Header Ads Widget

دینی مدارس اور احترام اساتذہ

 دینی مدارس اور احترام اساتذہ


دینی مدارس اور احترام اساتذہ

از: محمد زبیر


یوں تو کوئی بھی نظام تعلیم بلکہ کوئی بھی شعبہ زندگی ہو، اس میں استاذ کے ادب و احترام کا تصور پایا جاتا ہے اور کسی بھی علم، فن اور شعبہ میں کمال حاصل کرنے میں استاذ کے ادب و احترام اور خدمت گزاری واطاعت شعاری کو شاہ کلید کی حیثیت حاصل ہے، لیکن دینی علوم کے مراکز کا تو طُرّۂ امتیاز و سرمایۂ ناز ہی یہی سمجھا جاتا ہے کہ ان میں اساتذہ کی تعظیم و تکریم اپنی حقیقی اور مطلوب صورت میں پائی جاتی ہے اور امر واقعہ بھی یہی ہے کہ دینی مدارس کے ماحول میں اساتذہ و تلامذہ کے مابین ادب و احترام اور شفقت و خیر خواہی کا جو رشتہ و تعلق پایا جاتا ہے وہ لائقِ تحسین و قابلِ تقلید ہے۔ اس دور میں___ جبکہ استاذ اور شاگرد کے مقدس روحانی رشتہ کو اجیر اور مستاجر کے تاجرانہ تعلق میں بدل دیا گیا ہے___ دینی مدارس کا ماحول بساغنیمت ہے کہ یہاں استاذ اور شاگرد کا باہمی رشتہ و تعلق استاذ کی طرف سے مہربانی و خیر اندیشی اور شاگرد کی جانب سے فرمانبرداری واطاعت شعاری کی بنیادوں پر استوار ہے۔

     دینی مدارس میں اساتذہ کے ادب و احترام کے زیادہ ملحوظ رکھے جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان مدارس میں قرآن وحدیث کا جو علم پڑھایا جاتا ہے وہ علم بذات خود اپنے حاملین سے اس رویے کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ جن وسائط سے علم حاصل کر رہے ہیں، ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھیں ، ان کی رضا و خوشنودی کو اپنی خواہش اور چاہت پر مقدم رکھیں اور ایسا کوئی طرزِ عمل اور رویہ اختیار نہ کریں جو ان شخصیات کی بے اکرامی یا ناراضی کا موجب بنے ، جن کے واسطے اور ذریعے سے علم دین کی دولت انہیں حاصل ہورہی ہے۔

      علم دین اپنے پڑھنے والوں کو خود یہ بتلاتا ہے کہ استاذ، معلم و مربی ہونے کی حیثیت سے والد کے درجے میں ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انما انا لكم بمنزلة الوالد اعلمكم (سنن ابی داؤد ) ( میں تمہارے لیے بمنزلہ باپ کے ہوں، میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں) یہ اور اس جیسی دیگر بیسیوں نصوص طالب علم پر لازم کرتی ہیں کہ وہ دل و جان سے اپنے اساتذہ کا احترام کرے اور ان کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی اپنے آپ کو بچا کے رکھے۔ اور پھر محض یہی نہیں کہ اساتذہ کی بے ادبی و بے احترامی سے بچنا کافی ہے بلکہ ان کے ساتھ عجز و انکسار اور فروتنی و احسان مندی سے پیش آنا بھی ضروری ہے ۔ چنانچہ سیدنا فاروق اعظم رض کا ارشاد ہے: تعلموا العلم وتعلموا له السكينة والوقار وتواضعوا لمن تتعلمون منه (شعب الایمان للبیہقی) علم حاصل کرو اور اس کے لیے سکینت و وقار بھی سیکھو اور جن سے علم حاصل کرتے ہو ان کے سامنے تواضع وعاجزی سے پیش آؤ۔ حضرات صحابہ کرام  اور سلف صالحین نے اس نکتے کو پالیا تھا کہ علم، نافع اور با برکت تب بنتا ہے جب متعلم کما حقُّہٗ معلم کی تعظیم و تکریم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حضرات خود علم و فضل کے اونچے مراتب پر فائز ہونے کے باوجود اپنے سے فائق اہل علم اور اساتذہ کرام کے احترام و اکرام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں جانے دیتے تھے۔

    چنانچه سیدنا زید بن ثابت رض جب ایک موقع پر سواری پر سوار ہونے لگے تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آگے بڑھ کر ان کی سواری کی رکاب تھام لی تا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سہولت اور آسانی سے سوار ہو سکیں ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا زاد ہیں، آپ ایسا نہ کریں! اس پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے ارشاد فرمایا کہ : "هكذا يُفعل بالعلماء والكبراء " یعنی اہل علم اور اکا بر کا حق یہی ہے کہ ان کے ساتھ ایسا تعظیمی برتاؤ کیا جائے۔ (جامع بیان العلم وفضله لابن عبدالبر ) ۔

    

 امام شعبہ رح جو کہ اپنے زمانے میں امیر المؤمنین فی الحدیث کے عظیم لقب سے ملقب تھے وہ یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: "كل من سمعت منه حديثاً فانا لہٗ عبد" یعنی جس شخص سے مجھے ایک حدیث کا سماع بھی حاصل ہو گیا تو میں اس کا غلام ہوں۔ ( جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر ) علم دین اپنے طالب پر یہ بھی لازم کرتا ہے کہ اگر استاذ اس کے کسی ناشائستہ طرزِ عمل پر اس سے خفا ہو جاتا ہے اور اس سے ناراضی کا اظہار کرتا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے اور طالب علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ استاذ کی زجر و توبیخ کو اپنے حق میں مفید سمجھے اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب صحیح بخاری شریف کی کتاب العلم میں باقاعدہ ایک باب باندھا ہے" باب الغضب في الموعظة والتعليم اذا رأی ما یکرہ" اس ترجمۃ الباب سے امام بخاری رح کی غرض اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ اگر استاذ اپنے شاگرد کا کوئی نا پسندیدہ رویہ دیکھے تو اسے بہ نیت اصلاح تنبیہ کرنے کا حق حاصل ہے۔

       سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کا مشہور مقولہ ہے" انا عبدُ مَنْ علمني حرفاً واحدًا، إن شاء باع وإن شاء اعتق، وإن شاءَ استرق"( تعلیم المتعلم ) یعنی جس شخص نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا تو میں اس کا غلام ہوں، وہ چاہے تو مجھے بیچ ڈالے، چاہے تو آزاد کر دے اور اگر چاہے تو غلام بنائے رکھے۔

      حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے قرابت اور اپنی خاندانی وجاہت کی وجہ سے حضرات صحابہ کرام کے ہاں ایک خاص احترام و مقام رکھتے تھے لیکن جب انہوں نے تحصیل علم کو اپنا مقصد زندگی بنایا تو اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ نہایت تواضع و انکساری سے پیش آتے ۔ حدیث کے سماع کے لیے جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو گھر کی دہلیز پر بیٹھ جاتے ، چہرہ غبار آلود ہو جاتا، مگر یہ گوارا نہ کرتے کہ استاذ کو آواز دے کر باہر بلالیں ، بلکہ انتظار کرتے کہ استاذ اپنے کسی کام سے گھر سے باہر تشریف لے آئیں تو میں ان سے حدیث کی سماعت کرلوں (دارمی) 

        علم اور اہل علم کا یہی احترام تھا جس نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کو حبر الأمة اور بَحْرُ العلم بنادیا۔ 

         تو چونکہ علم دین خود اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ جن اساتذہ کے واسطے اور ذریعے سے علم کی یہ دولت کسی تک پہنچ رہی ہے اس پر لازم ہے کہ وہ ان اساتذہ کرام کا احترام کرے، ان کی نافرمانی و بے ادبی سے خود کو بچائے اور ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئے۔ نیز اس سلسلے میں سلف صالحین کا اسوۂ حسنہ بھی طلبہ کرام کے سامنے ہوتا ہے اس لیے دینی مدارس میں اساتذہ کرام کا ادب و احترام دیگر معاصر تعلیمی اداروں کی بہ نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔ 

       تا ہم فکر مندی کی بات یہ ہے کہ استاذ اور شاگرد کا یہ رشتہ اب دینی مدارس میں بھی رفتہ رفتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے، اساتذہ کرام کی رضا جوئی و خوشنودی کے لیے ان کی ڈانٹ ڈپٹ کو سعادت مندی کے ساتھ برداشت کرنے اور ان کی ہر نصیحت پر "سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا“ کہنے کے جو مناظر پہلے دیکھنے کو ملتے تھے ، اب وہ باقی نہیں رہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ شاگرد جتنی سختیی اور سزا کا مستوجب و سزاوار ہے، اگر استاذ غلطی سے اس سے زیادہ سختی کر لیتا یا سزا دے دیتا تھا ، تب بھی شاگرد سعادت مندی کے ساتھ اسے گوارا کر لیتا تھا ، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ جتنی سختی اور سزا واقعۃً بنتی ہے اس سے کم سزا ملنے پر بھی شاگرد جو ردعمل دیتا ہے، اسے کم از کم سعادت مندی کا مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔         انصاف کی بات یہ ہے کہ اس افسوس ناک صورت حال کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ کمی وزیادتی کے تفاوت کے ساتھ استاذ اور شاگرد دونوں پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر آج شاگردوں کی طرف سے انقیاد و اطاعت کے وہ مناظر دکھائی نہیں دے رہے جو ہماری شاندار روایات کا قابل فخر حصہ تھے، تو اساتذہ کی جانب سے بھی عطوفت و رافت کے وہ مظاہر سامنے نہیں آ رہے،جو شاگردوں کے دلوں میں متابعت و پیروی کے جذبات کی تخم ریزی کیا کرتے تھے۔

          ایک زمانہ تھا جب اساتذہ محض نصابی کتب پڑھانے ہی کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اپنے شاگردوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کرنے، انہیں معاشرے کا کار آمد اور سماج کے لیے مفید فرد بنانے اور زندگی میں پیش آنے والی مشکلات و معاملات میں اس کی درست رہنمائی کرنے کو بھی اپنا فریضہ سمجھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ طالب علم زمانۂ طالب علمی میں تو اساتذہ کی رضا جوئی میں کوشاں رہتا ہی تھا، رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد عملی زندگی میں بھی وہ قدم قدم پر اپنے اساتذہ سے رہنمائی لینے اور ان سے مربوط رہنے کو اپنی حاجت اور سعادت سمجھتا تھا۔ مگر اب صورت حال یہ ہے کہ وہ اساتذہ جو سنگریزوں کو تراش کر ہیرا اور مسِ خام کو کندن بنایا کرتے تھے، انہوں نے طلبہ میں علمی ذوق اور ملکہ پیدا کرنے کی بجائے نصاب پڑھانے اور انہیں زیورِ علم و اخلاق سے آراستہ کرنے کی بجائے الفاظ سکھانے پر اکتفا کر لیا ہے اور وہ شاگرد جو اپنی علمی زندگی کا ہر قدم اساتذہ کی مشاورت و استمزاج سے اٹھایا کرتے تھے، انہوں نے اساتذہ سے اپنے تعلق کو فقط درس گاہ تک محدود کر لیا ہے۔

 ع نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں 

     ضرورت اس امر کی ہے کہ فریقین میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز اور صلے کی پروا سے بے پروا ہو کر اپنے حصے کی شمع جلاتا رہے ورنہ حالات جس ڈگر پر چل رہے ہیں اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو خاکم بدہن وہ وقت دور نہیں جب دینی مدارس میں بھی استاذ کا احترام قصہ پارینہ بن جائے گا ، استاذ اور شاگرد کے معاملات اجر و مزد کے اصول پر طے پایا کریں گے اور استاذ کو محض ایک ملازم کی حیثیت حاصل ہوگی جس کا کام تنخواہ لے کر نصاب پورا کرانا ہوگا اور بس ......!

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

  1. ماشاءاللہ یقیناً لائق تحسین و داد ہے ، اللہ تعالیٰ جناب زبیر بھائی کو لائق ، فائق اور محنتی عالم دین بنائے ، اور اس دور پر فتن میں اللہ تعالیٰ ان کو کسی اچھی جگہ پر قائم و دائم فرمائے اور مہتمم جیسے لوگوں سے جو اپنے آپ کو پیغمبر سمجھتے ہیں
    ان فتنے سے بچائے ، آمین ثم آمین ، اور
    ایک دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایک مضمون مہتمم لوگوں پر لکھیں
    کہ ان کا اساتذہ کرام کے ساتھ کیا کر
    دار
    رہنا چاہیۓ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آمین یارب العالمین
      جزاک اللہ

      ان شاءاللہ جلد لکھا جائےگا

      حذف کریں

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!