Header Ads Widget

اگر رمضان میں شیطان قید ہے پھر انسان گناہ کیوں کرتا ہے؟

 رمضان میں شیطان قید ہے پھر انسان گناہ کیوں کرتا ہے؟




ماہِ رمضان المبارک کی جب آمد ہوتی ہے تو خطبا و واعظین کی زبانوں پر ایک مشہور حدیث شریف گردش کرنے لگتی ہے:
إذا كان أولُ ليلةٍ من شهرِ رمضانَ صُفِّدَتِ الشياطينُ ومَرَدةُ الجنِّ ، وغُلِّقتْ أبوابُ النارِ فلم يُفتحْ منها بابٌ ، وفُتِّحَتْ أبوابُ الجنةِ فلم يُغلقْ منها بابٌ ، ويُنادي منادٍ كلَّ ليلةٍ : يا باغيَ الخيرِ أقبلْ ، ويا باغيَ الشرِّ أقْصرْ ، وللهِ عتقاءُ من النارِ ، وذلك كلَّ ليلةٍ. (جامع الترمذي)
ترجمہ: جب رمضان کی پہلی شب آتی ہے شیاطین اور سرکش جنات قید کر دیے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور ایک منادی ندا دیتا ہے: اے خیر کے متلاشیو! آگے بڑھو، اور اے شر کے طلبگارو پیچھے ہٹو، اور اللہ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتے ہیں اور یہ ہر رات ہوتا ہے۔
یہ حدیث ہم نے بھی کئی دفعہ سنا اور کتابوں میں پڑھا بھی ہے؛ لیکن اس کے صحیح اور درست مفہوم تک شاید ہم ابھی تک رسائی حاصل نہ سکیں ہیں، حدیثِ پاک کا ظاہری مفہوم تو یہی ہے کہ رمضان کی آمد پر شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں؛ لیکن شیاطین کے قید کیے جانے سے کیا مراد ہے، کیا واقعۃ شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور انسانوں کو اس کے وسائس سے مامون و محفوظ کر دیا جاتا ہے؟
اگر یہ مفہوم مراد ہو تو یہ سوال باقی رہتا ہے کہ پھر انسانوں کو معصیت و نافرمانی اور برے کاموں پر کون سی چیز آمادہ کرتی ہے؟ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے انسان رمضان کے مبارک مہینے میں بھی معاصی و ذنوب میں ملوث ہوتے ہیں۔
اور اگر حدیث شریف کا یہ مفہوم نہیں ہے اور شیطان کے قید کیے جانے سے حقیقۃ قید کرنے کا معنی نہیں تو پھر حدیث شریف کا صحیح اور درست مفہوم کیا ہے اور علما نے اس کی کیا توجیہ بیان کی ہے؟
زیرِ نظر تحریر اسی موضوع کو محیط ہے، آئیے علما و محدثین کے اقوال و تشریحات کی روشنی میں حدیث شریف کا صحیح مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسان گناہ کیوں کرتا ہے؟

سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ انسانوں سے گناہ کیوں کر سرزد ہوتے ہیں، کون سی چیز گناہوں پر اکساتی ہے؟
انسانوں کو گناہ و معصیت کی دعوت دینے والی دو چیزیں ہیں، اول تو شیطانی وسائس ہیں، شیطان ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ وہ انسانوں کو معصیات میں مبتلا کرے، اس کے لیے وہ مختلف حربے اور طریقے استعمال کرتا ہے، وہ انسانوں کے دل میں مختلف وسائس و خیالات پیدا کرتا ہے، جن کو انسان قبول کرتا ہے اور گناہ میں ملوث ہو جاتا ہے۔
اور دوسری چیز خود انسان کا نفس ہے، جسے قرآن کریم میں نفسِ امارہ سے تعبیر کیا گیا ہے، یہ انسانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے؛ کیوں کہ یہ خود انسان کی ذات میں داخل ہے کسی پل انسان کو اس سے مفر نہیں ہے، یہ انسانوں کو گناہوں اور دنیوی لذتوں کی جانب راغب کرتا ہے، اس کو قابو میں کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت و ریاضت کی ضرورت پڑتی ہے۔

مذکورہ تفصیل سے اتنی بات معلوم ہو گئی ہے انسان کو گناہ پر اکسانے والا صرف شیطان ہی نہیں ہے؛ بلکہ خود انسان کا نفس بھی ہے جو اس کے پہلو میں موجود ہے۔

پہلی توجیہ

چناں بہت سے علما کہتے ہیں  کہ رمضان میں شیطان کو حقیقۃ قید کر دیا جاتا ہے جس کی کیفیت و حقیقت اللہ تعالی ہی کو معلوم ہے، اور انسان رمضان المبارک کے مہینے میں جو گناہ کا ارتکاب کرتا ہے وہ نفسانی خواہشات کی بنا پر کرتا ہے، یعنی اس کا نفس ہی اسے گناہوں کی رغبت دلاتا ہے اور انسان اس پر قابو نہ پانے کی صورت میں اس کا غلام بن جاتا ہے اور اس کے اشاروں پر چلنے لگتا ہے۔


دوسری توجیہ

علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ علامہ حلیمی سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شیطان کے قید کیے جانے سے یہ مراد ہو سکتا ہے کہ شیطانی وسائس مسلمانوں پر اثر انداز نہیں پاتے ہیں؛ کیوں کہ مسلمان روزہ، تلاوت اور دیگر مشقت طلب عبادتوں میں مشغول رہتے ہیں جس کی وجہ سے شیطان کے ورغلانے اور بہکانے کی قوت متاثر ہوتی ہے اور مسلمانوں پر اس کا کچھ اثر ظاہر نہیں ہوتا، اور جو لوگ عبادات کا اہتمام نہیں کرتے ان پر شیطانی وسائس اثر انداز ہو جاتے ہیں اور وہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

تیسری توجیہ

بعض علما یہ فرماتے ہیں کہ تمام شیطانوں کو قید نہیں کیا جاتا ہے؛ بلکہ سرکش شیطانوں کو قید کیا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف کے لفظ ”مردة“ سے معلوم ہوتا ہے، یعنی عام شیطان محبوس نہیں ہوتے ہے وہ بہ دستور انسانوں کو ورغلانے اور بہکانے کا کام جاری رکھتے ہیں اور انھیں کے وسائس کے دام میں پھنس کر بہت سے لوگ رمضان میں گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔

چوتھی توجیہ

بعض علما کہتے ہیں کہ شیطان گیارہ مہینے انسانوں پر اپنا اثر ڈالتا رہتا ہے اور یہ اثر انسانوں کے اندر اس قدر راسخ اور مضبوط ہو جاتا ہے کہ شیطان ایک ماہ قید بھی رہے تو اس کے ڈالے ہوئے اثر کے نتیجے میں انسان گناہوں میں مبتلا رہتا ہے۔


پانچویں توجیہ

شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ سے جب اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ حدیث ان امورِ غیبیہ میں سے ہے جن کے متعلق ہماری شان یہ ہونی چاہیے ہے کہ ہم اسے تسلیم کریں اور مان لیں اور اس کے متعلق کوئی کلام نہ کریں؛ کیوں کہ یہی مسلمانوں کے ایمان و اعتقاد کے حق میں بہتر ہے؛ چناں چہ جب حضرت عبداللہ ابن احمد بن حنبل نے اپنے والد امام احمد سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے دو ٹوک لفظوں میں یہ جواب دیا:
هکذا الحديث لا تكلم في هذا.
یعنی حدیث میں یہی ہے، اس کے متعلق کسی کلام کی گنجائش نہیں، ہمیں تسلیم و تصدیق کرنا چاہیے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے