Header Ads Widget

اللہ کی ناراضگی کی نشانیاں کیا ہیں؟

اللہ کی ناراضگی کی نشانیاں 



اللہ کی ناراضگی کی نشانیاں




سچے اور پکے مومنوں کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی تمام ساعات و لمحات اپنے خالق و پروردگار کی رضاجوئی کی نذر کر دیتے ہیں، انھیں ہر آن اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کی ذات سے ایسا فعل صادر نہ ہو جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنے اور اس کے غیض و غضب کو دعوت دے؛ کیوں کہ انھیں اس بات کا کامل اذعان حاصل ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد و حاصل بجز اس کے کوئی نہیں کہ اسے اللہ تعالی کی رضامندی حاصل ہو جائے کہ کامیابی و کامرانی کا سارا مدار اسی کی رضامندی پر ہے؛ چناں چہ وہ اپنا ہر ہر قدم نہایت احتیاط اور پھونک پھونک کر اٹھانے ہیں تاکہ مرضئ رب کے خلاف کوئی عمل سرزد نہ ہو اور عبادت و ریاضت اور طاعت و فرمانبرداری میں نہایت جانفشانی کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ اس کی خوشنودی میسر ہو جائے۔
ان صفات کے حامل مسلمان کم یاب ضرور ہیں؛ لیکن نایاب نہیں، ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ایسے لوگوں کی زندگی کو مشعل راہ بنائیں اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزاریں؛ لیکن سوال یہ ہے ہمارے اندر یہ اعلی صفات کس طرح پیدا ہوں گی اور ہمیں اللہ تعالی کی رضامندی کیسے حاصل ہوگی، ہمیں اتنی بات تو معلوم ہے کہ مولی کی رضامندی دنیا و آخرت کی سعادت مندی کی ضامن ہے اور اس کی ناراضگی دونوں جہاں کے خسارے کا سبب ہے؛ لیکن ہمیں اس بات کا ادراک نہیں کہ ہمارا خالق ہم سے راضی ہے یا نہیں۔

چناں چہ اسی کے پیش نظر ہم اس تحریر میں بات کریں گے کی اللہ تعالی کی ناراضگی کی نشانیاں کیا ہیں؟  کیوں کہ جب ہم اللہ تعالی کی ناراضگی کی نشانیوں سے واقف ہو جائیں گے تو جب ہماری زندگی میں وہ نشانیاں ظہور پذیر ہوں گی تو ہم فورا سنبھل جائیں گے اور توبہ و انابت کے ذریعے اس کی رضامندی کی جستجو میں لگ جائیں گے۔

حقیقی بات تو یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی کی رضامندی اور ناراضگی کا علم نہیں ہو سکتا؛ البتہ علمائے اسلام نے کچھ ایسی علامتیں اور نشانیاں بیان کی ہیں جن کا ظہور اگر ہونے لگے تو فورا ہوش میں آ جانا چاہیے اور رجوع و انابت، توبہ و استغفار اور عبادت و اطاعت میں مستعدی کا مظاہرہ کرنا چاہیے؛ کیوں کہ وہ علامتیں اللہ تعالی کی ناراضگی پر دلالت کرتی ہیں۔
ہم ذیل میں اختصار کے ساتھ چند علامات اور نشانیاں حوالۂ قرطاسِ برقی کر رہے ہیں۔


قساوتِ قلبی

قساوت قلبی کا مطلب یہ ہے کہ انسان انتہائی سخت مزاجی، سنگ دلی اور کٹھورپن کا شکار ہو جائے، رحم دلی اور نرم مزاجی اس کی طبیعت میں باقی نہ رہے، دل کے اندر سختی اور بے رحمی معاصی و ذنوب پر جری ہو جانے اور مسلسل گناہوں پر اصرار کرنے کے باعث پیدا ہوتی ہے؛ حتی کہ انسان بڑے بڑے گناہوں کو بھی بلا خوف و خطر اور بے حیائی سے انجام دینا شروع کر دیتا ہے، ظاہر ہے گناہوں پر مصر ہو جانا اللہ تعالی کے غیض و غضب کو دعوت دینا ہے؛ چناں چہ حق تعالی ایسے نافرمان بندوں کے دل سخت کر دیتے ہیں؛ چناں چہ مشہور تابعی مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
"قسوة القلب عقوبةٌ للعاصي، ونزع الرحمة منه دليلٌ على غضب الله -تعالى- من صاحبه"
یعنی دل کا سخت ہو جانا گناہ گار کے حق میں سزا ہے اور دل سے رحم کا مادہ نکل جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی اس شخص سے ناراض ہیں۔



نعمتوں پر شکر ادا نہ کرنا

جس طرح اللہ تعالی کی نعمتوں پر سجدۂ شکر اور آزمائشوں پر سجدۂ صبر بجا لانا رضائے الہی کی ضامن ہے، اسی طرح انعامات الہیہ کی ناقدری کرنا، شکر ادا نہ کرنا اور مصائب و آلام کے لمحات میں بجائے صبر و تحمل کے زبان پر حرفِ شکایت لانا اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر ناخوش رہنا اس کی ناراضگی اور غیض و غضب کو دعوت دینا ہے؛ چناں چہ حق تعالی جب کسی بندے سے خفا ہوتے ہیں تو اس سے نعمتوں پر شکر اور آزمائشوں پر صبر کی توفیق چھین لیتے ہیں وہ ہر لمحہ بے چینی و اضطراب، فکر و الم اور بے کلی و بےتابی میں مبتلا رہتا ہے، مال و زر کی بہتات اور آسائش و راحت کے اسباب کی فراوانی کے باوجود بھی اس کے اندر قناعت و صبر کی صفت پیدا نہیں ہوتی ہے، اور جس بندے کو حق تعالی کی خوشنودی حاصل ہو جاتی ہے وہ اپنے معمولی اور محدود سرمایہ میں بھی صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزار لیتا ہے وہ اللہ کے فیصلے پر راضی رہتا ہے مصیبت کی گھڑی ہو یا راحت کا موقع ہو وہ ہر وقت قضا و قدر کو بجان و دل تسلیم کر لیتا ہے اور زبان کو آلودۂ شکوہ نہیں کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے بندہ اپنے خالق کے تئیں جو گمان و خیال کرتا ہے خالق اسی کے مطابق بندے کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں، یعنی بندہ اگر خالق سے بہر حال راضی ہے تو یہ بندے سے خالق کے راضی ہونے کی علامت ہے، اسی طرح اگر خالق کے فیصلوں سے ناخوش ہے تو یہ خالق کے ناراضگی کی نشانی ہے، جیسا کہ مسلم شریف کی روایت ہے:
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي. (مجمع الزوائد)
یعنی میرا معاملہ بندے کے ساتھ ویسا ہوتا ہے جیسا بندے کا گمان میرے متعلق ہوتا ہے اور جب بندہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔



گناہ کی کثرت کے باوجود نعمتوں کی فراوانی

جو انسان معصیت و نافرمانی میں ہر دم ڈوبا رہتا ہے، احکامات الہیہ کی ادائیگی میں غفلت و بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کے باوجود اس کے پاس آسائشوں اور راحتوں کی فراوانی اور دولت و ثروت کی ریل پیل ہے، تو سمجھ جانا چاہیے کہ اس پر اللہ تعالی ناراض ہیں اور یہ سامان عیش و نشاط در حقیقت اس وجہ ہیں؛ تاکہ وہ دنیا میں عیش کوشی کی غفلت میں سوتا رہے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہ رہے، جیسا کہ حق تعالی نے ایسے سرکشوں اور نافرمانوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: 
وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ (سورة محمد)
اور کافر عیش کوشی میں مبتلا ہیں اور جانوروں کی طرح کھا رہے ہیں اور جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔

توبہ کی توفیق نہ ملنا

جب انسان کے دل پر غفلت کی پرتیں جم جاتی ہیں اور اپنے خالق و مالک کو فراموش کر بیٹھتا ہے، مسلسل گناہوں میں ملوث رہتا ہے اور توبہ و انابت کا خیال تک اس کے دل میں نہیں آتا ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ اللہ تعالی اس پر ناراض ہیں؛ کیوں کہ جب وہ ناراض ہوتے ہیں تو بندے سے توبہ کی توفیق چھین لیتے ہیں اور اسے معصیت کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیتے ہیں جیسا کہ خود اس کا فرمان ہے:
وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ. (سورة الحشر)

ترجمہ: اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے خود انھیں اس کی ذات سے غافل کر دیا، یہی لوگ فاسق ہیں۔

یعنی جب بندہ اللہ کے حقوق اور احکامات کو فراموش کر بیٹھتا ہے تو حق تعالی اس کو اس قدر غفلت میں ڈال لیتے ہیں کہ انھیں توفیقِ توبہ میسر نہیں ہوتی ہے اور اسی غفلت کی حالت میں معاصی و ذنوب کا بار گراں سر پر اٹھائے آخرت کی طرف اپنے اعمال کی سزا پانے چل پڑتا ہے۔
اب ذرا ایک مومن کی حیثیت سے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا اور اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں اللہ کی ناراضگی کی نشانیاں ہماری زندگی میں ظہور پذیر تو نہیں ہو رہی ہیں اور ہم سے ہمارا پروردگار ناراض تو نہیں ہے، اگر یہ نشانیاں ظاہر نہ ہوں تب بھی ہمیں ہر آن اس کی رضاجوئی اور خوشنودی کی جستجو میں مگن رہنا چاہیے۔




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے