Header Ads Widget

اسلام میں عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں دیا گیا ہے؟

عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں دیا گیا ہے؟


اسلام میں عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں دیا گیا ہے



عصرِ حاضر میں تہذیبِ جدید کے پرستاروں اور نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں نے دینِ اسلام کی شبیہ مسخ کرنے کی ہر امکانی کوششیں کی ہیں اور تا ہنوز کر رہے ہیں، وہ آئے دن اسلام پر نت نئے بے بنیاد اعتراضات کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے تئیں نفرت آمیز خیالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور المیہ یہ ہے کہ نئی نسلیں بہ آسانی ان کے جال میں گرفتار ہوکر ان کے گمراہ کن نظریات اور تشکیکی اثرات کو قبول کر رہی ہیں اور دینِ اسلام سے بیزار ہو رہی ہیں، ایسے میں بہ حیثیت مسلم ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کو اسلام کی صحیح اور درست تعلیمات سے روشناش کرائیں اور دشمنوں کی طرف سے ان کے اذہان و قلوب میں اسلام کی جو تصویر ایک انسانیت سوز مذہب کی حیثیت سے پیش کی گئی ہے اس کو مٹا کر اس کی جگہ اسلام کا صحیح تصور پیش کریں۔ اسی کے پیش نظر ہم نے زیرِ نظر تحریر میں نام نہاد حقوقِ نسواں کے علمبرداروں کی جانب سے اسلام پر کئے جانے والے ایک مشہور اعتراض کا عقلی طور پر تجزیہ کیا ہے، وہ اعتراض یہ ہے کہ اسلام میں طلاق کا حق صرف مرد کو کیوں دیا گیا ہے اور عورت کو اس حق کیوں محروم رکھا گیا ہے؟ گویا وہ اس اعتراض کے ذریعے یہ باور کرانا چاہتے ہیں اسلام نے عورتوں کے حقوق کو سلب کر لیا ہے اور اسلام کا یہ رویہ ان کے تئیں نہایت ظالمانہ ہے۔

آئیے ذرا ٹھنڈے دماغ کے ساتھ عقلی طور پر اس اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعۃ اسلام کا یہ قانون راہِ انصاف سے ہٹا ہوا ہے یا ان کا یہ اعتراض محض اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔

اسلام میں طلاق کا فلسفہ کیا ہے؟

مذہبِ اسلام نے نکاح کے مقدس رشتے کو دوام اور ہمیشگی بخشی ہے، یہی وجہ ہے کسی خاص مدت یا وقت کی تعیین کرکے نکاح کرنے کو اسلام میں ناجائز گردانا گیا ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے طلاق کو بھی مشروع گردانا ہے؛ کیوں کہ بسااوقات میاں بیوی کے مزاج میں ہم آہنگی نہیں ہوتی ہے جس کے سبب ان کے مابین رنجش و کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے اور اس رشتے کا تقدس پامال ہونے لگتا ہے اور نکاح کا اصل مقصد ہی فوت ہوکر رہ جاتا ہے، ایسی صورت میں تادیب و اصلاح اور صلح و صفائی کے لیے قرآن کریم میں چند صورتیں ترتیب کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں کہ ان صورتوں کو اپناکر دیکھا جائے کہ زوجین کے درمیان نفرت کی جو دیوار حائل ہے وہ ختم ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر یہ صورتیں کارگر ثابت نہ ہوں تو لامحالہ آخری صورت اپنائی جائے یعنی طلاق دیکر بھلائی کے ساتھ دونوں ایک دوسرے سے علاحدہ ہو جائیں۔
یعنی بالکل اخیر مرحلے میں اسلام نے طلاق کی اجازت دی ہے اور یہ صراحت بھی کردی ہے کہ طلاق تمام جائز امور میں سب سے زیادہ مبغوض عمل ہے؛ تاکہ کوئی بھی شخص طلاق دینے سے پہلے سو بار سوچے اور جب تک طلاق دینا ضروری معلوم نہ ہو طلاق نہ دے۔


عورت کو طلاق کا اختیار کیوں نہیں؟

اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف، کہ ٹھیک ہے میاں بیوی کی زندگی میں کبھی شدید اختلاف ہو جاتا ہے اور نبھاؤ کی شکل باقی نہیں رہتی ہے؛ لیکن ضروری نہیں کہ یہ رنجش و اختلاف ہمیشہ عورت کے رویے کی وجہ سے ہی پیدا ہو؛ بلکہ مرد کی بداخلاقی اور بدکرداری سے بھی بہت بار ازدواجی زندگی متأثر ہوتی ہے تو ایسے میں اسلام نے عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں دیا اور صرف مرد کو ہی طلاق کی اجازت کیوں دی ہے؟

طلاق کا اختیار کسے دیا جائے اور کسے نہ دیا جائے عقلی طور پر اس کی کل پانچ صورتیں نکل کر آتی ہیں، اولا ہم پانچوں صورتوں کو بیان کرتے ہیں اور پھر دیکھیں گے ان میں سے کون سی صورت فساد و بگاڑ سے محفوظ اور انسانی عقل کے عین مطابق ہے۔


۱. پہلی صورت یہ ہے کہ طلاق کا حق صرف عورتوں کو دے دیا جائے۔
۲. دوسری صورت یہ ہے دونوں کو طلاق کا برابر حق ہو اور طلاق کا عمل ان دونوں کی باہمی مشاورت کے ذریعہ ہو۔
۳. چوتھی صورت یہ ہے کہ صرف عدالت اور محکموں کو اس کا حق سونپ دیا جائے۔
۴. چوتھی صورت یہ ہے کہ طلاق کا حق صرف مردوں کو حاصل ہو۔
۵. پانچویں صورت یہ ہے کہ طلاق کا حق مردوں کو دیا جائے اور عورتوں کو خلع یعنی طلاق کے مطالبہ کا حق دیا جائے۔





ان میں سے پہلی صورت میں یہ خرابی ہے کہ اگر طلاق کا حق صرف عورت کو حاصل ہو تو انھیں شوہر کی جانب سے جب بھی کسی قسم کی ناگواری اور تلخی محسوس ہوگی وہ جذبات کی رو میں بہہ کر فورا طلاق دے بیٹھےگی، وہ یہ نہیں سوچے گی کہ اس کے نتائج و اثرات کیا ہوں گے اور کیا اتنی سی بات کے لیے طلاق دینی چاہیے تھی یا نہیں؟ کیوں کہ عورت فطری طور جذباتی ہوتی ہے اور نہایت تیزی سے متاثر ہو جاتی ہے اور انجام کی بالکل بھی پروا نہیں کرتی ہے۔
یقینا یہ صورت صریح عقل کے خلاف ہے، نیز اس میں شوہر کی ناقدری اور احسان فراموشی بھی ہے کہ وہ اس کے تمام تر اخراجات اور نان و نفقہ کا کفیل ہو اس کے لیے محنت و مشقت اور دوڑ دھوپ کرے اور عورت تھوڑی سی بات پر طلاق دیکر اس کو ٹرخا دے۔ کوئی بھی سلیم العقل انسان اس صورت کو درست نہیں گردانےگا۔



دوسری صورت یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں کو طلاق کا برابر حق دیا جائے، یہ صورت بھی خلافِ عقل ہے؛ کیوں کہ اگر دونوں کی زندگی تلخیوں کی شکار ہو گئی اور شوہر طلاق کے سلسلے میں بیوی سے مشورہ کرے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے وہ اس پر راضی ہو جائےگی؛ بلکہ ایسے مواقع میں عورتیں بات تک نہیں کرنا چاہتی ہیں چہ جائیکہ وہ طلاق کے سلسلے میں رضامندی ظاہر کرے۔
مستزاد یہ ہے جب مرد ہر حال میں اپنی عورت کی کفالت کرتا ہے تو طلاق کے سلسلے میں انھیں عورتوں کا محتاج کیوں بنایا جائے۔

اگر طلاق کا حق کورٹ اور محکموں کے سپرد کر دیا جائے تو اس میں بھی بہت سارے مفاسد ہیں، جن کا ظہور ان ممالک میں بہ کثرت ہوتا ہے جہاں یہ قانون نافذ ہے۔
اس صورت کو اپنانے میں جو خرابی ہے اسے کوئی بھی سلیم الفطرت اور غیرت مند انسان گوارہ نہیں کرےگا، بھلا کون چاہےگا کہ میاں بیوی کے درمیان ہوئی ناچاقی کے اسباب کو سرِ عام وکلا اور ججوں کے سامنے پیش کیا جائے، اگر ایک انسان اپنی بیوی کی عفت و پاکدامنی پر شک کرتے ہوئے کورٹ سے طلاق کا مطالبہ کرے تو کیا اس شخص کا سر ندامتوں سے نہیں جھکےگا اور کون چاہےگا ان کی ازدواجی اور اندرونی زندگی کے حالات کا اظہار برملا محکمہ جات میں کیے جائیں؟

نیز کورٹ اور محکمے مطالبۂ طلاق پر آسانی سے طلاق نہیں دیتے ہیں؛ بلکہ بسااوقات جب تک زوجین میں سے کسی کی طرف سے زنا کا صدور نہ ہو تب تک طلاق کی بات ہی نہیں کرتے، ایسے میں زوجین اگر باہم زندگی گزارنے پر راضی نہ ہوں اور علاحدگی چاہتے ہوں تو اس صورت میں وہ ایک دوسرے پر زنا کی جھوٹی تہمتیں لگانا شروع کر دیتے ہیں اور ثابت کرنے کے لیے جھوٹے گواہ بھی پیش کرتے ہیں۔ بھلا کون شرافت پسند انسان اس صورت کو درست مان سکتا ہے؟


چوتھی صورت یہ ہے طلاق کا حق صرف مردوں کو دیا جائے۔ کیوں کہ مرد کسی بھی چیز کو انجام دینے سے قبل اس کے نتائج و عواقب پر غور و فکر کرتا ہے؛ لہذا وہ طلاق دینے میں بھی کافی محتاط ہوگا؛ کیوں کہ اسے رشتۂ زوجیت کے تمام مفاسد پر پوری نظر رہتی ہے اور وہ عورتوں کے مقابلے میں ضبطِ نفس اور جذبات پر قابو رکھنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے، اسی وجہ سے جب تک اسے یہ نہ لگے کہ اس کی ازدواجی زندگی بجائے راحت و سکون کے سردردی کا سامان بن گئی ہے تب تک وہ طلاق پر اقدام نہیں کرےگا۔
یہ صورت اگر چہ عقلی طور پر صحیح ہے لیکن اس میں اب بھی کچھ کمی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر ازدواجی زندگی میں تلخی شوہر کی جانب سے پیدا ہو یا شوہر ظالم ہو اور بیوی اس کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو تو وہ بےچاری کچھ نہیں کر سکتی؛ کیوں کہ اسے کسی بھی چیز کا اختیار نہ ہوگا۔


پانچویں اور آخری صورت یہ ہے کہ مرد کو طلاق کا حق حاصل ہو اور عورت کو خلع یعنی طلاق کے مطالبہ کا حق ہو۔
یعنی اگر ازدواجی زندگی میں تلخی اور رنجش پیدا ہو جائے تو شوہر خوب و فکر کرے اور جب تک طلاق ہی آخری راستہ معلوم نہ ہو اس پر اقدام نہ کرے۔
نیز اگر شوہرسخت ظالم ہو یا اس کے اندر کوئی ایسی بیماری ہو جس سے نکاح کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں عورت کو شوہر سے طلاق کے مطالبہ کا حق ہے اور شوہر کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ بیوی کو ستانے یا پریشان کرنے کی غرض سے روکے نہ رکھے؛ بلکہ بھلائی کے ساتھ طلاق دیکر اس کا راستہ چھوڑ دے؛ تاکہ عورت گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور نہ ہو، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
اور جب تم عورتوّں کو طلاق دو اور وہ اپنی میعاد کو آ پہنچیں تو تم انھیں بھلائی کے ساتھ روک لو یا اچھائی کے ساتھ چھوڑ دو اور انھیں ضرر دینے کی غرض سے روکے نہ رکھو؛ تاکہ تم حد سے تجاوز کرو، اور جو ایسا کرےگا وہ خود کا ہی نقصان کرےگا۔ (سورۃ البقرۃ)

اسلام نے اسی طریقہ کو اختیار کیا ہے؛ کیوں کہ اس میں مرد و عورت دونوں کے حقوق کی کامل رعایت موجود ہے، نیز یہ طریقہ عقل کے عین مطابق ہے، اس میں کسی پر ظلم و جبر نہیں ہے؛ کیوں کہ مرد جیسا کہ کہا گیا کہ ضبطِ نفس اور جذبات پر قابو رکھنے والا ہے وہ سوچے سمجھے اور نتائج پر غور کیے بغیر اتنا بڑا اقدام نہیں کرےگا، اور اگر عورت انجام و عاقبت سے لاپروا ہوکر جذبات میں طلاق کا مطالبہ کرےگی بھی تو محض اس مطالبہ سے طلاق واقع نہیں ہوگی؛ بلکہ شوہر کو غور و فکر اور عورت کو سمجھانے کا موقع ملےگا؛ تاکہ ان کی رنجش کسی طرح سے ختم ہو جائے، اگر نہ ختم ہو تو طلاق دیکر علاحدہ ہو جائے۔


اگر مرد طلاق نہ دے تو عورت کیا کرے؟

لیکن اگر ایسا ہو کہ مرد عورت کے حقوق کی بالکل رعایت نہیں کرتا یا اس پر ظلم و زیادتی کرتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے درمیان رنجش بڑھ جائے اور عورت مرد سے چھٹکارا پانے کے لیے اس سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور مرد طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو ایسی صورت میں عورت کیا کرےگی؟ اس تعلق سے شریعت کا کیا حکم ہے؟
اگر عورت طلاق کا مطالبہ کرے اور مرد دینے پر راضی نہ ہو تو مرد پر شریعت نے لازم قرار دیا ہے کہ وہ عورت کے تمام واجبات و حقوق کی رعایت کرے، اگر حقوق کی رعایت نہیں کرتا ہے تو طلاق دے۔
اگر مرد دونوں صورتوں کو ٹھکرا دے یعنی نہ حقوق کی رعایت کرے اور نہ ہی طلاق دے، تو ایسی صورت میں عورت کو یہ حق ہے کہ وہ اپنا معاملہ محاکم شرعیہ یعنی عدالت میں لے جائے، اور وہاں اپنے شوہر کی شکایت کرے اور اس سے طلاق کا مطالبہ کرے، اگر شوہر طلاق دے دے تو ٹھیک ہے؛ ورنہ قاضی ان کے درمیان تفریق کردےگا یعنی نکاح کو ختم کر دےگا۔

شاید بعض لوگ کہیں کہ اسلام کو صرف فسخِ نکاح کا حکم مشروع کرنا چاہیے تھا اور طلاق کو ختم کر دینا چاہیے تھا؛ تاکہ مرد و عورت دونوں اپنے حق کا برابر استعمال کرتے۔
تو ایسے لوگوں کے لیے جواب یہ ہے کہ اسلام نے درحقیقت طلاق کو مشروع کرکے عورتوں پر احسان کیا ہے، وہ اس طرح کہ نکاح تو طلاق اور فسخ دونوں سے ختم ہو جاتا ہے؛ لیکن فسخ کرنے کی صورت میں عورت نہ اپنے مہر کا مطالبہ کر سکتی اور نہ اسے کوئی مالی تحفظ فراہم ہوتا ہے۔ جب کہ طلاق کی صورت میں عورت کو اپنے مہر کے مطالبہ کا حق رہتا ہے ساتھ ساتھ عدت کے درمیان نان و نفقہ کی بھی مستحق ہوتی ہے۔
اس پوری تفصیل سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ اسلام نے اگر مرد کو طلاق کا حق دیا ہے تو عورت کو بھی خلع کا حق دیا ہے، اور اگر مرد طلاق نہ دے تو عورت کو قاضی کے سامنے مقدمہ دائر کرنے کا بھی حق دیا گیا ہے، نیز طلاق کے بعد بھی اسلام نے عورتوں کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے مہر اور نان و نفقہ کی ادائیگی شوہر پر لازم قرار دی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں؛ بلکہ تمام انسانوں کے حقوق کی جس قدر رعایت کی ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے مذہب نے نہیں کی ہے، بس کچھ تعصب زدہ لوگ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے قصدا ایسی بونگیاں کرتے ہیں؛ ورنہ اگر وہ بھی تعصب سے پاک ہوکر اسلام کا مطالعہ کریں تو ان پر یہ بات واضح ہو جائےگی کہ اسلام ہی دینِ فطرت اور دینِ انسانیت ہے۔



ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. عورت کو فسخ نکاح کے لئے قاضی کے پاس جانا کیوں ضروری ہے وہخود نکآح فسخ کیوں نہیں کر سکتی

    جواب دیںحذف کریں

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!