اپنے خون سے عشق و محبت کی داستانیں رقم کی ہیں، علماءِ دیوبند کے عشق رسالت کے واقعات اس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز ہیں کہ خیال ہوتا ہے کہ یہ علما آج کے پر فتن و پر آشوب عہد کے ہیں یا پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کے کوئی عاشق زار ہیں، حبِ رسول کو انہوں نے علماََ و عملاً فقہا و عقیدتا مسلکا و مشربا بہ ہر طور نہ صرف یہ کہ غیر معمولی اہمیت دی بلکہ اس کو عملی سانچے میں بھی ڈھال کر پیش کیا، اپنی زندگی کے معمولات کو معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے استوار کر کے معمور آباد کیا۔

الغرض علماء دیوبند حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثال عاشق و محب ہیں، حب رسالت میں مستغرق ہیں، ان کا گوشۂ حیات مہرِ نبوت سے مستنیر ہے، ذیل میں انہیں علما کے چند ایمان افروز و روح پرور واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جس سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ عہدِ پر آشوب کے یہ  علما عشقِ نبوی کے سانچیں میں کس قدر ڈھلے ہوے ہیں۔

غارِ ثور میں تین دن ہی روپوش تھے

      1857ء کے انقلاب میں جن مجاہدین اور سرفروشانِ ملک و ملت نے حصہ لیا تھا، اور جن کی سربراہی و قیادت میں اس جنگ کا نقشہ تیار ہوا، انگریز گورمنٹ نے ان علماء و زعما کو گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا، انہیں سربراہانِ انقلاب میں سے حجۃالاسلام قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ بھی تھے، چنانچہ جب علماء و مجاہدین کی گرفتاری شروع ہوئی، تو آپ کے خلاف بھی وارنٹ جاری ہوا، خدام و متوسلین کے بہت زیادہ اصرار پر آپ ایک مکان میں روپوش ہوگئے، اور پھر تین دن کے بعد کھلے بندوں بے خوف چلنے پھرنے لگے، لوگوں نے پھر روپوشی کے لیے بمنت عرض کی، تو آپ نے انکار کر دیا، اور فرمایا کہ ’’ تین دن سے زیادہ روپوش ہونا سنت سے ثابت نہیں‘‘ اور فرمانے لگے کہ جنابِ نبی کریم رؤوف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے وقت غارِ ثور میں تین دن ہی روپوش تھے۔ ( سوانح قاسمی) 

اللہ اکبر!  الفت نبوی اور اتباع سنت کا یہ عالم کہ ایک طرف تو ظالم انگریز گورمنٹ کا وارنٹ اور دوسری طرف یہ کمزور و ناتواں بندۂ خدا جس کو اس سنگین حالت میں بھی سنت نبوی کا خیال و فکر ہے، اور اس کی تعمیل میں کوشاں ہے، مگر اس کے لیے جان کی پرواہ نہیں۔

در محبت تلخ ہا شیریں بود

         یہی حضرت نانوتوی رحمہ اللہ ایک بار سفر حج میں نکلے، اور آپ کے ساتھ کبارِ علما مثلاً حضرت گنگوہی، مولانا مولانا یعقوب نانوتوی وغیرہ بھی شریک سفر تھے،جب آخری منزل پر پہنچے جس کے بعد مدینہ منورہ بالکل سامنے آ جاتا ہے، اور حرمِ نبوی کے دلکش و خوبصورت گنبد خضرا اور مینار نگاہوں کے سامنے آ جاتے ہیں، اس آخری منزل کا نام ’’ بئر علی‘‘ ہے یہاں ایک پہاڑی ہے، جب اس پہاڑی پر چڑھے، اور حرمِ نبوی کے عظیم الشان مینار پر نظر پڑی، تو ایک دم اونٹ سے اچھل کر زمین پر کود پڑے، جوتے اتار کر اونٹ کے کجاوے میں رکھ دیے، اور ننگے پاؤں چلنا شروع کر دیا، شوق و نیاز کے سانچے میں ڈھل کر گوشۂ حبیب میں پلکوں کے سہارے داخل ہونے لگے، (سوانح قاسمی ج٣ ص ٦١)  گویا زبان حال سے یوں گویا تھے۔


کانٹے مرے تلؤوں کے لیے لالۂ و گل ہیں

گلشن ہے مرے واسطے صحراے محمد

کب سے درِ اقدس کو ہے بیتاب نگاہیں

کب سے مرے دل میں ہے تمناے محمد


مدینہ کی کھجوریں

     حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ محبت الٰہی اور عشق رسالت میں اس قدر فنا تھے جن کی نظیر عصر حاضر میں بہت بعید ہے، سنت کے دلدادہ اور شیدا تھے، راہِ سلوک میں اس قدر ترقی یافتہ تھے کہ آپ کے متعلق آپ کے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر حق تعالیٰ مجھ سے دریافت کرے کہ امداد اللہ کیا لے کر آیا ہے، تو میں مولوی رشید احمد اور مولوی قاسم صاحب کو پیش کردونگا‘‘ نیز یہ کہ حضرت گنگوہی کا حرمین شریفین سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہاں کے خس و خاشاک تک محبوب رکھتے تھے اور بڑی عزت و وقعت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مدنی کھجوروں کی گھٹلیاں پسوا کر صندوقچہ میں رکھ لیتے اور فرماتے کہ لوگ حرمین شریفین کی چیزیں زمزم کے ٹین اور تخم خرماں کو یوں ہی پھینک دیتے ہیں یہ خیال نہیں کرتے ہیں کہ ان چیزوں کو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ہوا لگی ہے۔ ( تذکرۃ الرشید ج 

اسے بھی پڑھیے: علماء دیوبند اور فقہی خدمات

شیخ الہند اور والہانہ عشقِ نبوی

       حضرت شیخ الہند پر جذبۂ اخلاص اور تعمیل سنت نبوی کی فکر بہت زیادہ سوار تھی، ایک دفعہ آپ کے ایک شاگرد نے آپ کے معمول کے متعلق دریافت کیا کہ وتر نماز کے بعد آپ بیٹھ کر سنت کیوں ادا کرتے ہیں جب کہ اس صورت میں نصف ثواب ملتا ہے تو آپ فرمانے لگے کہ ہاں بھئی مجھے معلوم ہے مگر اس وقت بیٹھ کر ہی نماز پڑھنا سنت سے ثابت ہے، لہذا عشق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ثواب سے قطع نظر سنت نبوی کا خیال رکھا جائے، یہی تو وجہ تھی کہ آپ جامع شریعت و طریقت تھے، عشقِ نبوی کے بحر ناپید کنار میں غوطہ زن تھے، آپ کا کوئی قول و فعل خلاف شریعت ہونا تو درکنار خلاف سنت بھی نہیں ہوتا تھا، صحت ہو یا مرض، سفر ہو یا حضر، خلوت ہو یا جلوت، ایام اسیری ہوں یا رہائی ہر صورت حال میں آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی عملی تصویر تھے۔

حضرت تھانوی اور کمال اتباع سنت

       حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ کی پوری زندگی سنت نبوی اور اعمال نبوی سے آراستہ و عبارت ہے، آپ کا معمولی سے معمولی عمل بھی سنت نبوی کی تصویر ہوتی تھی، آپ فرماتے تھے کہ کسی سے محبت ہونا اور اس کا مقتضائے محبت ہونا تین سبب سے ہے، ایک محبوب کا کمال یعنی جو علمی پختگی یا کسی اور اوصاف حمیدہ کی بنا پر ہوتا ہے، (٢) جمال جیسے کہ حسین و جمیل سے محبت ہوتی ہے، (٣) نوال یعنی عطاء و احسان داد و دہش سے جنابِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں تینوں وصف علی سبیل الکمال مجتمع ہیں، جب تمام اسباب محبت آپ کی ذاتِ مبارکہ میں جمع ہیں تو اس کا طبعی تقاضہ اور لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ کی امت آپ جیسے مجتمعِ صفات و کمالات، حسین و جمیل و ماہرہ، اور صاحبِ جود و عطا سے اعلی درجے کی محبت کرے۔

            حضرت تھانوی نہایت معتدل مزاج اور میانہ رو شخصیت تھے، آپ کی پوری زندگی اصلاح خلق اور رہنمائے امت میں گزری، آپ کے یہاں معیار محبت و معیار اعتبار اتباع سنت اور ہر کام میں اہتمام سنت کا خیال رکھنا تھا، ایک دفعہ فرمایا کہ مجھے ایک دن خیال آیا کہ ہم لوگ اتباع سنت کا ہہت ذکر کرتے ہیں، مگر اس کا کچھ حصہ ہمارے اعمال میں ہے بھی کہ نہیں، چنانچہ میں نے پورے تین دن صبح سے رات تک اپنے تمام اعمال کا بغور جائزہ لیا مگر جائزے کے بعد لائحۂ عمل صاف ہو گیا کہ کوئی بھی عمل خلاف سنت نظر نہ آیا فالحمد للہ علی ذلک، 

اللہ اکبر! عشق و عقیدت اور الفت و محبت کا اس سے اعلی معیار اور نمونہ کیا اورکہاں ہوگا۔

حضرت کشمیری اور عشقِ رسول

          علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ جہاں ایک طرف علم کے بحر ذخار اور کوہستان تھے، وہیں دوسری طرف ناموسِ رسالت کے پاسبان بھی تھے، آپ نے ختم نبوت کی پاسبانی کے لیے اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحوں میں کیا کچھ نہیں کیا، پیرانہ سالی میں گو نا گوں امراض کے با وصف بہاولپور کے مشہور مقدمے میں مسلسل پانچ پانچ گھنٹے عدالت میں بیانات کرنا، مرزائی دجل و فریب کو بے نقاب کرنا، ختم نبوت پر غیر متزلزل دلائل و براہین کا انبار لگا دینا، مرزائی تاویلات خیانت کو طشت از بام کرنا یقیناً آپ کے لئے سرمایہ حیات اور اندوختہ زندگی ہے، آپ نے وصیت فرما دی تھی کہ اگر مقدمہ بہاولپور کے فیصلے سے قبل میری زندگی پوری ہو جائے تو میری قبر پر فیصلہ سنا دی جاے، یہ عشقِ رسول ہی کا نتیجہ و ثمرہ تھا کہ آپ نے اپنی پوری زندگی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح و تبیین اور توضیح و تفسیر میں صرف فرما دی، عشقِ رسول ہی کی برکت تھی کہ آپ کو ہر ہفتے زیارتِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہوتی، اور اگر کسی ہفتے ناغہ ہو جاتا تو بے اختیار ہو کر تڑپ اٹھتے کہ نا جانے کون سی خطا سرزد ہو گئی، محبت رسول مقبول میں آپ نے اپنی پوری زندگی گزار دی، ذات اقدس سے والہانہ عقیدت ہی تھی کہ آپ نے نعت گوئی اور ثنا خوانی کے ذریعے اوصافِ محمدی بیان کی۔

حضرت مدنی کا انداز عشق

       شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوّر اللہ مرقدہ عشق و الفت اور انس و عقیدت کے پیکرِ جمیل تھے، اور ان خوش بختوں اور زہے نصیبوں میں سے تھے جن کو قیامِ مدینہ کی سعادت ہفتہ دو ہفتہ یا مہینہ دو مہینہ نہیں بلکہ تقریباً اٹھارہ سال کی حاصل ہے، اور محض قیام ہی کی خیر و سعادت نہیں بلکہ روضۂ مقدسہ کی جالیوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر مدت دراز اور طویل زمانے تک کالی کملی والے کی حدیث پاک پڑھائی، قال الرسول کے زمزمے بلند کیے، مدینے کی روحانی آب و ہوا اور عرفانی فضا سے اپنے مشام جاں کو معطر اور تن بدن کو مجلے کیا ہے۔

