Header Ads Widget

قرآن کریم کا نام اور وجہ تسمیہ

قرآن کریم کا نام اور وجہ تسمیہ 


قرآن کریم کا نام اور وجہ تسمیہ


قرآن کے کل کتنے نام ہیں؟

علامہ ابوالمعالی رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے پچپن نام شمار کئے ہیں، اور بعض حضرات نے ان کی تعداد نوے سے بھی متجاوز بتائی ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کریم کی صفات مثلا ”مجید“ ”کریم“ ”حکیم“ وغیرہ کو نام قرار دیکر تعداد اس حد تک پہنچا دی ہے؛ ورنہ صحیح معنی میں قرآن کریم کے نام کل پانچ ہیں: ”القرآن“ ”الفرقان“ ”الذکر“ ”الکتاب“ اور ”التنزیل“۔ خود قرآن کریم نے اپنے لیے یہ پانچوں الفاظ اسم علم کے طور پر ذکر فرمائے ہیں، ان میں سب سے زیادہ مشہور نام ”قرآن“ ہے، چناں چہ خود اللہ تعالی نے کم از کم اکسٹھ ۶۱ مقامات پر اپنے کلام کو اسی نام سے یاد کیا ہے۔

قرآن نام کا مطلب

قرآن“ در اصل ”قرأ یقرأ“ سے نکلا ہے، جس کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا، پھر یہ لفظ ”پڑھنے“ کے معنی میں اس لیے استعمال ہونے لگا کہ اس میں حروف اور کلمات کو جمع کیا جاتا ہے، ”قرأ یقرأ“ کا مصدر ”قراءۃ“ کے علاوہ ”قرآن“ بھی آتا ہے، چناں چہ باری تعالی کا ارشاد ہے:
إن علينا جمعه و قرآنه.
ترجمہ: بلاشبہ اس کتاب کا جمع کرنا اور پڑھنا ہمارے ہی ذمے ہے۔

پھر عربی زبان میں کبھی کبھی مصدر کو اسم مفعول (Past participle) کے معنی میں استعمال کر لیا جاتا ہے، کلام کو ”قرآن“ اسی معنی میں کہا جاتا ہے، یعنی ”پڑھی ہوئی کتاب“ 

قرآن کریم کی وجہ تسمیہ

قرآن کریم کی بہت سی وجوہ تسمیہ بیان کی گئی ہیں، زیادہ راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ کا یہ نام کفار عرب کی تردید میں رکھا گیا ہے، وہ کہا کرتے تھے:
لاتسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه. (حم سجدۃ)
ترجمہ: تم اس قرآن کو نہ سنو اور اس کی تلاوت کے دوران لغو باتیں کیا کرو۔
ان کفار کے علی الرغم ”قرآن“ نام رکھ کر اشارہ فرما دیا گیا کہ قرآن کریم کی دعوت کو ان اوچھے ہتھکنڈوں سے دبایا نہیں جا سکتا، یہ کتاب پڑھنے کے لیے نازل ہوئی ہے اور قیامت تک پڑھی جاتی رہےگی؛ چناں چہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

قرآن کریم کی اصطلاحی تعریف

بہر حال قرآن کریم کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
المنزل على الرسول المكتوب في المصاحف المنقول إلينا نقلا متواترا بلا شبهة.
ترجمہ: اللہ کا وہ کلام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، مصاحف میں لکھا گیا اور آپ سے بغیر کسی شبہ کے تواترا منقول ہے۔
یہ تعریف تمام اہل علم کے نزدیک متفق علیہ ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے