Header Ads Widget

علماءِ دیوبند اور اردو زبان و ادب

 علماءِ دیوبند اور اردو زبان و ادب


علماءِ دیوبند اور اردو زبان و ادب

از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

دارالعلوم دیوبند کے علماء و فضلا نے جہاں دیگر اسلامی علوم و فنون کے حوالے سے گراں قدر اور بیش بہا خدمات انجام دیں ہیں، وہیں سماجیات سے تعلق رکھنے والے علوم میں بھی اپنی تصانیف کا ایک معتد بہ ذخیرہ تیار کیا ہے، جہاں انھوں نے درسگاہوں اور خانقاہوں میں گوشۂ نشینی کے ساتھ ساتھ قال اللہ و قال الرسول کی صداے دلنواز بلند کیں، وہیں اپنے معاشرتی علوم کو بھی نظر انداز نہ ہونے دیا، حضرت الاستاذ علامہ راشد اعظمی کے بقول ’’ فضلاءِ دیوبند ہمہ جہت و ہمہ گیر ہوتے ہیں، وہ تقریر و خطابت کے بزم بھی گرماتا ہے مسندِ درس  میں بیٹھ کر علمی عقدے بھی حل کرتا ہے اور تصنیف و تالیف کے ذریعے اصلاحِ خلق اور امت کی رہبری و رہنمائی کا مقدس فریضہ بھی انجام دیتا ہے“ علماءِ دیوبند نے دیگر اسلامی شعبہ جات میں خدمات کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کے تحفظ و بقا اور اس کی ترویج و اشاعت میں بھی نمایاں اور ممتاز کردار ادا کیا ہے، اردو زبان و ادب کو محض ایک معاشرتی و سماجی علم ہی کی حیثیت سے نہیں بلکہ اردو کو ایک اسلامی فن اور دینی ضروریات میں سے قرار دے کر اس زبان کی اہمیت و عظمت میں چار چاند لگا دئیے ہیں، چنانچہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ” اس وقت اردو زبان کی حفاظت دین کی حفاظت ہے، اس بنا پر یہ حفاظت حسبِ استطاعت واجب اور طاعت ہے، اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت کرنا معصیت و موجب مواخذۂ آخرت ہوگا “ 

الغرض علماءِ دیوبند نے بھی اردو زبان و ادب میں گہرے نقوش قائم کیے ہیں، اور تحقیقی و تخلیقی سطح پر اپنی فعالیت کا ثبوت دیتے ہوئے اردو زبان کے سرمایے میں بیش بہا اضافے کیے ہیں، جس سے اردو زبان کو فکری و لسانی اعتبار سے کافی توانائی حاصل ہوئی ہے۔


” شاعری کے علاوہ نثر کے میدان میں دیوبند کے امتیازات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ دیوبند نے جس نثر کی تشکیل کی ہے، اس سے نہ صرف اردو ادب کا دامن وسیع ہوا ہے بلکہ دیوبند کی نثر کی وجہ سے بہت سے ایسے الفاظ بھی اردو کی فرہنگ کا حصہ بن گئے ہیں جنہیں اگر علماءِ دیوبند اپنی تحریروں میں استعمال نہ کرتے تو شاید ان الفاظ سے اردو ادب کی شناسائی بھی ممکن نہ پاتی، دیوبند نے صرف اردو نثر کو ایک نمونہ نہیں دیا بلکہ اس نے اردو کو کئی نثری اسالیب دیے ہیں، ان میں علمی نثر، خطابیہ نثر اور مکالماتی نثر سب شامل ہیں“

                  شاید یہ بات بہتوں کے علم میں نہ آئی ہو کہ شیخ الہند ہی کے شاگرد رشید اور فکری ترجمان مولانا عبید اللہ سندھی کی کوششوں سے کابل افغانستان میں پہلی مرتبہ اردو یونیورسٹی قائم ہوئی، جس میں ذریعہ تعلیم بھی اردو قرار پایا، نیز یہ بات بھی ذہنوں میں رہنی چاہیے کہ پڑوسی ملک میں سرکاری زبان کے حوالے سے اردو کے انتخاب میں علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ  وغیرہ علماءِ کرام کی بھی مساعیِ جمیلہ اور قابلِ قدر کدو کاوش شامل رہی ہے، چنانچہ اردو زبان و ادب کے لسانی و فکری سرمایے میں جو قابلِ قدر اضافے اہلِ مدارس بالخصوص علماءِ دیوبند نے کیے ہیں وہ محتاج بیاں نہیں ہیں، جنہوں نے محض بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک میں بھی سب سے زیادہ اردو کی ترویج و توسیع کا کام کیا ہے۔ 