              پھولوں سے سبھی الفت و پیار کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کانٹوں سے پیار کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ کانٹے بھی سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ ہیں، باغِ سیرت میں اس کانٹے کا بھی وجود ہے، چنانچہ آپ نے دارالعلوم دیوبند کے چمن میں ایک کیکر کا درخت لگوایا، لوگوں کو خیال ہوا کہ اس درخت سے کیا فائدہ؟  نہ اس پر پھول آتے ہیں نہ پھل، نہ خوشنمائی ہے نہ زینتِ چمن بننے کی صلاحیت، نہ خوشبو کا وجود ہے نہ ہی اس کا مادہ، پھر اسے لگانے میں کیا راز پنہاں ہے، تحقیق سے پتا چلا کہ جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیکر کے درخت کے نیچے بیٹھ کر چوں کہ بیعتِ رضوان کی تھی، تو یہ درخت بطورِ یادگار لگوایا گیا ہے۔

حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور عشقِ مدینہ

           حضرت مولانا عاشق الہٰی بلند شہری آپ کے متعلق آپ کی سوانح حیات میں رقم طراز ہیں ’' میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی طبیعت کو اتباع سنت نبویہ کا سانچہ بنا دیا گیا تھا اور اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ محبت جو خون کی طرح آپ کے رگ رگ میں جاری و ساری تھی، آپ کی مبارک طویل زندگی کے لمحے لمحے کو ایک بے نظیر کرامت بنائے ہوئے تھی، آپ کا عمر بھر دینی خدمت میں انہماک، حدیث میں تبحر، فقہ میں اجتہاد، تحریر و تقریر میں اشاعتِ دین، حرکت و سکون میں اظہارِ حق، قیام و قعود میں اتباع سنت لازمی و متعدی نفع دینی کو وہ بے پایاں سمندر تھے، جس میں کوئی بھی غوطہ لگانے والا غواص موتیوں سے محروم نہیں رہا، اور اس بنا پے مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ  

الئک آبائی فجئنی بمثلھم   اذا جمعتنا یا جریر المجامع

مفتی شفیع عثمانی اور اہتمام سنت

             ادب و عظمت اور طاعتِ نبوی ہمارے اکابر رحمہم اللہ کا طرۂ امتیاز اور مایۂ ناز رہا ہے ہے، چنانچہ مفتی شفیع عثمانیؒ(مفتی اعظم پاکستان) سراپا با ادب تھے، جب مدینہ طیبہ (زادھا اللہ شرفا و کرامتا) تشریف لے جاتے تو روضئہ اقدس کے جالیوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے، بلکہ کسی ستون کے پاس ہی کھڑے رہ جاتے، ایک دفعہ خود ہی فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید تو بڑا شقی القلب آدمی ہے، یہ لوگ تو نعمت قربتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف و فیضیاب ہو رہے ہیں، لیکن ایک تو (بذات خود) ہے کہ قدم آگے ہی نہیں بڑھتا، فرمانے لگے کہ یہ خیال تو پیدا ہوا لیکن پھر معا یہ محسوس ہوا کہ جیسے روضئہ اقدس سے یہ آواز آ رہی ہے کہ’’ جو شخص ہماری سنتوں پر عمل کرتا ہے...... وہ ہم سے قریب ہے، خواہ ہزاروں میل دور ہو....... اور جو شخص ہماری سنتوں پر عمل نہیں کرتا وہ ہم سے دور ہے، چاہے وہ ہماری جالیوں سے چمٹا ہوا ہو‘‘

سبحان اللہ! اس عاشق صادق و مجسمۂ ادب کا تو رنگ ہی نرالا اور انداز متوالا ہے کہ آستانۂ محبوب سے براہ راست قربت کی بشارت مل رہی ہے، اور ظاہری فاصلے پر تسلی آمیز الفاظ بھی سنائے جا رہے ہیں۔

شیخ الحدیث مولانا زکریا

     حضرت شیخ الحدیث صاحب کے لیے عشقِ رسول کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ آپ نے پوری زندگی کلام رسول اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح و تفسیر، درس و تدریس میں گزار دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرامین سے عشق و مستی، الفت و شیفتگی اور لازوال محبت ہی تھی کہ جو  آپ کو گوشۂ محبوب میں کشاں کشاں لے آیا ، اور صرف لے ہی نہیں آیا، بلکہ دیارِ حبیب کی  سرزمین کے پیوند زمیں بننے کی شرف یابی حاصل ہوئی، اور قیامت تک کے لیے آپ کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانے سے قریب تر رہنے کی سعادت عظمیٰ حاصل ہوگئی،    فالحمد للہ علی ذلک

      حضرت شیخ الحدیث صاحب فرماتے ہیں کہ محبت ہی ایسی چیز ہے جو دل میں بس جانے کے بعد محبوب کو ہر چیز پر غالب کر دیتی ہے، نہ اس کے سامنے ننگ و ناموس کوئی چیز ہے، نہ عزت و شرافت کوئی شئ، حق تعالیٰ شانۂ اپنے لطف اور اپنے محبوب کے وسیلے سے اپنی اور اپنے پاک رسول ( ﷺ) کی محبت عطا فرمائے تو ہر عبادت میں لذت، اور ہر تکلیف میں راحت دے۔

امیرِ شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری

          1927ء میں جب لاہور ہائی کورٹ نے توہینِ رسالت کے مجرم کو رہا کر دیا، تو مسلمانوں میں اضطراب و بے کلی کی لہر پھیل گئی، حضرت امیر شریعت نے مسلمانوں کو بر انگیختہ کرتے ہوئے فرمایا ’’ اے مسلمانانِ لاہور! آج رسول اللہ کی آبرو ہر شہر کے دروازے پر دستک دے رہے ہے، آج ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا سوال درپیش ہے، یہ سانحہ سقوطِ بغداد سے زیادہ غمناک ہے، زوال بغداد سے ایک سلطنت پارہ پارہ ہو گئی، مگر توہینِ رسالت کے سانحے سے آسمانوں کی بادشاہت متزلزل ہو رہی ہے، آج انسانیت کو عزت بخشنے والے کی اپنی عزت خطرے میں ہے، آج ام المؤمنین عائشہ صدیقہ اور خدیجہ الکبری مسلمانوں کے دروازے پر کھڑی کہہ رہی ہے کہ ہم تمہاری مائیں ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں، ارے دیکھو تو کہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ دروازے پر کھڑی تو نہیں ہے ( یہ سن کر حاضرین دہاڑیں مار مار کر رونے لگے) (عشق رسول ص١٥٨) 

اسی تقریر سے متاثر ہو کر غازی علم الدین شہید ؒ نے اس توہینِ رسالت کے مجرم کو جہنم رسید کر دیا اور خود تختۂ دار کو چوم لیا۔

مولانا ظفر علی خان کہتے ہیں،

کانوں میں گونجتے ہیں بجاری کے زمزمے

بلبل چہک رہا ہے ریاض رسول سے


حضرت محبوب العلماء و الصلحا 

      حضرت محبوب العلماء و الصلحا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ سراپا عشق و محبت ہیں، آپ کا چلنا پھرنا، نشست و برخاست ہر عمل سنت مطہرہ کے عین مطابق ہوتا ہے، سر سنت عمامہ سے مزین ہاتھوں میں عصا لیے ہوئے، گویا یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کا متحرک نمونہ ہیں، آپ اپنے ہر عمل کو سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کئی کئی دفعہ مشق کرتے، آپ کے عشقِ مصطفیٰ کے واقعات عجیب و غریب ہیں، اور یہ نعمت آپ کو بچپن سے ہی حاصل تھی، بچپن سے ہی کبھی بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا‌ نام بغیر وضو کے زبان پر نہیں لایا، حتی کہ بچپن میں آپ کے پرائمری اسکول کے کلاس میں استاذ صاحب کے دریافت کرنے پر آپ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک نہیں لیا، کیوں کہ آپ اس وقت بے وضو تھے، اور آپ نے جواب نا دہی کا تازیانہ برداشت کر لیا، مگر اسم مبارک کی اس بے حرمتی کو برداشت نہیں کیا  اللہ اکبر! (عشق رسول اور علماءِ حق کے واقعات ص539)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے