وحی متلو اور وحی غیر متلو کی تعریف اور فرق
وحی متلو اور غیر متلو میں فرق اور تعریف
وحی متلو کی تعریف
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ دو قسم کی تھی،
ایک تو قرآن کریم کی آیات، جن کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ کی طرف سے تھے، اور جو قرآن کریم میں ہمیشہ کے لیے اس طرح محفوظ کر دی گئیں کہ ان کا ایک نقطہ یا شوشہ بھی نہ بدلا جا سکا ہے، اور نہ بدلا جا سکتا ہے۔ اس وحی کو علما کی اصطلاح میں وحی متلو کہا جاتا ہے، یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے۔
وحی غیر متلو کی تعریف
دوسری قسم اس وحی کی ہے جو قرآن کریم کا جز نہیں بنی؛ لیکن اس کے ذریعے آپ کو بہت سے احکام عطا فرمائے گئے ہیں، اسی وحی کو وحی غیر متلو کہتے ہیں، یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔
وحی متلو یعنی قرآن کریم میں اسلام کے اصولی عقائد اور بنیادی تعلیمات کی تشریح پر اکتفا کیا گیا ہے، ان تعلیمات کی تفصیل اور جزوی مسائل زیادہ تر وحی غیر متلو کے ذریعے عطا فرمائے گئے ہیں، یہ وحی غیر متلو احادیث کی شکل میں محفوظ ہے، اور ان میں صرف مضامین وحی کے ذریعے آپ پر نازل کیے گئے ہیں، ان مضامین کو تعبیر کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب آپ نے خود فرمایا ہے، ایک حدیث میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
أوتيت القرآن ومثله معه،
مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اس جیسی دوسری تعلیمات بھی، اس میں قرآن کریم کے ساتھ جن دوسری تعلیمات کا ذکر ہے، ان کے مراد یہی وحی غیر متلو ہے۔
اسلامی احکام کی جزوی تفصیلات چوں کہ اسی وحی غیر متلو کے ذریعے بتائی گئی ہیں اس لیے جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود اسلامی احکام کی پابندیوں سے آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں انھوں نے کچھ عرصہ سے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ وحی غیر متلو کوئی چیز نہیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنی وحی اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئی ہے وہ سب قرآن کریم میں محفوظ ہے، قرآن کریم کے علاوہ جو احکام آپ نے دیے وہ ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے دیے، جو صرف اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے واجب العمل تھے، آج ان پر عمل کرنا ضروری نہیں۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے، خود قرآن کریم کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی الہی صرف قرآن کریم میں منحصر نہیں؛ بلکہ آیات قرآنی کے علاوہ بھی بہت سی باتیں بذریعہ وحی آپ کو بتائی گئی تھیں، اس کی تائید میں چند قرآنی دلائل ملاحظہ فرمائیں:
وما جعلنا القبلة التي كنت عليها إلا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه. (البقرة ١٤٣)
اور جس قبلہ کی طرف آپ پہلے رخ کرتے تھے، اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا تاکہ یہ جان لیں کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے اور کون اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے۔
ہر مسلمان جانتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں ایک عرصہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں، اس کے بعد جب دوبارہ بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم صرف اس لیے دیا تھا تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ کون اس حکم کی تعمیل کرتا ہے اور کون انکار۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس آیت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کو اللہ تعالی نے اپنی جانب منسوب فرمایا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم بھی ہم نے ہی دیا تھا، اب قرآن کریم کو الحمد سے لیکر والناس تک پڑھ جائیے، اس میں کہیں یہ حکم نہیں ملےگا کہ”بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو“ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم اللہ تعالی نے کسی ایسی وحی کے ذریعہ دیا تھا جو قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں ہے، اور اسی کا نام وحی غیر متلو ہے۔
دوسری دلیل:
فلما نبأت به وأظهره الله عليه عرف بعضه وأعرض عن بعض. (التحريم ٣)
پس جب اس عورت نے آپ کو اس کی خبر دی اور اللہ نے آپ پر اس کو ظاہر کر دیا۔
اس آیت کی تشریح مختصرا یہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ نے ایک بات آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپانی چاہی، اللہ تعالی نے بذریعہ وحی وہ بات آپ کو بتلا دی، اس آیت میں تصریح ہے کہ وہ پوشیدہ بات اللہ تعالی نے آپ کو بذریعہ وحی بتلائی تھی، حالاں کہ پورے قرآن کریم میں کہیں اس کا ذکر نہیں ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اطلاع آپ کو وحی غیر متلو کے ذریعے دی گئی تھی۔
اور بھی متعدد آیات سے وحی غیر متلو کا ثبوت ملتا ہے، یہاں اختصار کے پیش نظر صرف ان ہی دو آیتوں پر اکتفا کیا جاتا ہے، اگر تحقیق حق مقصود ہو تو یہ دو آیتیں بھی اس بات کا ناقابل انکار ثبوت پیش کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وحی غیر متلو بھی وحی کی اس قسم ہے اور وہ بھی وحی متلو کی طرح یقینی اور واجب الاتباع ہے۔
0 تبصرے
تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!