یہ بھی پڑھیں: علماء دیوبند اور علم حدیث

یہ بھی پڑھیں: علماء دیوبند اور فقہی خدمات

احیاءِ اردو کے لیے عملی اقدامات

                   ”مدارس نے اردو زبان کے احیاء کے لیے عملی اقدامات کیے، اور تدریسی میڈیم کے طور پر اردو زبان کو اختیار کیا، اور اس طرح اردو زبان کی ترقی کی راہیں ہموار کیں، کہ دیگر لسانی معاشرے سے تعلق رکھنے والے بھی اردو زبان میں ہی تعلیم پاتے ہیں، چاہے ان کا تعلق برمی، بنگلہ، کنڑ، تمل، تلگو، گجراتی، مراٹھی زبان سے ہو، مگر مدارس کے طلبہ اردو زبان میں ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس کے برعکس عصری جامعات یا کالجز میں اردو شعبہ جات میں لوگ اختیاری یا لازمی مضمون کے طور پر لیتے ہیں مگر مدارس میں ہر سطح پر اردو لازمی ہو جاتی ہے کہ اردو ہی ذریعۂ تعلیم ہے“ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کی علمی و عرفانی ماحول و فضا میں عمومی زبان کی حیثیت سے جو مقبول و ہر دل عزیز ہے، وہ اردو ہی ہے، یہاں کے سائن بورڑ، اعلانیہ و بینرز، اساتذہ کے ناموں کی تختیاں، احاطوں اور سڑکوں کے نام، مزاروں پر لگے کتبے، کیلنڈر و دعوت نامے اور اس طرح یا اس کے علاوہ روز مرہ کے درجنوں چیزیں اردو قالب میں ہی ڈھالا جاتا ہے، نیز دیوبند کے دکانوں کی سائن بورڑ دکانوں کے نام بیش تر اردو زبان میں ہی جلی نقش کے ساتھ کندہ ہوتے ہیں، مزید یہ کہ دار العلوم دیوبند اور اس سے ملحقہ ہزاروں مدارسِ اسلامیہ کا ذریعہ تعلیم و تفہیم اور تبلیغ اردو زبان ہی ہے، ان تمام مدارس کے دفتری، محاسبی اور جملہ کاروائیوں کے لیے بھی اردو ہی استعمال کی جاتی ہے۔


علماءِ دیوبند کی نثری خصوصیات

مولانا اعجاز عرفی قاسمی صاحب فضلاءِ دیوبند کی نثری خصوصیات کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ ” علماء دیوبند نے صرف شاعری کے میدان میں ہی نہیں، نثر نگاری کے میدان میں بھی اپنا ادبی و تخلیقی جوہر دکھایا ہے، دیوبند نے فرسودہ راہوں پر چلنے والے نثر نگار نہیں، بہت سے صاحبِ اسلوب نثر نگاروں کو جنم دیا ہے، فضلاءِ دیوبند کے نثر میں علمیت، منطقیت اور معروضیت کی فراوانی ہے، نہ وہ بے جا تمہید باندھتے ہیں، نہ خارج از موضوع دور دراز کی باتیں کر کے قاری کی تضییعِ اوقات اور ذہنی تشویش کا سبب بنتے ہیں، ان کی نثر میں ارتکاز و استدلال اور اخذ و استنباط کا مادہ ہوتا ہے، ان کی زبان نہایت شستہ و سلیس اور ادبیت و تخلیقیت سے لبریز و معمور ہوتی ہے، ان کی تحریر سلسبیلی نثر کے دائرے میں آتی ہے، جس میں وضاحت، صراحت اور قطعیت ہے، وہی صفات جن کو شاہکار کلاسیکل نثری تحریروں کا زیور تصور کیا جاتا ہے، ان کی تحریروں میں کہیں ابہام و ژولیدگی نہیں “


فکر دیوبند سے منسلک رسائل و مجلات

        دارالعلوم دیوبند اور اس سے ملحقہ مدارس و مکاتب یا دار العلوم دیوبند سے علمی و فکری وابستگی رکھنے والے اہل علم و قلم جن کی ادارت و نگرانی میں سیکڑوں کی تعداد میں روزنامے، ہفتہ واری، پندرہ روزہ، ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی، سالانہ رسائل و مجلات شائع ہوتے ہیں، جہاں ایک طرف تو ان رسائل و جرائد میں علمی و تحقیقی و تخلیقی مضامین و مقالات ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف اردو زبان و ادب کی خدمت بھی وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔


         یوں تو دار العلوم دیوبند کی اردو صحافت کی ابتدا ١٣٢٨ھ مطابق ١٩١٠ء میں ماہنامہ ”القاسم“ اور ”الرشید“ کے ذریعے سے بزبان اردو ہوئی، بھر اس کا سلسلہ مزید دراز ہوا تو رفتہ رفتہ فضلاءِ دیوبند اور وابستگانِ دیوبند جن کی ادارت و سرپرستی میں درجنوں علمی و ادبی رسائل و جرائد نکلنے شروع ہوے، اپنی تحقیقات و نگارشات کو اردو زبان کی زینت بنائی، جس سے اردو زبان کی ترویج و توسیع میں بھی ایک قابلِ قدر اضافہ ہوا، چنانچہ اگر ابھی ماضی قریب اور زمانۂ حال کے ممتاز و منفرد قلمکار اور ان کی ادارت و نگرانی میں شائع ہونے والے رسائل و جرائد کا نام لیا جاے تو بلاشبہ ان میں مذکورہ ذیل رسائل ایک خاص وقار و عظمت کے حامل ہیں، تہذیب نسواں (لاہور)، سہ روزہ الامان (دہلی)، روزنامہ عصر جدید (کلکتہ)، سہ روزہ مدینہ (بجنور)، ماہنامہ مخزن و ادبی دنیا (لاہور)، ماہنامہ برہان (دہلی)، ہفت روزہ نئی دنیا (دہلی)، ماہنامہ تجلی (دیوبند مدیر علامہ عامر عثمانی)، الفرقان (بریلی، لکھنؤ)، ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، ماہنامہ نداے شاہی، ماہنامہ مظاہر العلوم (سہارنپور)، ماہنامہ فیضانِ اشرف، ماہنامہ شاہراہِ علم، فکر و نظر، بحث و نظر، ریاض الجنہ، نقوش حیات، گلشن اردو، اصلاحِ امت، ان کے علاوہ بھی سیکڑوں رسائل ہیں جن کا نام بجا طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، کہ جنہوں نے نہ صرف اردو کی آبیاری و آبپاشی کی بلکہ اردو کو عالمی زبان بنانے والوں میں ایک بڑا اور نمایاں نام پیدا کیا، اسی سلسلے کا ایک واقعہ  مولانا محبوب رضوی کے خامۂ عنبریں سے سنتے چلیں تاریخ دارالعلوم دیوبند کے حاشیے میں لکھتے ہیں کہ ” کہ ایک صاحب جنہوں نے مختلف ممالک کی سیاحت کی تھی، دارالعلوم دیوبند آے تھے، وہ کہتے تھے” جب میں بخارا پہنچا جو وسط ایشیا کا اہم مقام ہے، تو وہاں ایسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی جنہوں نے مجھے ہندستانی سمجھ کر ہمدردانہ لہجے میں اردو میں مجھ سے گفتگو کی، مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ہندستان سے اس قدر دور دراز، اتنی صاف اردو ان کو کیوں کر آئی ہوگی، میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتلایا کہ یہ دار العلوم دیوبند کا تعلیمی فیض ہے، اور ہم ہی نہیں بلکہ یہاں کا علمی حلقہ بالعموم اردو بولتا اور سمجھتا ہے “( تاریخ دار العلوم دیوبند ج ۱ ص ٣٦٥)


اردو زبان کی عالمی حیثیت

       دارالعلوم دیوبند نے چوں کہ اپنے ابتداءِ قیام ہی سے مقبولیت و مرجعیت حاصل کر لی تھی، جہاں پر نہ صرف مضافات اور قرب و جوار کے طلبہ آتے تھے، بلکہ ہندستان کے مختلف اور دور دراز کے صوبہ جات سے خوشہ چینی کے لیے دیوبند وارد ہوتے، جن کی زبانیں وہاں کے علاقوں کے مثلأ بنگالی، برمی، کنڑ، تلگو، گجراتی، مراٹھی، تمل وغیرہ ہوتی تھی، مزید یہ کہ بیرونِ ہند مثلاً افغانستان و افریقہ وغیرہ سے جو طالبان حق  آتے تھے، چوں کہ دار العلوم دیوبند کا ذریعۂ تعلیم اردو ہے، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مختلف علاقۂ زبان کے طلبہ دوران قیامِ دیوبند نہ صرف یہ کہ اردو بولنا سیکھ جاتے ہیں بلکہ اردو کے عمدہ خطیب اور بہترین قلمکار بھی بن کر نکلتے ہیں، جو کہ بعد میں اپنے اپنے علاقوں میں مراجعت کے بعد وہاں اردو کی تخم ریزی بھی کر دیتے ہیں، جس سے بہت سے علاقوں میں اردو سیاسی، مذہبی، ثقافتی شناخت کا ذریعہ بھی بن گئی ہے، جنوبی افریقہ اس کی نمایاں ترین مثال ہے جہاں اردو کو  Religious lingua franca کی حیثیت حاصل ہے، پروفیسر حبیب الحق ندوی نے اپنے مضمون ”جنوبی افریقہ میں اردو “ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”ڈربن میں پانچ عظیم مراکز ہیں جہاں اردو ذریعۂ تعلیم ہے، درجنوں مدارس ہیں جن کے اساتذہ زیادہ تر ہندستانی مدارس مثلاً دیوبند، ڈھابیل اور راندیر کے فارغین ہیں“ ان اساتذہ کی وجہ جنوبی افریقہ میں اردو کو فروغ حاصل ہوا۔

