Header Ads Widget

توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا؟

 توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا؟



توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا





اللہ کی شانِ توابی

اللہ تعالی کی ذات رحمان ہے رحیم ہے، نہ اس کی دریائے رحمت کا کوئی کنارہ ہے اور نہ ہی اس کی شان کریمی کی کوئی انتہا، اس کی رحمت ہر شئی کو وسیع ہے، اس کے در سے کوئی تہی دامن اور خالی ہاتھ نہیں جاتا ہے، نوازنا تو اس کی شان ہے، بخشنا تو اس کی پہچان ہے، بشر کی کیا تاب کہ اس کی شانِ توابی کا اندازہ لگائے، وہ تو اشکِ ندامت کے ایک معمولی قطرے کے عِوض سمندر کے جھاگ کے برابر گناہوں کو بخش دیتا ہے!
 بھلا خطاکاروں، گناہ گاروں، عاصیوں، نافرمانوں، مجرموں اور پاپیوں کے لیے اس سے بڑی خوش بختی کیا ہوگی کہ جس ذات کے وہ مجرم و عاصی اور نافرمان ہیں اس کی رحمت باہیں پھیلائے ان کی راہ تک رہی ہے کہ کب یہ بندۂ عاصی اپنی نافرمانی پر نادم و پشیماں ہو اور رحمت کی ہوائیں اس کے خطاؤں کی گرد کو اڑا لے جائے۔


یوں تو توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہی رہتا ہے؛ لیکن دو مواقع ایسے ہیں جب رحمتِ خداوندی انسانوں کی غفلت و بے حسی سے خفا ہو جاتی ہے اور اس کے لیے عفو و در گزر اور مغفرت و نجات کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔

توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا؟ اس کے دو مواقع ہیں جو درجِ ذیل ہیں۔

جب موت حلق تک آ پہنچےگی

جب انسان بسترِ مرگ پر لیٹا ہوا ہوگا اور موت اس کے حلق میں آن پڑےگی، تو پھر اب توبہ کا دروازہ اس شخص کے لیے بند کر دیا جائےگا، کہ عمر کے اس طویل ترین مرحلے میں اسے خیالِ توبہ نہ ہوا اور جب موت گلے تک آ پہنچی تو خطائیں اور نا فرمانیاں یاد رہی ہیں، اب اشک ندامت بہائے جا رہے ہیں، پوری عمر لغویات، لہویات، خواہش پرستی اور گناہوں کی نذر کر دی، پوری عمر غفور و رحیم کی ذات یاد نہ آئی؛ لیکن جب دوزخ و جنت نگاہوں میں آنے لگی، اپنے آخرت کے ٹھکانے سامنے آنے لگے، فرشتے دکھائی دینے لگے تو اب آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ رہا ہے!
اللہ تعالی کی رحمت بے شک وسیع ہے، لیکن اس کی دریائے رحمت سے وہی مستفید ہوتا ہے جسے وہ توفیق بخشتا ہے اور حرماں نصیب افراد تا دمِ آخر توبہ سے غافل رہتے ہیں اور موت کے وقت توبہ کرتے ہیں اور ان کی توبہ رد کر دی جاتی ہے۔


چناں چہ باری تعالی کا ارشاد ہے:
 اِنَّمَا التَّوْبَةُ  عَلَى  اللّٰهِ  لِلَّذِیْنَ  یَعْمَلُوْنَ  السُّوْءَ  بِجَهَالَةٍ  ثُمَّ  یَتُوْبُوْنَ  مِنْ  قَرِیْبٍ  فَاُولٰئِكَ  یَتُوْبُ  اللّٰهُ  عَلَیْهِمْ وَ  كَانَ  اللّٰهُ  عَلِیْمًا  حَكِیْمًا. (سورة النساء)

ترجمہ: بے شک اللہ تعالی پر توبہ کی قبولیت ان لوگوں کے لیے ہے جو نادانی میں گناہ کر بیٹھیں اور عن قریب توبہ کر لیں، یہی لوگ ہیں جن کی توبہ اللہ تعالی قبول فرماتے ہیں، اور اللہ خوب جاننے والا اور حکمت والا ہے۔


اور اس کے بعد والی آیت ملاحظہ فرمائیں :

وَ  لَیْسَتِ  التَّوْبَةُ  لِلَّذِیْنَ  یَعْمَلُوْنَ  السَّیِّاٰتِۚ-حَتّٰى  اِذَا  حَضَرَ  اَحَدَهُمُ  الْمَوْتُ  قَالَ  اِنِّیْ  تُبْتُ  الْآن  وَ  لَا  الَّذِیْنَ  یَمُوْتُوْنَ  وَ  هُمْ  كُفَّارٌ اُولٰىئِكَ  اَعْتَدْنَا  لَهُمْ  عَذَابًا  اَلِیْمًا. (سورة النساء)

ترجمہ: اور ان لوگوں کے لیے توبہ نہیں ہے جو گناہوں میں لگے رہتے ہیں یہاں کہ ان میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہے اب میں نے توبہ کی، اور نہ ان لوگوں کی جو کافر ہوکر مریں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

آیت کریمہ میں صراحت موجود ہے کہ زندگی بھر نافرمانیوں میں ملوث رہنے والے اگر موت کے وقت توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔


جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائےگا

اور دوسرا موقع جب توبہ کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے اس وقت آتا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائے، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا جہاں قیامت کی علامات کبری میں سے ہے وہیں توبہ کا دروازہ بند ہونے کی بھی نشانی ہے، جب سورج مغرب سے نکل جائے تو اب نہ کسی کی توبہ معتبر ہے اور نہ کسی کافر کا ایمان؛ کیوں کہ اب حق ہر ایک پر منکشف اور ظاہر ہو چکا ہوگا، اور ایمان وہی معتبر ہے جو غیب پر ہو۔
اب جو پہلے سے مومن تھا مومن ہوکر باقی رہےگا اور جو کافر تھا کافر ہوکر باقی رہےگا۔
چناں چہ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآهَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ فَذَلِکَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا (صحيح البخاري)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سورج مغرب سے نہ نکل جائے، پھر جب وہ (مغرب سے) طلوع ہو جائےگا اور لوگ اسے دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہوگا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان نفع نہیں دےگا جو اس پہلے ایمان نہ لایا ہو، اور اپنے ایمان کی حالت میں عملِ خیر نہ کیا ہوا۔

ان دونوں حالتوں میں توبہ قبول نہ ہونے کی حکمت یہی ہے کہ اس وقت انسان صریح طور پر حق کو پہچان لےگا اور سوائے حق کو تسلیم کرنے کے اس کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہ ہوگا، جب کہ حق تعالی بندوں سے ایمان بالغیب کا مطالبہ کرتے ہیں اور چوں کہ غرغرہ اور طلوع شمس کی علامتوں سے سب کچھ ظاہر ہو چکا ہوگا، تو اب توبہ و ایمان بھی نفع نہیں دیں گے۔

پس وقت ہے کہ ابھی توبہ و رجوع الی اللہ کے ذریعے اپنے صغائر و کبائر کی معافی کرا لیں؛ ورنہ جب توبہ کا دروازہ بند ہوگا تو سوائے کفِ افسوس ملنے کے کوئی چارۂ کار نہ ہوگا۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے