Header Ads Widget

توبہ کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

 توبہ کرنے کا صحیح طریقہ


توبہ کرنے کا صحیح طریقہ




غلطیوں اور خطاؤں کا صدور انسانی سرشت کا حصہ ہے، انسان نسیان سے مشتق ہے اور نسیان کے معنی ہی لغزش و بھول چوک کے آتے ہیں، غلطیوں اور خطاؤں سے سوائے جماعتِ انبیا (علیہم السلام) کے ہر فردِ بشر کا دامن داغ دار ہے، خطاؤں اور غلطیوں کا ارتکاب؛ خواہ سہوا ہو یا قصدا قطعا معیوب نہیں؛ بلکہ غلطیوں پر پیہم اصرار کرنا انسانی وقار کو عیب دار بناتا ہے۔ ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام انجانے میں لغزش کے شکار ہوئے اور جنت سے نکالے گئے، مگر وہ انسانی شرافت و کرامت کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے اس سہو پر اس درجہ نادم و پشیماں ہوئے اور ایسی سچی پکی توبہ کی جس کی نظیر انسانی تاریخ نہیں پیش کر سکتی۔
معلوم ہوا کہ غلطی کے ارتکاب پر فورا سنبھل جانا چاہیے اور توبہ تائب کے ذریعے اس کی معافی تلافی کا سامان کرنا چاہیے، یہی انسانی شرافت و وقار کا تقاضا ہے، جیسا کہ رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تمام اولادِ آدم خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار توبہ کرنے والے ہیں۔
اللہ تعالی نے حضرت انسان کے نازک و ناتواں دوش پر اس کی وسعت و طاقت سے زیادہ بار نہیں ڈالا ہے؛ بلکہ انھیں انھی امور کا مکلف بنایا ہے جس کی طاقت ان میں موجود ہے؛ چناں چہ جن محرمات و منہیات اور معصیات و ذنوب سے انسان کو کنارہ کشی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے اجتناب و کنارہ کشی واقعۃ انسان کے بس اور اختیار میں ہے، اب اگر اس کے باوجود کوئی ان امور کا ارتکاب کرے تو ہونا یہ چاہیے کہ اسے اس عمل کی سزا دی جائے اور اس کی کسی قسم کی معذرت و معافی کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا جائے۔ مگر اس رحمان و رحیم کی ذات کے الطاف و عنایات کی بھلا کوئی انتہا ہے؟ اس نے انسانوں کا مؤاخذہ کرنے اور سزا دینے کے بجائے ان کے لیے عفو و درگزر اور رحمت و مغفرت کے دروازے کھول دیے کہ آئے اور اپنی خطاؤں پر اشکِ ندامت کے چند قطرے بہاکر مغفرت و درگزر کا پروانہ حاصل کرے۔



سچی توبہ کے شرائط

توبہ جب تک صدق دل اور اخلاص کے ساتھ نہ کی جائے تب تک اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے سچی پکی توبہ کے متعدد شرائط بیان فرمائے ہیں جن کی کامل رعایت سے ہی سچی پکی توبہ کا تحقق ہوتا ہے اور انسان کے گناہ اس سے معاف ہوتے ہیں، ان شرائط کو ذیل میں اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے:

اخلاص کے ساتھ توبہ کرنا

سچی پکی توبہ کی شرط یہ ہے کہ آدمی اخلاص و للہیت اور اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کو پیشِ نظر رکھ کر توبہ کرے، توبہ کرنے میں کوئی دنیوی یا مادی غرض مطلوب نہ ہو، یعنی ایسا نہ ہو کہ کسی گناہ کے ترک کرنے کا عزم و ارادہ محض اس لیے کرے کہ وہ گناہ اس کے لیے جسمانی یا دنیاوی ضرر کا باعث بن رہا ہے۔ 
بلکہ توبہ خالص اللہ کے لیے کی جانے چاہیے اور ذہن میں یہ خیال رہے کہ اس گناہ کے ترک کرنے کا مقصد اللہ تعالی کی نافرمانی سے باز آنا اور اس کا تقرب حاصل کرنا ہے۔

گناہ سے کامل احتراز 

سچی پکی توبہ کا مطلوب اور غرض یہی ہوتا ہے کہ انسان دوبارہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے؛ لہذا اگر توبہ کرنے کے بعد بھی اس گناہ سے بچنے کے تئیں انسان جانفشانی نہیں کرتا اور حتی المقدور اس سے اجتناب کی کوشش نہیں کرتا تو ایسی توبہ سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں ہے۔
لہذا اگر کوئی سچی پکی توبہ کرے تو اس بات کا التزام کرے کہ وہ اس گناہ اور اس کے دواعی و مقدمات سے بھی ہر ممکن بچنے کی کوشش کرے، مثلا کسی انسان سے زنا کا صدور ہوا اور اس نے اس پر نادم ہوکر توبہ کر لی، تو اس توبہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آئندہ اس گناہ سے بچے؛ بلکہ اس کے مقدمات یعنی ہر اس چیز سے بچے جو زنا تک پہنچانے والی ہو، مثلا بدنظری، فحش بینی وغیرہ جیسے ناجائز امور سے بھی بچنے کا التزام کرے۔

اپنے گناہ پر نادم ہونا

توبہ کا بنیادی عنصر ہی ندامت اور اپنے گناہ پر شرمندہ ہونا ہے؛ لہذا توبہ کرنے والے کو اپنے گناہ کا پچھتاوا ہونا چاہیے اور ایسا محسوس کرنا چاہیے گویا اس کے کاندھوں پر پہاڑ جیسا بوجھ لد گیا ہو، ایک سچے مومن اور فاسق میں یہی فرق ہوتا ہے کہ سچا مومن اپنے گناہ کو پہاڑ کی طرح گراں سمجھتا ہے اور فاسق اسے ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کی مانند سمجھتا ہے یعنی اسے اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی ہے۔

بندوں کے حقوق کی ادائیگی

اگر گناہ کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر زیادتی سے متعلق ہو تو توبہ کے ساتھ ساتھ اس کے حقوق کی ادائیگی اور اس سے معافی بھی لازم ہے۔
مثلا کسی نے کسی کو گالی دی یا مارا پیٹا، پھر بعد میں اسے اپنے فعل پر شرمندگی ہوئی اور اس نے توبہ کا ارادہ کیا تو لازم ہے کہ اس بندے سے بھی معافی مانگ لے جس کو گالی دی یا مارا پیٹا ہے، تبھی اس کی توبہ قابلِ قبول ہوگی۔

توبہ کے لیے قبولیت کی گھڑی کا انتخاب

یوں تو توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے؛ لیکن کچھ مخصوص اوقات میں اس کی قبولیت کا امکان زیادہ بڑھ جاتا ہے؛ لہذا توبہ کے لیے ان ہی مخصوص قبولیت کے اوقات کا لحاظ کرنا چاہیے، ایسے اوقات میں دعا مانگنے اور رونے گڑگڑانے کی بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، قبولیت کی گھڑیاں جمعہ کے دن مغرب سے پہلے کا وقت، تہجد کا وقت اور فرض نمازوں کے بعد کا وقت ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ جب گناہ کا صدور ہو فورا توبہ کرے اور ان اوقات میں بھی خصوصی توبہ کرے۔

مرنے سے پہلے پہلے توبہ کر لیجیے

جب انسان موت کے بستر پر لیٹ جاتا ہے اور زندگی کی آخری سانسیں گننے لگتا ہے اور موت کے فرشتے نظر نواز ہونے لگتے ہیں ایسے وقت اگر توبہ کرے تو اس کا اعتبار نہیں ہوتا ہے؛ لہذا زندگی کے لمحات کو غنیمت سمجھے اور جلد از جلد توبہ کرے؛ کیوں کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے کہ کب کوئی ناگہانی آفت یا بیماری لاحق ہو جائے اور زندگی سے ہاتھ دھونا پڑ جائے، اسی طرح سورج کے مغرب کی سمت سے نکلنے سے پہلے توبہ کر لینا چاہیے؛ کیوں کہ جب سورج مغرب سے نکل جاتا ہے اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔


توبہ و استغفار کی قرآن و حدیث میں بہت ترغیب دی گئی ہے، توبہ انسان کی عمر اور مال و دولت میں اضافہ کرتی ہے، دلوں کے میل کچیل کو ختم کرکے تقوی و طہارت کا نور پیدا کرتی ہے، توبہ سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوتا ہے، بندگی و اطاعت میں دل لگتا ہے، ایمان میں پختگی پیدا ہوتی ہے، گناہوں کی عادت ختم ہوتی ہے، نفسانی خواہشات و شہوات پر کنٹرول کا ملکہ حاصل ہوتا ہے، اس کے علاوہ انگنت فوائد توبہ کے بیان کیے جاتے ہیں؛ لہذا ہر انسان کو ہر دم اللہ کی بارگاہ میں انابت و استغفار کرتے رہنا چاہیے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے