Header Ads Widget

اولاد پر والدین کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں

 

 اولاد پر والدین کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں

اولاد پر والدین کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں


تحریر: عبدالعلیم دیوگھری


انسانوں پر عائد ہونے والے حقوق کی دو قسمیں ہیں، اول حقوق اللہ ہے اور دوم حقوق العباد ہے، حقوق اللہ وہ حقوق ہیں جو اللہ کی ذات سے متعلق ہوتے ہیں، مثلا نماز پڑھنا روزہ رکھنا حج کرنا وغیرہ۔

اور حقوق العباد بندوں کے حقوق کو کہا جاتا ہے، جس میں والدین کی اطاعت و فرمانبرداری، اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت، پڑوسیوں کی خبرگیری، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ ہمدردی اور عام لوگوں کے ساتھ خوش خلقی وغیرہ شامل ہیں۔


حق تلفی اللہ تعالی کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے، حقوق خواہ جس قسم کے بھی ہوں بندوں پر اس کی پاسداری اور ادائیگی لازم ہے، اللہ تعالی کا سب سے بڑا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی وحدانیت و ربوبیت کو بہ صدق دل تسلیم کرے، اس کی ذات کے ساتھ کسی غیر کو شریک و سہیم قرار دینا سب سے بڑی حق تلفی ہے۔

اور حقوق العباد میں سب سے بڑی حق تلفی والدین کے ساتھ بدسلوکی، احسان فراموشی، بدتہذیبی اور نافرمانی کا معاملہ کرنا ہے؛ چناں چہ قرآن پاک میں جس مقام پر کفر و شرک کی قباحت و شناعت بیان کر ایک اللہ کی پرستش کا حکم دیا گیا ہے وہیں پر صاف لفظوں میں والدین کے ساتھ اطاعت گزاری اور فرمانبرداری کا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں: 

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا. (سورۃ بنی اسرائیل)

ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم دے رکھا ہے کہ بجز اس کے کسی کی پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک رکھو۔

جس فقرے میں والدین کی خدمت کا تذکرہ ہے اس کا عطف منعِ شرک والے فقرے پر ہے، جو خدمت والدین کی اہمیت کی طرف مشیر ہے۔


اولاد پر والدین کے بےشمار حقوق عائد ہیں؛ تاہم ذیل میں ان چند حقوق کو قدرے تفصیل سے سپردِ قرطاس کیا جا رہا ہے جن کی جانب کتاب و سنت نے انسانوں کی خاص توجہ مبذول کرائی ہے اور جن کی ادائیگی کے بغیر ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں ہے، 

آج معاشرے میں حقوق طلبی کی صدائیں زوروں پر ہیں، مگر ادائیگیِ حقوق کی پروا کسی کو نہیں ہے، اسی بنا پر قتل و غارت گری اور جنگ و جدال کی نوبت آتی ہے اور پھر پورا معاشرہ تباہ و برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔

آج جب کہ انسانی معاشرے اخلاقی ابتری کے شکار ہیں، ضروری ہے کہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر کی جائے اور اس کے لیے لازم ہے کہ حق والوں کو ان کا حق بہم پہنچایا جائے، پھر ان حق والوں میں والدین کا حق سب سے مقدم ہے؛ لہذا سب سے پہلے ماں باپ کے حقوق جاننا لازم ہے؛ تاکہ بہ حسن و خوبی اسے ادا کیا جائے۔


والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور عمدہ برتاؤ کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے؛ چناں چہ ارشاد ہے: 

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا. (بنی اسرائیل)


ترجمہ: اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔


اسی طرح کسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالی کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟

تو آپ نے ارشاد فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا۔

 سائل نے کہا: پھر کیا؟ یا رسول اللہ! 

آپ گویا ہوئے: والدین کے ساتھ نیکی کا معاملہ کرنا۔

سائل نے کہا: پھر کیا؟ یا رسول اللہ!

آپ نے جوابا فرمایا: راہِ خدا میں جہاد کرنا۔ (صحیح بخاری)


مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا کیا درجہ ہے کہ فضائل کے باب میں راہِ خدا میں جہاد کرنے پر اسے فوقیت و برتری حاصل ہے۔


ہر جائز کام میں والدین کی اطاعت

والدین خواہ مسلمان ہوں، کافر ہوں یا کسی اور مذہب کے پرستار ہوں، اولاد پر یہ واجب ہے کہ ان کے ہر امر کو نہایت خوشدلی سے بجا لائے؛ چناں چہ قرآن کریم میں حق تعالی نے صاف ارشاد فرما دیا: 

وَاِنۡ جَاهَدٰكَ عَلٰٓى اَنۡ تُشۡرِكَ بِىۡ مَا لَيۡسَ لَكَ بِهٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡهُمَا‌ وَصَاحِبۡهُمَا فِى الدُّنۡيَا مَعۡرُوۡفًا‌. (سورۃ لقمان)


ترجمہ:

اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں تو تو ان کا کہا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کئے جانا۔

آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کا حق والدین؛ بلکہ تمام تر حقوق پر مقدم ہے، کوئی شک نہیں کہ اطاعت والدین ایک اہم فریضہ ہے؛ لیکن اگر اس فریضے کی ادائیگی سے توحید پر زد پڑ رہی ہو تو یہ اطاعت عین معصیت میں تبدیل ہو جائےگی، اور ایسے امور میں عدمِ اطاعت ہی اصل اطاعت ہوگی؛ البتہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا فریضہ ابھی بھی ساقط نہیں ہوگا؛ چناں چہ فرمایا کہ دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی کے ساتھ رہو یعنی دنیوی ضروریات اور خانہ داری امور مثلا خورد و نوش، لباس و پوشاک، رہن سہن اور دیگر تمام خانگی اور معاشرتی امور میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا دامن تھامے رکھو اور ان کی ہر ضرورتیں اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر پوری کرو۔


والدین کے ساتھ نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آنا

قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: 

وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًا.  (بنی اسرائیل)


ترجمہ:

اور ان کے سامنے محبت سے انکسار کے ساتھ جھکے رہنا اور کہتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر رحمت فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا پرورش کیا ۔


اس آیت کریمہ میں تنومند اولاد کو ضعیف و ناتواں والدین کے ساتھ نہایت تذلل و فروتنی  اور خاکساری کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے کہ ان کے سامنے اپنے بازوؤں کو سدا پست رکھو اور انھیں اپنی طاقت و زور آزمائی کا نشانہ نہ بناؤ۔

 ساتھ ساتھ ایک خوبصورت اور جامع دعا کی بھی تلقین کی ہے جس میں اس جانب لطیف اشارہ بھی ہے کہ ایک وقت تھا جب تم محض گوشت پوشت کا مجموعہ تھے اور تمہاری معذوری و بےبسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے ارادے سے حرکت و جنبش پر بھی قدرت نہ پاتے تھے اس وقت والدین نے تمہارے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کیا اور کسی بھی قسم کی بےچارگی و عاجزی کا احساس نہ ہونے دیا، پھر گزرتے وقت کے ساتھ تمھیں چلنا، پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، پڑھنا لکھنا؛ غرض انسانی معاشرے میں جینے کے جتنے لوازمات ہیں ان تمام سے آشنا کیا ، آج جب ان پر ضعف و نقاہت کا عالم طاری ہے اور بےکسی و درماندگی کے عالم میں پہنچ چکے ہیں تو تمہارا بھی یہ دینی؛ بلکہ اخلاقی و فطری فریضہ بنتا ہے کہ ان کی اسی طرح خبرگیری اور خدمت کرو جس طرح انھوں نے تمہارے ایامِ طفولیت میں کیا تھا۔



والدین کی باتیں توجہ سے سننا اور ان پر عمل کرنا

والدین جب اولاد سے ہم کلام ہوں تو اولاد کو چاہیے کہ نہایت انہماک اور کامل التفات کے ساتھ ان کی بات سنے، ان کی بات کاٹنے سے گریز کرے، نیز ان کی بات کا نہایت نرمی اور خوبصورت انداز میں جواب دے، ان کی باتوں کو نظر انداز کرنا،بےتوجہی سے سننا یا ان کی تردید کرنا ان کی شان میں صریح بےادبی ہے، اولاد کو ہر حال میں خود کو والدین سے کمتر خیال کرنا چاہیے، وہ نصحیت کریں تو بصد شوق قبول کرے، وہ ڈانٹ پلائیں تو افسردہ خاطر نہ ہو؛ بلکہ خوشدلی سے برداشت کر لے، انھیں اپنی ذات سے کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہ دے، 

والدین بڑی عظیم ہستیاں ہیں، ان کی خوشنودی رضائے الہی کا باعث ہے، ان کی ناراضگی اللہ کے غیض و غضب کا سبب ہے؛ لہذا مقدور بھر کوششیں ان کی رضاجوئی کی خاطر کی جانی چاہیئں۔


والدین پر خرچ کرنا

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے تمام تر اخراجات کی کفالت کی جائے، انھیں کبھی بھی اشیائے خورد و نوش کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا جائے، ہمیشہ یہ کوشش ہو کہ انھیں اعلی سے اعلی اور عمدہ سے عمدہ لباس و پوشاک دیے جائیں، اسی طرح ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پوری کی جائے۔


والدین کا اکرام و احترام کرنا

والدین کی عزت و تکریم اور ان کے ساتھ حسن سلوک تو بہر حال اولاد پر واجب ہے؛ لیکن اس کی اہمیت اور تاکید اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب والدین کہولت و بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ دیں؛ چناں چہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب وہ کہن سالی کی زد میں آ جائیں تو انھیں اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انھیں جھڑکنا اور ان سے ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔

والدین جب کبر سنی کے مرحلے میں پہنچ جاتے ہیں تو انھیں اپنے اولاد کی طرف سے وفا شعاری، حسن سلوک، محبت و احترام اور خدمت گزاری کی توقع ہوتی ہے؛ لہذا اولاد کو بھی چاہیے کہ ایسے وقت میں ان کے ساتھ مزید محبت و الفت کا معاملہ کرے۔



والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن کرنا

والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کا معاملہ محض ان کی حیات تک ہی محدود نہیں ہے؛ بلکہ ان کے اس عالمِ فانی سے کوچ کر جانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جانا چاہیے، ظاہر سی بات ہے جب والدین کے احسانات و عنایات کی کوئی حد بندی اور انتہا نہیں تو کیوں کر ان کے ساتھ نیک برتاؤ کو فقط ان کی حیات تک محدود رکھا جائے؛ چناں چہ شریعت مطہرہ نے ایسے بہت سے طریقے بیان کیے ہیں جن کے ذریعے والدین کے ساتھ نیکی کا معاملہ کیا جا سکتا ہے، ذیل میں ان میں سے چند کو اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جاتا ہے:


والدین کے لیے مسلسل دعائے مغفرت کا التزام

حدیث میں پاک میں ہے کہ انسان کی وفات ہوتے ہی اس کا دفترِ عمل بند ہو جاتا ہے اب اس میں نہ کوئی نیکی لکھی جائے گی اور نہ کوئی بدی؛ البتہ چند ایک اعمال ایسے ہیں جن میں دوام اور پائیداری ہوتی ہے کہ انسان مر بھی جائے تو بھی ان کے صحیفۂ عمل میں اس کا اجر لکھا جاتا رہتا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی صالح اور نیک اولاد اپنے والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہے کہ اس کا ثواب والدین کے نامۂ اعمال میں درج کیا جاتا رہےگا، یہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ایک بہترین طریقہ ہے؛ لہذا اولاد کو اپنی صالحیت اور نیک سیرتی اور وفا شعاری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے مرحوم والدین کے نام مسلسل دعا کرتے رہنا چاہیے۔


اس کے علاوہ ان کی طرف سے نذر کے روزے، نذر کے حج اور نذر کی دیگر عبادتیں ادا کرنا جن میں نیابت یعنی دوسرے کی طرف سے ادا کرنا جائز ہے، نیز ان کی فوت شدہ نمازیں اور دیگر فرض عبادتوں کا فدیہ ادا کرنا بھی ان کے ساتھ عظیم حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا ہے۔

اسی طرح ان پر اگر کسی کا قرض ہو تو اسے بھی ادا کرنا چاہیے، ان کے دوستوں اور تعلق داروں کا عزت و احترام بجا لانا چاہیے، بالخصوص ان کی طرف سے مسلسل اور مقدور بھر صدقات و خیرات کرتے رہنا چاہیے، احادیث سے ثابت ہے کہ ان اعمال کا ثواب ان کو پہنچتا ہے جن کے لیے انجام دیے جائیں، اس کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اذکار اور دیگر نیک اعمال کے ذریعے ان کو ایصالِ ثواب کرتے رہنا چاہیے کہ ان اعمال کا ثواب کرنے والے اور جس کے لیے کیا جا رہا ہے دونوں کو ملتا ہے۔


یہ ساری چیزیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں، کچھ لوگ ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں جو کہ درست نہیں، حدیثیں صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے