Header Ads Widget

قیامِ دارالعلوم دیوبند: پس منظر و پیش منظر

 قیامِ دارالعلوم دیوبند: پس منظر و پیش منظر

قیامِ دار العلوم دیوبند: پس منظر و پیش منظر

از قلم: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغ

    تیرہویں صدی ہجری کے نصف آخر تک دہلی اسلامی علوم و فنون کا مرکز بنا ہوا تھا، اور خانوادۂ شاہ ولی اللہ پورے آب و تاب اور جذبۂ و اخلاص کے ساتھ اسلامی علوم کی خدمات و توسیع میں مست و مگن تھے، دوسری طرف برطانوی سامراج بھی اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل میں پورے طور پر کوشاں تھے، پھر ١٨٥٧ء کا خونی انقلاب رونما ہوا، جس سے ہندستانی مسلمانوں کی کمر ٹوٹ گئی، اسلامی عظمت و شوکت کا چراغ گل ہونے لگا، دہلی کا تخت مغل اقتدار سے خالی ہو گیا، اسلامی شعائر رفتہ رفتہ رو بہ زوال ہونے لگا، دینی تعلیم گاہیں زمین دوز کر دی گئی، جس سے دینی و اسلامی شعور و افکار کی جگہ جہل و ضلالت راستے بنانے لگی، علم و اہلِ علم کی راہیں تنگ اور زندگیاں دشوار تر بنانے کی سازشیں کی جانے لگی، اسلامی اقدار کو مٹانے کے منصوبے بنائے جانے لگے، جاہلانہ و صوفیانہ رسوم و رواج، شرک و بدعات، قبر پرستی اور ہوا پرستی معاشرے میں فروغ پانے لگی، الحاد و دہریت کے بادِ سموم انسانی افکار و اذہان کو مسخر کرنے لگا، عیسائی مشنریوں نے اپنے تبلیغی یلغار شروع کر دیے، اور اس کے لیے انجیل کے تراجم جگہ جگہ تقسیم کیا جانے لگا، ان کے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آنے لگا، اور ہدف و نصب العین یہ قرار پایا کہ” ایک ایسی جماعت تیار کی جاے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندستانی ہو، مگر فکر و عمل کے لحاظ سے عیسائیت کے سانچے میں ڈھلی ہو“ تو اس وقت کے اہل اللہ جن کے نگاہِ بصیرت نے برطانوی سامراج کے ناپاک عزائم و اہداف کو محسوس کر لیا تھا، لہذا ان اہل اللہ کو فکر و اضطراب لاحق ہوا کہ ان ہندستانی بے سہارا مسلمانوں کو سہارے کی شدید ضرورت ہے، اور اس سے بڑھ کر ان کے ایمان و اسلام کے متعلق صحیح تعلیم کی ضرورت ہے، چنانچہ اسی فکر میں چند اہل اللہ سرزمین دیوبند کے مسجدِ چھتہ میں سر جوڑ کر بیٹھے،  ” اس وقت بنیادی نقطۂ نظر یہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار رکھنے کی اور ان کی ملی شیرازہ بندی کے لیے ایک دینی و علمی درسگاہ کا قیام ناگزیر ہے، اس مرکزی فکر کی روشنی میں حضرت مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء خاص حضرت مولانا ذو الفقار علی، مولانا فضل الرحمان، اور حاجی محمد عابد رحم اللہ نے یہ طے کیا کہ اب دہلی کے بجائے دیوبند میں یہ دینی درسگاہ قائم ہونی چاہیے “ بہر حال یہ مشورے اور آرا ان اہل اللہ کی ہے جو یا تو 1857ء کے انقلاب میں بنفس نفیس شریک تھے اور جن کے دلدوز و خوں چکا واقعات و حوادث کے عینی شاہدین تھے، یا پھر وہ علما ایسے بالغ نظر، دور بیں اور عاقبت اندیش تھے جو برطانوی ہند کے عزائم کو اپنی نگاہِ فراست و بصیرت سے دیکھ چکے تھے، اور نہ صرف یہ کہ یہ اقدام محض آپسی آرا اور باہمی تبادلۂ خیال سے سے کیا گیا بلکہ ان کے اس منصوبے کی تائید غیب سے بھی مکاشفات و مبشرات کے ذریعے ہوا، اور اس وقت انہیں اہل اللہ کی جماعت کو قیامِ مدارس کے سلسلے میں الہامِ غیبی پیش آیا، کہ اب اسلامی اقدار اور روایات کی بقاء و تحفظ کے لیے واحد صورت قیامِ مدارس ہے، چنانچہ قیامِ مدارس کی تجویز ہنگامی یا رسمی نہ رہی بلکہ اب غیبی اور الہامی منصوبے کی شکل اختیار کر گئی، جو انگریزوں کے عزائم و اہداف کو خاکستر کرنے کے لیے ایک پر زور تحریک ثابت ہوئی، چنانچہ ١٥ محرم الحرام ١٢٧٣ھ مطابق ٣١ مئی ١٨٦٦ء بروز جمعرات دیوبند کی مسجد چھتہ میں ایک اسلامی مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، اس مدرسے کے قیام میں بنیادی طور پر ان نفوس قدسیہ کا کردار تھا جو اکابر ستہ کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور جن کی محنتیں و کاوشیں غیر معمولی تھیں، حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ، حضرت حاجی عابد حسینؒ، حضرت ذو الفقار علی دیوبندیؒ، مولانا فضل الرحمانؒ، مولانا رفیع الدینؒ، مولانا یعقوب نانوتویؒ، یہ وہ حضرات ہیں جو بانیانِ دار العلوم دیوبند کہے جاتے ہیں، اس کے علاوہ بھی چند مشائخ نے قیامِ دار العلوم دیوبند کے قیام کے سلسلے میں غیر معمولی درد مندی اور فکرمندی کا ثبوت دیا ہے، چنانچہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، فقیہ الامت رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا مہتاب علی دیوبندیؒ کا نام اس‌حوالے سے تابندہ و درخشندہ ہیں۔

           دار العلوم دیوبند کا قیام محض ایک ادارے یا ایک عربی مدرسے کا قیام نہیں تھا بلکہ اسلامی اقدار اور مسلمانوں کی عظیم ملی روایات کی نشأت ثانیہ تھی، جن کا باضابطہ آغاز ہو چکا تھا، جن کے آئین و دستور حضرت حجۃ الاسلام نے ” اصول ہشتگانہ “ کے نام سے تیار فرما دیا، اور اپنے منصوبے و نصب العین کو ببانگ دہل یہ اعلان کر دیا تھا کہ ” ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندستانی ہوں اور دل و دماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں، جن میں اسلامی تہذیب و تمدن بیدار ہو، اور دین و سیاست کے لحاظ سے ان میں اسلامی شعور زندہ ہوں“ اسی کو پھر مزید تفصیل کے ساتھ دستور اساسی کے طور پر حسب ذیل مقاصد ترتیب دیے گئے

(1)  قران مجید، تفسیر، حدیث، عقائد و کلام اور ان کے علوم کے متعلقہ ضروری اور مفید فنون آلیہ کی تعلیم دینا، اور مسلمانوں کو مکمل طور پر اسلامی معلومات بہم پہنچانا رشدو ہدایت اور تبلیغ کے ذریعے اسلام کی خدمت انجام دینا۔ (2)  اعمال و اخلاق اسلامیہ کی تربیت اور طلبہ کی زندگی میں اسلامی روح بیدار کرنا۔

 (3)  اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور دین کا تحفظ و دفاع اور اشاعتِ اسلام کی خدمت بذریعہ تحریر و تقریر بجا لانا اور مسلمانوں میں تعلیم و تبلیغ کے ذریعے سے خیر القرون اور سلف صالحین جیسے اخلاق و اعمال اور جذبات پیدا کرنا۔ (4) حکومت کے اثرات سے اجتناب و احتراز اور علم و فکر کی آزادی کو برقرار رکھنا۔

(5) علوم دینیہ کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر مدارس عربیہ قائم کرنا اور ان کا دارالعلوم سے الحاق۔

                   یہ وہ مقاصد ہیں جو اگرچہ اسلامی روایات تاریخ کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہے ہیں مگر اس وقت ان کے احیاء و تجدید کی ضرورت اس لیے درپیش تھی کہ تیرہویں صدی ہجری کے نصف آخر میں حکومت کی تبدیلی اور محرومی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے علم و عمل اور فکر و نظر میں جو اختلال اور رخنہ پیدا ہو گیا تھا اس کے انسداد کے لیے ناگزیر تھا کہ آئندہ کے لیے ایسے وسائل اختیار کیے جائیں جن کے ذریعے سے اسلام، اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت کی جا سکے، دارالعلوم کا نصب العین انہیں مقاصد کا احیاء اور ان کی تجدید ہے۔ (تاریخ دارالعلوم دیوبند ج1 ص 142)


 حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے الفاظ میں دارالعلوم کے نصب العین کی تشریح یہ ہے:

اول: مذہبیت،  دارالعلوم مذہبی قوت کا سرچشمہ ہے اور اول سے اخر تک اسلام کے دستور و آئین کا پابند ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کا ہر فرد اسلام کا نمونۂ کامل ہے۔

دوئم: آزادی، جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دارالعلوم مکمل طور پر بیرونی غلامی کے خلاف ہے اس کا نظام تعلیم و تربیت، اس کا نظام مالیات اور اس کا نظام اجتماعی سرتا سر آزاد ہے، دنیا میں یہ پہلی جامعہ ہے جس کے سامنے حکومت نے بارہا پیشکش کی مگر اس نے لاکھوں روپے کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

سوم:  سادگی اور محنت پسندی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں کے علماء اور فضلا جہاد زندگی میں بڑی سے بڑی مصیبت برداشت کرنے کے عادی ہیں۔

چہارم:  کردار بلند اخلاقی،  جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں کے طلبہ اس کردارِ بلند کا نمونۂ کامل ہیں جس کو انہوں نے اپنے اکابر سے پایا ہے، یہ کردار سرتاسر روحانی ہے۔

پنجم:  علمی اور تعلیمی وابستگی، یہ وہ خصوصیت ہے جسے دارالعلوم کو دیکھنے والا اولیں لمحات میں محسوس کر سکتا ہے یہ نہ کہنے کی بات ہے، نہ سننے سے متعلق ہے، دارالعلوم کی ہر خصوصیت کو اس کی زندگی کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں دنیا کے ہر حصے کے طلبہ موجود ہیں، دارالعلوم کے اساتذہ دنیا کے بہترین اساتذہ ہیں، اور دارالعلوم کے خدام ایثار و قربانی کا زندہ نمونہ ہیں، مسلمانوں کو ان لوگوں پر اعتماد ہے اور دنیا کے ہر حصے سے اس دارالعلوم کے لیے مالی امداد وصول ہوتی ہے، دارالعلوم کی داغ بیل ان علمائے ربانیین نے ڈالی تھی جو سراپا خلوص و للٰہیت تھے، ان کا دل و دماغ ملت اسلامیہ کی شاندار مستقبل کے لیے بے چین تھا، انہوں نے اپنے کو اشاعت دین اور ترویج علوم نبویہ کے لیے وقف کر دیا تھا، رب العالمین نے دارالعلوم اور اس کی خدمت کو مقبولیت عطا فرمائی اور اس نے ملک اور بیرون ملک کی دینی علمی اخلاقی اور اسلامی جو خدمات عظیم انجام دی ہیں وہ کبھی بھلائی نہیں جا سکتی ہے، یہاں سے ہزاروں علماء اور صوفیا پیدا ہوئے جن میں بہترین محدثین، فقہاء، مصنفین اور مبلغین کا جم غفیر بھی ہے، اور رشد و ہدایت اور تزکیۂ باطن کرنے والوں کی ایک لمبی جماعت بھی ہے بلکہ ان میں وہ لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں جنہوں نے ملک کی آزادی اور یہاں کے باشندوں کی اصلاح کے لیے بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں، (تاریخ دارالعلوم دیوبند ج1 ص 145)

         یہ ہے دارالعلوم دیوبند کے قیام کا پس منظر و پس منظر، اس کے اہداف و مقاصد یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ یہ وہی شجرۂ طوبی کی ایک شاخ ہے جس کی آبیاری مجدد دہلویؒ نے کی تھی،  دار العلوم دیوبند اسی تحریک کا شاخسانہ ہے جس کو لے کر فرزندانِ ولی اللہ نے صداے تکبیر بلند کیے تھے، یہ اسی کی تعبیر ہے جس کا خواب افکارِ ولی اللہی کے پاسبانوں نے دیکھا تھا۔ یہ ملت اسلامیہ کا دھڑکتا ہوا دل ہے، مسلمانوں کے بقاے وقار‌ کا  ضامن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دارالعلوم دیوبند کا فیض

یہ بھی پڑھیں: مبشرات دارالعلوم دیوبند

یہ بھی پڑھیں: علمائے دیوبند اور اردو زبان و ادب


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے