Header Ads Widget

مطالعہ کے تئیں علما و طلبہ کے اندر غفلت و بےحسی کیوں؟

مضمون نگار: عبدالعلیم دیوگھری

مطالعہ کے تئیں علما و طلبہ کے اندر  غفلت و بے حسی کیوں؟






لفظ "طالب علم اور عالم دین" دو ایسے لفظ ہیں جنہیں سنتے ہی ذہن میں ایسی شخصیات متصور ہوتی ہیں جو اپنی ساعاتِ زیست کتابوں کی ہم نشینی کی نذر کر دیتے ہیں، جن کے حق میں کتابیں پوری دنیا کی حیثیت رکھتی ہیں،اس عارضی دنیا کی رنگینیوں ، دل فریبیوں اور چمک دمک سے نہ ان کی نگاہیں خیرہ ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کے قلوب فریفتہ ہوتے ہیں ، نہ وہ عیش و طرب کے کے اسباب کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور نہ دولت و ثروت کی کثرت دیکھ کر ان کی آنکھیں چمکتی ہیں، نہ گل لالہ کی مہک انہیں سامان تسکین فراہم کرتی ہیں اور نہ گلاب کی رنگت ان میں کسی قسم کی فرحت و انبساط کا احساس پیدا کرتی ہیں، ان کے دل کی تازگی اور روح کی تسکین کا سامان تو صرف اور صرف کتابوں کے اوراق میں مضمر ہوتا ہے۔

مگر بڑے دکھ کی بات ہے کہ زمانۂ حال میں علما و طلبہ کے اندر سے یہ امتیازی خصوصیات بڑی سرعت کے ساتھ منعدم ہوتی جا رہی ہیں اور مطالعہ، کتب بینی،ورق گردانی اور مسائل کی تحقیق و تدقیق کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے، در اصل دور حاضر میں ایجادات و اختراعات کی کثرت کے سبب لغویات کے کثیر اسباب و وسائل بھی معرض وجود میں آئے اور انسانی توجہات کا مرکز بنے؛ خصوصا دور حاضر کی شاہکار ایجاد"اسمارٹ فون" نے عالم انسانی کی سمت کو نیا رخ دیا، اور تمام انسانی کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے، اب شخص وقت گزاری کے لیے موبائیل سے سرگوشیاں کرتا رہتا ہے، علما و طلبہ بھی اس کے شر سے اپنے دامن بےداغ کو بےداغ نہ رکھ سکے اور اس کے دام فریب کے اسیر ہوکر رہ گئے، اور یہیں سے مطالعہ کے تئیں ان کی غفلت و بےاعتنائی کا مرحلہ شروع ہوا۔

کتابوں سے انقطاع تعلق کا بڑا سبب انٹرنیٹ ہے؛ کیوں کہ اب اگر انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے یا کسی مسئلے کی تحقیق مطلوب ہوتی ہے تو وہ فورا گوگل پر ٹائپ کرتے ہیں اور محض لمحوں میں انہیں ان کا مطلوب حاصل ہو جاتا ہے، لیکن ایسے لوگوں کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں اور ایسے افراد کے اندر کتابوں کی عبارت خوانی کی سکت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ علما و طلبہ کی ایک جماعت کتابوں کو پی ڈی ایف فارمیٹ میں پڑھنے کے عادی ہیں جس سے نہ تو مطالعہ کی برکت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خاطر خواہ فایدہ ظاہر ہوتا ہے ایسےافراد مطالعہ کی حقیقی حلاوت و چاشنی اور لطف اندوزیوں سے بھی بے بہرہ رہ جاتے ہیں؛ ظاہر ہے کاغذی اوراق کے لمس، الٹ پلٹ اور مہک میں جو مزا ہے اس کا ادراک پی ڈی ایف میں نہیں ہو سکتا ہے۔

مگر افسوس کہ علما و طلبہ بھی ایک بے کیف و بےلطف زندگی کے اسیر ہوگئے اور حقیقی زندگی لطف اندوزیوں سے محروم رہ گئے، جناب سعود عثمانی نے اس الم ناک داستان کی کیا خوب عکاسی کی ہے:ع
کاغذ کی یہ مہک  یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

جب کہ چشم فلک نے ایسی عظیم شخصیات کا مشاہدہ کیا ہے اور سطح ارض نے ایسی ہستیوں کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا ہے جن کے علمی انہماک،شوق مطالعہ اور انضباط وقت کے سنہرے اور تابندہ نقوش تاریخ کی صفحات کی زینت بنے ہوئے ہیں، فی زماننا اگر ان کی نظیر کی تلاش میں کوہ و بیاباں بھی چھان مارا جائے تو سوائے محرومیوں کے کچھ بھی حاصل نہ ہو، جب کہ ان کے دور میں وسائل و اسباب کی بے انتہا قلت تھی ، نہ روشنی کا معقول انتظام تھا اور نہ ہی کتابوں کے صاف و شفاف اوراق؛ وہ بوسیدہ کتابیں سینے سے لگائے چاند کی جھلملاتی روشنی میں مطالعہ کے لیے نکل پڑتے تھے،وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود انہوں دنیائے علم و دانش کے لیے ایسی عظیم خدمات انجام دی ہیں جن کے احسان کے بار گراں سے کبھی سبک دوش نہیں ہوا جا سکتا۔


مگر افسوس آج وسائل کی اس قدر فراہمی کے باوجود ہم کتابوں کو مس کرنے تک کو تیار نہیں، آج کتابوں کی طباعت عمدہ، صاف اور شستہ ہوتی ہے مگر ہم اپنی بے حسی پر ماتم کریں یا مرثیہ لکھیں کہ ہم نے انہیں الماریوں کی زینت کے طور پر تو ضرور استعمال کیا،مگر ہماری کوتاہ نگاہیں ان کے اندر چھپے علم و دانش کے جواہر ڈھونڈنے سے قاصر رہیں۔
آج الماریوں کی زینت بنی کتابیں چیخ چیخ کر ہماری غفلت پر ماتم کناں ہیں مگر ہم ہیں کہ نہ ہمارے کانوں میں جوں رینگتی ہے اور نہ اس مردہ ضمیر میں زندگی کی رمق پیدا ہوتی ہے۔

آج مدارس اسلامیہ کے اندر علما و طلبہ کی ایک بڑی جماعت ایسی ہےجن کا دائرہ مطالعہ فقط درسیات تک محدود ہے غیر درسی کتابیں انہیں بار معلوم ہوتی ہیں، آج سائنسی علوم کے حاملین نے ہمارے اکابرین کے طرز عمل کو اپنایا اور ترقی و عروج کے منازل طئے کرتے گئے،اور ہم نے اپنے اسلاف کے واقعات سے سبق حاصل کرنے کی بجائے انہیں تاریخ کا قصۂ پارینہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا، جس کی بنا پر ہماری علمی تنزلی کا یہ عالم ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں زمانۂ گذشتہ کے علما کی نہ کوئی نظیر ملتی ہے،نہ کوئی مماثل و متبادل۔
آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنے اوقات کا مصرف کتابوں کو بھی بنائیں، اور فقط علما و طلبہ ہی نہیں بلکہ ہر کس و ناکس مطالعہ کی عادت ڈالے، کامیاب و بامراد ہستیوں کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ کتابوں سے ان کا رشتہ اٹوٹ تھا۔

یقینا کتابیں خلوت کی رفیق ہیں، دکھ درد کا مداوا ہیں،محزون و مغموم قلوب کے حق میں باعث تسکین ہیں، مایوسیوں کی دھند میں ڈوبی زندگی کے اندر امید کی شمع فروزاں کرنے کا جوہر ان میں موجود ہے، تخیلات کے پرواز کو بلندی عطا کرنے کا راز ان میں مضمر ہے اور مردہ قلوب میں زندگی کی لہر پیدا کرنے کا گر ان میں موجود ہے، غرض کتابیں بے شمار خصوصیات کی حامل ہیں، اور ان سب کے علاوہ کتاب ایک بہتر دوست ، ساتھی اور ہم نشین ہے جیسا کہ مشہور شاعر متنبی کا قول ہے:ع
و خیر جلیس فی الزمان کتاب
(کتابیں زمانے بھر میں بہترین ہم نشین ہیں)


ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!