                   اس ضمن میں مولانا الیاس کاندھلوی کی عالمی تبلیغی تحریک کا ذکر بھی ضروری ہے جس نے زبان کی حد تک اردو کے فروغ میں اردو کی باضابطہ تنظیموں، اداروں سے زیادہ فعال اور نمایاں کردار ادا کیا ہے، صرف ایشیا و  افریقہ نہیں بلکہ یوروپی ممالک میں بھی اردو کے تہذیبی لسانی چراغ کو روشن رکھا ہے، پروفیسر حبیب الحق ندوی کے بقول”١٩٦٤“ سے جنوبی افریقہ میں تبلیغی جماعت کی تحریک شروع ہوئی، اس کا پہلا اجتماع ١٩٦٤ میں شہر ڈربن میں منعقد ہوا، ١٩٧٢ تک لاکھوں کے مجمع میں تمام تقاریر اردو زبان میں ہوتی رہی، اس طور پر اردو زبان کے فروغ میں تبلیغی جماعت کا کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ضرورت ہے کہ اردو زبان کے فروغ میں تبلیغی جماعت کے کردار پر تحقیق کی جاے، اور ان کی وسیع تر خدمات کا مکمل جائزہ لیا جائے“ (دارالعلوم دیوبند ادبی شناخت نامہ ص٤٨)

     


ممتاز نثر نگار فضلاءِ دیوبند

                     عہدِ قریب اور عصر حاضر کے ممتاز قلم کاروں کی اگر فہرست تیار کی جاے تو بڑے ہی اعتماد کے ساتھ مذکورہ ذیل ناموں کو صف اول میں درج کیا جا سکتا ہے، مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ، مولانا ابو الحسن علی میاں ندویؒ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا کفیل احمد علوی، مولانا حسن الہاشمیؒ، مولانا اعجاز احمد اعظمی، مولانا فضیل الرحمن ہلال عثمانیؒ، مولانا بدر الحسن قاسمی، مولانا نور عالم خلیل امینیؒ، مولانا ازہر شاہ کشمیری، مولانا انظر شاہ کشمیریؒ، مولانا نسیم اختر شاہ قیصرؒ، مفتی سلمان منصورپوری، مولانا شکیب قاسمی، شمس تبریز قاسمی، نازش ہما قاسمی، مہدی حسن عینی قاسمی، وارث مظہری، عابد انور، ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی، مولانا عتیق بستوی، مناظر احسن گیلانی، مولانا ندیم الواجدی، مفتی ثناء الہدی قاسمی، مولانا عبد الحمید نعمانی، مولانا اسرار الحق قاسمی، حقانی القاسمی، غفران ساجد قاسمی، مولانا فضیل احمد ناصری، اعجاز ارشد قاسمی،  نایاب حسن، مولانا غلام نبی کشمیری وغیرہ یہ  سب وہ فضلاءِ دیوبند ہیں جن کو قلمی، علمی اور صحافتی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے، جنہوں نے اردو کو اپنی قلمی کاوشوں اور علمی و تحقیقی سرمایوں کا مظہر بناے ہوے ہیں، اور جن سے دنیائے اردو درخشندہ و تابندہ ہیں۔


دیوبند کے اشاعتی ادارے

       دارالعلوم دیوبند چوں کہ روز اول سے ہی تشنگانِ علوم و معارف کے لیے مرجع و منبع بن گیا تھا، لہذا اسی مقدار میں کتابوں کی فراہمی کے لیے پریس و کتب خانوں کا قیام ضروری تھا، ابتداءً درسی کتابوں کی فراہمی لکھنؤ و دہلی وغیرہ سے ہوتا رہا، مگر جب طلبہ کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی تو مزید کتابوں کی فراہمی کے لیے دیوبند میں ہی مطبع و پریس کا وجود عمل میں آیا، اولا دار الاشاعت کے نام سے مفتی شفیع عثمانی ؒ اور مولانا محمد طاہر قاسمی حفید مکرم حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتویؒ نے بنامِ ” مطبع قاسمی “ اشاعتی ادارے قائم کیے، تب سے ایک بہترین سلسلے کا آغاز ہوا جو اب تک پوری شان و شوکت کے ساتھ جارو و ساری ہے، جن کی تعداد اب تقریباً سیکڑوں تک پہنچ چکی ہے، دو کتب خانے اور اشاعتی ادارے تو دار العلوم ہی کے ہیں کہ ایک کتب ”خانہ دار العلوم دیوبند“ اور دوسرا ”شیخ الہند اکیڈمی“ باقی جتنے کتب خانے ہیں وہ سب یا تو اساتذہ دار العلوم نے یا فضلاء دار العلوم نے قائم کی ہیں، دار العلوم دیوبند کے کچھ فضلا ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے محض اپنی ہی کتابوں کی اشاعت کے لیے کتب خانے قائم کیے ہیں، اور ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو اپنی کتابوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مصنفین کی کتابوں کو بھی شائع کرتے ہیں، چند مشہور و معروف ترین کتب خانوں کے نام یہ ہیں، کتب خانہ نعیمیہ، دار الکتاب، اتحاد بک ڈپو، زمزم بکڈپو، زکریا بک ڈپو، مکتبہ تھانوی، مکتبہ حجاز، مکتبہ صوت القرآن، دار الاشاعت، الامین کتابستان، دار المعارف، عظیم بک ڈپو، دار العلم یہ سب وہ کتب خانے ہیں جو اسلامی اردو کتابوں کی اشاعت و توسیع میں طویل عرصے سے خدمات انجام دے رہے ہیں، اور جن کی کتابیں ملک و بیرون ملک جاتی ہیں۔


شیخ الہند اکیڈمی اور اردو خدمات

    دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث شریف اور تکمیلات سے فارغین طلبہ کو ایک سال کے لئے اردو صحافت اور مضمون نگاری سکھانے کے لیے یہ ایک تحقیقی و تصنیفی شعبہ ہے، جس کا قیام علمی منصوبوں کے ذیل میں ١٤٠٣ھ میں عمل میں آیا، اس کے قیام کے جہاں دیگر بھی مقاصد و اہداف ہیں وہیں ایک مقصد طلبۂ دار العلوم کے اندر اردو صحافت کا ملکہ اور لیاقت پیدا کرنا ہے، چنانچہ اس شعبے سے کئی اہم اور قابلِ قدر صحافی تیار ہوے، اس اکیڈمی نے سب سے زیادہ اردو زبان و ادب میں خدمات انجام دیں، اور تقریباً دو سے زیادہ درجن کتابیں اردو کے اعلی معیار پر رموز و قواعد املا کے اہتمام کے ساتھ شائع کی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں، (١) شوری کی شرعی حیثیت  (٢) اشاعت اسلام (٣) تفہیم القرآن تحقیقی و تنقیدی جائزہ (٤) ادلۂ کاملہ(٥) ایضاح الادلہ (٦) خیرالقرون کی درسگاہیں (٧) ائمۂ اربعہ (٨) حضرت مولانا قاسم نانوتوی حیات اور کارنامے (٩) حضرت گنگوہی حیات اور کارنامے (١٠) حضرت شیخ الہند حیات اور کارنامے (١١) تذکرۃ النعمان (١٢) تقریر دلپذیر


ان سطور بالا سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت اور اس کی ترقی میں فضلاءِ دیوبند نے جامعیت کے ساتھ کس قدر انجام دیں ہیں، آج تقاضہ ہے کہ ان کی بھی روشن تاریخی خدمات کا اعتراف کیا جاے، لیکن اہل قوم کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ اردو کی تاریخ میں دہلی و لکھنؤ کے دبستان کا تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن دبستانِ دیوبند یا دیگر بڑے مدارس کا تذکرہ نہیں کرتے ہیں، جنہوں نے اردو کو توسیع میں کسی تحریک سے کم خدمات انجام نہیں دیں، بلکہ اس سے بڑھ چڑھ کر خدمات میں حصہ لیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے