میراث میں عورت کا حصہ مرد سے آدھا کیوں ہے؟
وراثت میں عورت کا حصہ مرد سے آدھا کیوں ہے؟
از: عبدالعلیم دیوگھری
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂِ حیات ہے، اس میں حیاتِ انسانی کے تمام تر شعبوں میں رہنمائی کرنے کی کامل صلاحیت موجود ہے، اس کی تعلیمات زندگی کے ہر مقام پر رہنمائی کرتی ہیں، یہ جامعیت و ہمہ گیری اسلام کا اختصاصی نشان ہے جو اسے دنیا کے دیگر مسخ شدہ اور خود ساختہ مذاہب سے ممتاز کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ اسلام خدا کا نازل کردہ دین ہے اور اس کے تمام اصول و قوانین اسی کے وضع کردہ ہیں۔
یہ دین اسلام کا ہی امتیاز ہے کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کے حقوق سے بحث کرتا ہے؛ بلکہ غیر مسلموں؛ حتی کہ حیوانات کے حقوق کا بھی پاس و لحاظ کرتا ہے، اسلام مرد و زن، حاکم و رعایا اور آزاد و غلام ہر ایک کو حقوق و مراعات اس کی حیثیت کے مطابق نوازتا ہے۔ مگر اس عظیم خصوصیت اور حقوقِ انسانی کی اس قدر رعایت کے باوجود ایک بڑی اکثریت اس پر حقوق سلبی کا الزام لگاتی ہے اور اپنی کوششیں دامنِ اسلام کو داغ دار کرنے میں صرف کرتی ہے اور اس کی تعلیمات پر بےبنیاد اعتراضات کرکے اس کے تئیں فضا میں تشکیکی شرارے اڑاتی ہے، جس کے نتیجے میں نئی نسلیں اور اسلام سے ناواقف افراد اسلام کو ایک انسانیت سوز اور ظالمانہ مذہب خیال کرتے ہیں، یہ کام وہ مذہب بیزار عناصر انجام دیتے ہیں جو خود کو انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار سمجھتے ہیں، جب کہ وہ فی الحقیقت انسانیت کے خوشنما نعروں کے پسِ پردہ اپنی اسلام دشمنی کی تحریک کو ہوا دے رہے ہوتے ہیں۔
انھوں نے اسلام پر چہار جانب سے اعتراضات کیے ہیں، جن میں حقوقِ نسواں کے نام پر کیے جانے والے اعتراضات ان کے یہاں خاص مقام رکھتے ہیں، انھیں میں سے ان کا ایک مشہور اعتراض اس بات کو لیکر ہے کہ ”اسلام میں عورت کے میراث کا حصہ مرد سے آدھا کیوں ہے؟“
آئیے اس اعتراض کا عقلی تجزیہ کرتے ہیں کہ آیا اسلام کا یہ ضابطہ حقوق سلبی پر مبنی ہے یا محض معترضین کی اسلام دشمنی ذہنیت کا شاخسانہ ہے؟
پہلی بات تو یہ جان لینی چاہیے کہ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے وراثت میں عورتوں کا حصہ مقرر کیا؛ ورنہ قبل از اسلام جاہلیت اور یونانی ادوار میں نہ صرف عورتوں کو حقِ وراثت سے محروم جاتا تھا؛ بلکہ ان کے ساتھ حیوانوں سے بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا چہ جائے کہ ان کو حقوق دیے جاتے اور ان میں مساوات و عدل کی رعایت کی جاتی، عورتوں کے متعلق ان کا عام نظریہ یہ تھا کہ وہ محض مردوں کی جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔
لیکن جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو اس نے عورتوں کو انسانی حقوق کا مجاز قرار دیا، انھیں شرافت و کرامت کا تاج پہنایا اور ان کی جبینِ شان کو بلند کیا؛ لہذا یہ کہنا کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کا استحصال کیا ہے بہت بڑی الزام تراشی ہے، جو اسلام سے عدم واقفیت، کم علمی یا عناد کا نتیجہ ہے۔
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ عورتوں کا حصۂ وراثت مردوں کے بالمقابل نصف کیوں ہے؟
بے شک اسلام نے مردوں کو عورتوں سے دوگنا حصہ دیا ہے؛ لیکن اس کو لیکر اسلام پر طعن و تشنیع کرنا بجز حماقت و جہالت کے کچھ نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ اعتراض اس وقت قابلِ اعتنا سمجھا جاتا جب اسلام عورتوں کی کفالت کی ذمہ داری سے مردوں کو بری کر دیتا، جب کہ اسلام نے اگر مردوں کو عورتوں سے زیادہ حصہ دیا ہے تو ساتھ ساتھ انھیں اس بات کا ذمہ دار بھی بنایا ہے کہ وہ عورتوں کی کفالت کریں اور ان کے نان و نفقہ اور تمام تر اخراجات کا بار اٹھائیں۔
ذرا اس زاویے سے بھی غور فرمائیے کہ مثلا ایک شخص کا انتقال ہوا اور اس کی اولاد میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، دونوں کو وراثت میں حصہ ملا، اب لڑکے کی زندگی کا جائزہ لیجیے معلوم ہوگا کہ زندگی کے ہر موڑ پر اس کے اخراجات بڑھتے جائیں گے؛ خواہ وہ مہر یا نان و نفقہ کی صورت میں ہو یا اولاد کی کفالت کی صورت میں۔
اور لڑکی کی زندگی کا جائزہ لیجیے معلوم ہوگا کہ زندگی کے ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی اس کے اخراجات کا ضامن ہے، شادی سے پہلے باپ ذمہ دار ہے اور شادی کے بعد شوہر پر کفالت کی ذمہ داری ہے، نیز مہر اور نان و نفقہ کی صورت میں اس کے مال میں اضافہ بھی ہے اور جو مال اس کی ملکیت میں ہے اس کا مصرف صرف اسی کے ذاتی اخراجات ہیں، اس پر کسی کی کفالت کی ذمہ داری عائد نہیں ہے۔
یہاں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کو وراثت میں جو حصہ دیا گیا ہے وہ تو اضافی اور علی سبیل الاحسان ہے؛ کیوں مردوں کو ملنے والے حصے میں تو نان و نفقہ کی صورت میں ان کا حصہ بھی شامل ہے؛ لہذا مساوات کے علمبرداروں کے قاعدے کی رو سے مساوات کا تقاضا تو یہ تھا کہ انھیں حقِ وراثت سے بالکلیہ محروم رکھا جاتا یا وراثت میں انھیں مردوں کے برابر حصہ دیکر مردوں کو ان کی کفالت کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا جاتا۔ لیکن چوں کہ اسلام کا ایک امتیازی وصف اعتدال ہے؛ اس لیے اس نے مرد و زن کی فطری اور طبعی تفاوت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے حقوق میں بھی تفاوت کو بر قرار رکھا اور بجائے مساوات کے نظامِ عدل کو ترجیح دی، اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ عورتوں کو وراثت میں بھی حصہ دیا جائے اور مردوں کو ان کا کفیل بھی بنایا جائے؛ کیوں کہ اگر انھیں مردوں کے برابر حصہ دے دیا جاتا اور مرد حضرات پر اس کی کفالت کی ذمہ داری عائد نہ کی جاتی تو خاندانی اور معاشرتی نظام معطل ہوکر رہ جاتا؛ کیوں عورتوں کو زندگی کے ہر موڑ پر مالی احتیاج ہوتی ہے اور ان میں اقتصادی و معاشی مشقتیں برداشت کرنے کی صلاحیت مردوں کی بہ نسبت بہت کم ہوتی ہے، ایسے میں ایک محدود اور متعین حصہ ان کی معاشی احتیاجات کی کفایت کیسے کر سکتا ہے؟
اور اگر انھیں کلی طور پر حصے سے محروم رکھا جاتا اور صرف مردوں کو ان کا کفیل بنا دیا جاتا تو عورتیں ہر اعتبار سے مردوں پر منحصر ہوکر رہ جاتیں؛ لہذا معاشرتی توازن کی بقا کی خاطر اسلام نے یہ طریقہ اپنایا کہ انھیں وراثت سے بھی حصہ ملے اور مرد حضرات ان کے اخراجات کے ضامن بھی بنیں؛ تاکہ معاشی و اقتصادی لحاظ سے عورت مطمئن ہو، خود کو کامل و مکمل محسوس کرے اور اپنی خانگی ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی انجام دے سکے، ذرا بتائیے اس سے زیادہ فطرت کی رعایت کیا ہو سکتی ہے؟
حاصل یہ ہے کہ اسلام نے مرد و زن کی طبعی و فطری نزاکتوں کو ہر وقت پیشِ نظر رکھا اور ان کو وہ حقوق عطا کیے جو ان کے لیے موزوں اور مناسب ہیں، بے شک ان فیصلوں میں خدا کی بڑی حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں جنھیں وہی جانتا ہے، انسانوں کی محدود عقلیں نہ اس کا کامل طور پر ادراک کر سکتی ہیں اور نہ ہی اس کے احکامات کو پرکھنے کے لیے کسوٹی کا درجہ حاصل کر سکتی ہیں، خصوصا وہ زنگ آلود عقلیں جو غور و فکر کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
0 تبصرے
تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!