بت پرستی کی ابتدا کیسے ہوئی؟
دنیا میں آج بھی ایسی قومیں بڑی تعداد میں ہیں جو خدائے واحد کی ذات کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش میں مبتلا ہیں، بت پرستی ان سنگین جرائم میں سے ہے جسے حق تعالی کبھی بھی معاف نہیں فرمائیں گے، حق تعالی دیگر گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف کر سکتے ہیں؛ لیکن بت پرستی اور شرک و کفر کو بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں فرمائیں گے۔
مختلف قومیں مختلف قسم کے بتوں کی پوجا کرتی ہیں اور ان کے پوجنے کی نوعیت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، ہر ایک کا طرز عبادت جدا ہوتا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بت پرستی کی ابتدا کیسے ہوئی اور سب سے پہلے بت پرستی کس نے شروع کی؟
بت پرستی کا آغاز کیسے ہوا اس کے متعلق جاننے سے قبل یہ جان لیں کہ بت پرستی کیا ہوتی ہے۔
بت پرستی کیا ہے؟
بت پرستی میں لوگ کسی شخص یا شیي کی ظاہری شکل و صورت لکڑی، دھات، پتھر یا مٹی وغیرہ سے بناکر اسے معبود گردانتے ہیں اور اسے اپنا حاجت روا، مشکل کشا اور خدا سمجھتے ہیں، اس کو راضی کرنے کے لیے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں۔
بت پرستی کی ابتدا کب ہوئی؟
اب ہم سوال کے اصل جزئیے کی طرف آتے ہیں کہ بت پرستی کی ابتدا کب ہوئی؟
بت پرستی کی تاریخ بہت قدیم ہے، اور اس کی ابتدا اس طرز پر ہوئی کہ نوح علیہ السلام کی قوم کے جو نیک اور صالح افراد تھے لوگ ان کی وفات کے بعد بطور یادگار ان کی مورتیاں تراش لیتے تھے اور ان بتوں کو اپنے بزرگوں کا نام دے دیتے تھے؛ لیکن ان کی عبادت نہیں کرتے تھے، پھر رفتہ رفتہ لوگوں میں جہالت و بےدینی عام ہوتی گئی اور لوگوں نے ان مورتیوں کو معبود کا درجہ دینا شروع کر دیا اور یوں بت پرستی کی ابتدا ہوئی۔
چناں چہ بخاری شریف میں روایت موجود ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کی جب وفات ہو گئی تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھتے تھے ان کے بت نصب کر دیں، اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ دیں؛ چناں چہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا؛ البتہ اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی؛ لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنھوں نے بت بنائے تھے اور لوگوں میں علم باقی نہ رہا تو انھوں نے ان بتوں پوجنا شروع کر دیا۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 4920)
اس روایت سے معلوم کہ بت پرستی کی ابتدا اور آغاز حضرت نوح علیہ السلام کی قوم سے ہوا۔
جزیرۂ میں عرب سب سے پہلے بت پرستی کس نے کی؟
جزیرۂ عرب میں بت پرستی کی ابتدا کرنے والے کا نام ” عمرو بن عامر بن لحي الخزاعی“ ہے، چناں چہ اس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بخاری شریف میں نقل کیا گیا ہے:
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرِ بْنِ لُحَيٍّ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ وَکَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ.
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے عمرو بن عامر بن لحي الخزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی اینتڑیاں گھسیٹ رہا تھا، اور وہ پہلا شخص ہے جس نے سائبہ کی رسم نکالی۔
سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے وہ اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور نہ اس پر بوجھ لادتے ہیں اور نہ سواری کرتے ہیں۔
عرب میں بت پرستی کی ابتدا کس نے کی؟
عمرو بن لحی الخزاعی نے ایک دفعہ ملک شام کا سفر کیا تو انھوں نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی میں مبتلا دیکھا اور چوں کہ ملک شام انبیا علیہم السلام کی سرزمین تھی؛ چناں چہ اس نے بت پرستی کو دینِ حق سمجھ کر اختیار کر لیا اور اپنے ساتھ ہبل بت لیکر آیا اور اسے خانۂ کعبہ کے اندر نصب کر دیا، اہل مکہ عمرو کو اپنا پیشوا سمجھتے تھے؛ لہذا اس کی پیروی میں انھوں نے بھی اس بت کی پوجا شروع کردی، اور پھر بت پرستی میں ترقی ہوتی گئی اور ایسا دور بھی آیا کہ خانۂ کعبہ میں جو اللہ کا گھر ہے تین سو ساٹھ بت رکھ دیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: قومِ ثمود پر کونسا عذاب آیا تھا؟
0 تبصرے
تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!