Header Ads Widget

قوم ثمود پر کیا عذاب آیا تھا؟

قومِ ثمود پر کون سا عذاب آیا تھا؟ 



قوم ثمود پر کون سا عذاب آیا تھا؟



آج سے تقریبا پانچ ہزار سال پہلے روئے زمین پر ثمود نامی ایک قوم آباد تھی جو طاقت و قوت میں اپنی مثال آپ تھی، انھیں اپنی قوت و توانائی پر بڑا فخر و غرور تھا، وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پہاڑوں اور پتھروں کو تراش کر ایسی خوبصورت و دیدہ زیب عمارتیں بناتے تھے جنھیں دیکھ کر آج بھی ماہرین تعمیرات متحیر ہوکر رہ جاتے ہیں، اللہ تعالی نے انھیں طاقت و توانائی کی بے مثال نعمت سے سرفراز فرمایا تھا اور ان میں ایک نبی مبعوث فرمایا تھا جو انھیں توحید و اطاعت الہی کی دعوت دیا کرتے تھے؛ لیکن وہ قوم کبر و نخوت کے نشے میں چور ہوکر سرکشی و طغیانی پر مصر رہی اور اپنے نبی کے ساتھ ظلم و جور کی انتہا کرنے لگی؛ چناں چہ ان پر قہر خداوندی ٹوٹا اور یوں پوری قوم رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے نشانِ عبرت بن کر رہ گئی۔

قومِ ثمود کون تھے؟

 ثمود عرب کے ایک قبیلے کا نام تھا، اس قبیلے کے افراد ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد تھے، اس کے علاوہ ان کے آباء و اجداد کے متعلق مختلف اقوال ہیں؛ چناں چہ ایک قول کے مطابق یہ قوم ثمود بن غاثر بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی طرف منسوب تھی۔
حجاز اور شام کے درمیان ایک سرزمین حجر نامی تھی، اسی سرزمین پر یہ قوم آباد تھی، آج اسے وادئ ثمود یا مدائن صالح کے نام سے جانا جاتا ہے اور جہاں ان کی عجیب و غریب تعبیرات کے نمونے موجود ہیں جو سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہی ، العلاء نامی شہر سے مدائن صالح میں داخل ہونے کا راستہ ہے، حکومت سعودیہ نے ء1972 میں اس تاریخی سرزمین میں سیاحت کی غرض سے داخلے کی اجازت دے دی ہے؛ البتہ داخلہ کے لیے وہاں کی حکومت کی طرف سے اجازت نامہ لینا ضروری ہے۔


قومِ ثمود میں کون سے نبی مبعوث ہوئے؟

قوم ثمود میں جب بت پرستی اور شرک و کفر جیسی نافرمانیاں رواج پذیر ہو گئیں، بے حیائی،فحاشی اور عریانی حد سے بڑھ گئی، انسانی رشتوں کی تقدیس پامال کی جانے لگی، معاشرے میں ظلم و ستم عام ہو گیا اور عدل و انصاف کا جنازہ اٹھ گیا تو اللہ تعالی نے ان کی اصلاح کے لیے اور ایمان و اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے حضرت صالح علیہ السلام کو تاجِ نبوت پہناکر ان میں مبعوث فرمایا، حضرت صالح علیہ السلام نے انھیں اللہ تعالی کی نعمتیں یاد دلائیں اور انھیں توحید و اسلام کی طرف بلایا، کفر و شرک اور بت پرستی کی قباحت بیان کی، قوم عاد کے انجام کو یاد دلاکر انھیں عذاب الہی سے خبردار کیا؛ لیکن ان کوتاہ نصیبوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، وہ طاقت کے نشے میں اس قدر مخمور تھے کہ حضرت صالح کی دعوت پر لبیک کہنے کی بجائے ان کی رسالت کی تکذیب اور ان کا تمسخر کرنے لگے، ان کی جرأت سرکشی اس قدر بڑھی کہ وہ عذاب کے مطالبات تک کرنے لگے کہ جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں وہ لے آئیے!


اونٹنی کا معجزہ اور قوم کی سرکشی

ایک دفعہ قوم ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کیا کہ اگر آپ حق پر ہیں تو پہاڑ سے ان صفات کی (دس ماہ کی حاملہ) اونٹنی ظاہر کرکے دکھائیے، اگر آپ نے یہ معجزہ دکھایا تو ہم آپ کی دعوت قبول کر لیں گے۔
حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے ایمان لانے کا پختہ عہد لیا اور اللہ تعالی سے دعا کی، یکایک پہاڑ کا ایک چٹان شق ہوا اور اس سے ان کے مطالبہ کردہ صفات کے عین موافق اونٹنی نمودار ہوئی، پوری قوم حیرت سے اسے تکتی رہی، یہ معجزہ دیکھ کر جندع اپنے مخصوص لوگوں کے ہمراہ قصر اسلام میں داخل ہو گیا؛ البتہ قوم کی اکثریت اپنی سرکشی و نافرمانی پر قائم رہی۔ (ابن کثیر)
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی ہے؛ لہذا تم اسے تنگ نہ کرو اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اسے بری نیت سے ہاتھ نہ لگاؤ اور نہ مارو اور ہانکو اور نہ ہی اس کو قتل کرنا؛ ورنہ اللہ کا سخت عذاب تمھیں پکڑ لےگا۔
چناں چہ اونٹنی اپنے بچے کے ساتھ باغوں اور ہریالیوں میں چرتی رہتی تھی، اور خوب دودھ دیتی تھی قبیلے کے سبھی افراد سیراب ہو جاتے تھے؛ لیکن دودھ کم نہ ہوتا تھا، اونٹنی چوں کہ خوب فربہ تھی کہا جاتا ہے اس کا سینہ صرف ساٹھ گز کا تھا بایں وجہ پانی بھی خوب پیتی تھی حتی کہ ایک دفعہ میں تالاب یا کنویں کا سارا پانی پی جاتی تھی؛ چناں چہ حضرت صالح علیہ السلام نے پانی کو اونٹنی اور قوم کے درمیان تقسیم فرما دیا تھا کہ ایک دن اونٹنی پیے اور دوسرے دن قوم کے لوگ۔
چناں چہ قرآن کریم میں ہے: 
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ. (سورة الشعراء)
ترجمہ: فرمایا یہ ناقہ ہے، ایک دن اس کے پینے کی باری ہے اور ایک متعین دن تم لوگوں کی۔



اونٹنی کا قتل کیسے ہوا؟ 

چوں کہ اونٹنی کے معجزے کا قوم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا بایں وجہ وہ اگر چہ مومن نہیں ہوئے؛ تاہم اونٹنی کی کچھ عزت و تکریم ضرور کرتے تھے، کافی عرصہ تک تو یہی چلتا رہا، لیکن وہ قوم سرکشی کی انتہا کو پہنچی کوئی تھی؛ چناں چہ انھیں اب اونٹنی کی موجودگی بھی کھٹکنے لگی تھی، اس کا آزادانہ گھومنا پھرنا اور چرنا انھیں برا معلوم ہونے لگا، مستزاد یہ ہے اونٹنی کی وجہ قوم کو ایک دن چھوڑ کر ایک دن پانی میسر ہوتا تھا؛ چناں چہ شیطان نے ان کے اندر طرح طرح کے وسائس پیدا کیے اور انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ اب اس اونٹنی سے جان چھڑایا جائے یعنی اس کا قصہ تمام کر دیا جائے؛ لیکن قوم کا کوئی بھی فرد اس شنیع فعل کو انجام دینے پر راضی نہیں ہو رہا تھا؛ سو انھوں نے دو آزاد منش عورتوں کو اس بات پر راضی کیا کہ تم شراب و شباب کے نشے میں مدہوش کسی نوجوان کو ورغلاکر اونٹنی کے قتل پر آمادہ کرو، چناں چہ ان دونوں عورتوں نے مل کر دو اوباش قسم کے نوجوانوں کو اپنے حسن و جوانی سے متاثر کر اس اونٹنی کے قتل پر راضی کر لیا، ان کے ساتھ سات افراد اور شامل ہو گئے۔
چناں چہ حسب مشورہ وہ نو افراد اونٹنی کے قتل کی غرض سے کنویں کے پاس گھات لگاکر بیٹھ گئے کہ کب اونٹنی آئے اور ہم اس کو ہلاک کردیں اور قوم کے دیگر افراد عذاب الہی کے خوف سے چھپ چھپ کر تماشا دیکھ رہے تھے۔
چناں چہ جب اونٹنی کنویں پر پانی پینے کی غرض سے آئی تو مصدع نامی ظالم نے تیر کا وار کیا جو اس کی پنڈلی میں لگا اور خون کا چشمہ جاری ہو گیا، اونٹنی کے زخم کو دیکھ کر باقی افراد میں دہشت پیدا ہوئی اور خوف کے مارے پیچھے ہٹنے لگے، اتنے میں وہ دونوں عورتیں آئی اور مردوں کو برا بھلا کہنی لگیں ان کی مردانگی اور طاقت و قوت پر طعنے کسنے لگیں یہ سب سن کر قبیلے کا طاقت ترین شخص قدار بن سالف آگے بڑھا اور اونٹنی کے پچھلے پاؤں کے اوپر کے حصے کو تلوار سے کاٹ دیا، اونٹنی زخم کی تاب نہ لاکر زمین پر گر گئی ادھر سے ظالموں نے زخم خوردہ اونٹنی پر تیروں اور نیزوں کی برسات کردی اور یوں اونٹنی کو انھوں نے ہلاک کر دیا، کہا جاتا ہے کہ اونٹنی کا چھوٹا بچہ پہاڑوں کی طرف بھاگنے لگا اور جس پتھر سے نکلا تھا اسی میں غائب ہو گیا۔


قوم ثمود پر کون سا عذاب آیا تھا؟

اب حضرت صالح علیہ السلام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، قوم نے سرکشی و نافرمانی کی ساری حدیں توڑ دی تھیں، اب عذاب کا وقت آ گیا تھا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا؛ چناں چہ حضرت صالح علیہ السلام نے انھیں ان کی ہلاکت و بربادی اور نزول عذاب کی بشارت سنا دی کہ تین دن کے بعد تم پر قہر خداوندی عذاب بن کر ٹوٹنے والا ہے، عذاب کا مرحلہ پہلے دن سے ہی شروع ہو جائےگا، پہلے دن تمہارے چہرے زرد (پیلے) پڑ جائیں گے، دوسرے دن تمہارے چہرے سرخ (لال) ہو جائیں گے، اور تیسرے دن تمہارے چہرے سیاہ (انتہائی کالے) ہو جائیں گے، پھر چوتھے دن تم پر عذابِ الہی نازل ہوگا؛ چناں چہ ایسا ہی ہوا پہلے دن ان کے چہرے زرد دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ پڑ گئے اور چوتھے دن دوپہر کے وقت ان پر سخت زلزلہ آیا اور آسمان سے ایسی خطرناک چنگھاڑ آئی جس کی وہ تاب نہ لا سکے اور ان کے جگر پارہ پارہ ہو گئے کلیجے پھٹ گئے اور یوں قوم ثمود اپنے انجام کو پہنچ کر نشان عبرت بن گئی۔
اللہ تعالی نے ان کے کبر و نخوت کو خاک میں ملا دیا، مدائن صالح میں موجود ان کی بوسیدہ عمارتیں آج بھی ان کی ہلاکت و بربادی کی گواہی دے رہی ہیں کہ اللہ تعالی سے بغاوت و سرکشی کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں حق تعالی نے نقشہ کھینچا ہے:
فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (الأعراف)

ترجمہ: پس ان کو سخت سخت چنگھاڑ نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔



مراجع و مأخذ : القرآن| فتح الرحمان في تفسير القرآن|  دعوة الرسل عليهم السلام| روح المعاني


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے