Header Ads Widget

خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ

 خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ


بقلم: محمد یاسر رگھولی

خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ



خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا نام سنتے ہی اسلام کے ایک عظیم کمانڈر اور آدھی دنیا پر اسلامی حکومت کا سکّہ بٹھانے والے ایک لاثانی خلیفہ کا تصور ذہن پر ابھرتا ہے جنہوں نے اپنی خلافت کی ساڑھے دس سالہ مختصر مدت میں وہ لازوال کارنامے سرانجام دیے جس کی نظیر پوری تاریخِ انسانی میں تلاشِ بسیار کے باوجود نہیں ملتی ۔ 
آپ ہی وہ عظیم خلیفہ ہیں جنہوں نے قیصر و کسری جیسی سپر پاور سلطنتوں کو پیوندِ خاک کر کے روم و فارس میں اسلام کی عظمت کا پرچم لہرایا ، آپ کی شجاعت و بہادری عزم و ہمت اور عدل و انصاف کے واقعات سے مؤرخین نے تاریخ کے ہزاروں بلکہ لاکھوں صفحات سیاہ کر ڈالے ، لیکن کوئی بھی اس کا حق ادا نہ کر سکا ۔ 
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ طبیعتًا سخت مزاج تھے ، آپ کی شدتِ مزاج حق و باطل کے درمیان ایک حدِ فاصل تھی ، آپ مظلوم کے لیے نرم اور ظالم کے لیے انتہائی سخت تھے آپ کی ذاتِ گرامی قرآن کریم کی آیت " رحماء بینہم و اشداءھم علی الکفار " کی عملی تفسیر تھی ، آپ کی نرمی میں ضعف اور سختی میں جبر کا شائبہ تک نہیں تھا ، 
   آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ نہ صرف پورے عالمِ اسلام بلکہ تمام عالم کے لیے ایک اندوہناک حادثہ تھا ۔ 

   آپ کی شہادت : 

ہوا کچھ ہوں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک مجوسی غلام جس کا نام فیروز تھا اور ابولولو اس کی کنیت تھی ، اس نے ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی عدالت میں اپنے آقا مغیرہ بن شعبہ کی شکایت کی کہ میرے آقا نے مجھ پر بہت زیادہ محصول لگا رکھا ہے ، آپ کچھ کم کرا دیجیے ، حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے تعداد پوچھی ، اس نے کہا دو درہم روزانہ وصول کرتے ہیں ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو؟ اس نے بتایا کہ میں لوہے اور لکڑی پر نقش نگاری کا کام کرتا ہوں یہ سن کر امیرالمومنین حضرت عمر نے فرمایا پھر تو دو درہم زیادہ نہیں ہیں تم اچھے بھلے کاریگر ہو ، جاؤ اپنا کام کرو ،  ابو لولو فیروز امیر المؤمنین کی طرف سے یہ جواب سن کر سخت رنجیدہ ہوا ، اس کے دل میں اپنے آقا کے ساتھ امیر المومنین کے لیے بھی عداوت پیدا ہو گئی اس نے دل میں انتقام کی ٹھان لی ، چنانچہ اس نے زہر آلود خنجر تیار کیا اور موقع کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگا ، اس نے اگلے دن کی نمازِ فجر میں موقع کو مناسب سمجھا چنانچہ 27 ذو الحجّہ 23ھ کو حسبِ معمول حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ امامت فرما رہے تھے کہ اس نے آگے بڑھ کر ان پر خنجر کے متواتر چھ وار کیے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ زخم کی تاب نہ لا کر نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑے باقی نماز حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے مکمل کرائی۔  
    نماز سے فراغت کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے قاتل کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کون تھا بتایا گیا کہ وہ ابو لولو فیروز تھا آپ رضی اللّٰہ عنہ نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کرنے والا کوئی مسلمان نہیں ہے ، گویا امیرالمومنین کی شہادت کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا۔ فاروق اعظم ؓ کو یقین ہوگیا کہ میری خواہش ضرور پوری ہوگی۔  ظالم ابو لولو فیروز نے آس پاس کے لوگوں کو بھی زخمی کر کے بھاگنے کی کوشش کی لیکن پکڑ لیا گیا اور جب اسے نجات کی کوئی راہ نہ ملی تو صورتحال کو دیکھتے ہوئے خود کشی کر لی ۔ 
   لوگوں کی اصرار سے چھ شخص کو آپ نے منصبِ خلافت کے لیے نام زد کیا کہ ان میں سے جس کی نسبت کثرتِ رائے ہو وہ  اس منصب کے لیے منتخب کر لیا جائے ان لوگوں کے نام یہ ہیں علی ، عثمان ، زبیر ، طلحہ ، سعد بن ابی وقاص ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہم ، اس مرحلے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے فرزند عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ کو بھیج کر حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالی عنہا سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت طلب کی ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا کہ "اس جگہ کو میں اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں عمر رضی اللّٰہ عنہ کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں"  جب یہ بات حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سنی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہی سب سے بڑی آرزو تھی ۔ 
   پھر اپنے صاحبزادے عبداللّٰہ کو وصیت کی کہ مجھ پر جس قدر قرض ہو اگر وہ میرے متروکہ مال سے ادا ہو سکے تو بہتر ہے ورنہ خاندانِ عدی سے  درخواست کرنا اور اگر ان سے نہ ہو سکے تو قریش سے ، لیکن قریش کے سوا اور کسی کو تکلیف نہ دینا غرض اسلام کا سب سے بڑا پیرو ہر قسم کی ضروری وصیتوں کے بعد تین دن بیمار رہ کر محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن 24 ہجری کو اپنے دونوں محترم رفقاء کی طرح بعمرِ 63 سال  واصلِ بحق ہوا اور اپنے محبوب آقا کے پہلو میں ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سو رہا ۔ 

تقاضہ ہے پھر دنیا میں شان حق ہویدا ہو
عرب کے ریگزاروں سے کوئی فاروق پیدا ہو
بڑا چرچا ہے پھر سے جہاں میں کفرو باطل کا
کوئی فاروق پھر اٹھے تو حق کا بول بالا ہو

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے