Header Ads Widget

اشرف علی رسول اللہ کلمہ پر مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی وضاحت

اشرف علی رسول اللہ کلمہ پر مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی وضاحت 


اشرف علی رسول اللہ کلمہ پر مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی وضاحت

از: مدثر علی راؤ 


قارئین کرام! انجینئر مرزا اور اس کے مقلدین آئے دن مولانا تھانوی رحمہ اللہ پر یہ اعتراض کر رہے ہوتے ہیں کہ " انکے مرید نے خواب اور حالت بیداری میں مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے نام کا کلمہ پڑھا جس پر مولانا نے اس مرید کی توبہ کروانے کی بجائے اسے تسلی دی اور اس کی تعبیر یہ بتائی کہ تمہارا پیر متبع سنت ہے۔"

یہ اعتراضات کوئی نئے نہیں بلکہ خود مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی زندگی میں ہی لوگوں نے یہ اعتراضات اٹھائے تھے جس پر مولانا نے خود رسالہ الامداد میں اپنی وضاحت بھی پیش کردی تھی جسکا شاید ہی آپ حضرات کو علم ہو۔اب ہم ایک ایک اعتراض کا جواب خود مولانا تھانوی رحمہ اللہ سے ہی پیش کر دیتے ہیں۔

نوٹ : یہاں پر ایک بات اور واضح کردی جائے کہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے دیے گئے جوابات کافی تفصیل سے ہیں جن کو ہم اپنے الفاظ میں اختصار کیساتھ پیش کریں گے کیونکہ اگر بعینہٖ انکی تحریر کو نقل کیا گیا تو ممکن ہے کہ عام لوگوں کو سمجھنے میں مشکل ہو یا پھر سمجھ ہی نہ لگے اس لیے ہم اسے آسان فہم میں یہاں پر بیان کریں گے۔


یہ ساری وضاحت رسالہ الامداد کے شمارہ ماہ جمادی الثانی 1336 ہجری جلد 3 کے صفہ 17 تا 24 پر موجود ہے۔

 اعتراض 1 : جس شخص نے خواب اور حالت بیداری میں کلمہ کفر پڑھا تھا تو مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے اسے توبہ کیوں نہ کروائی؟

جواب : صاحب واقعہ کو توبہ اس لیے نہیں کروائی گئی کیونکہ خواب والے معاملے میں بالاجماع وہ شخص مکلف نہیں کہ اس پر کوئی شرعی حکم لگتا تاہم پھر بھی اس میں فی نفسہ چند احتمالات ہیں اور وہ یہ ہے کہ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب بہت برا ہے لیکن اسے برا اس لیے نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ صاحب رؤیا کو ہمیشہ خواب کی تعبیر میں دخل ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی ام الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنہا نے ایک خواب دیکھا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ!آج رات میں نے ایک برا خواب دیکھا ہے ( حلما منکرا ) آپ نے فرمایا: وہ کیا خواب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ بہت ہی سخت ہے،آپ نے فرمایا: بتائیں تو سہی وہ کیا ہے؟ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے ”گویا آپ کے جسمِ مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا ہے“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے(اس کی تعبیر یہ ہے کہ) ان شاءاللہ تعالی میری لخت جگر بیٹی( سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا)کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا جو تمہاری گود میں کھیلے گا،چنانچہ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور میری گود میں کھیلے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔

 مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب اہل،ج۳،ص۱۷۴۱،ط؛المکتب الاسلامی۔

اب دیکھو کہ بظاہر تو یہ خواب بہت برا تھا اور اس میں بے ادبی بھی شامل تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسکی تعبیر تسلی بخش بتلائی۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ خواب شیطانی ہو لیکن اسکی تعبیر اچھی ہو اس لیے احقر (( یعنی مولانا تھانوی رحمہ اللہ )) کا خیال پہلے احتمال کی طرف ہی گیا کہ اس کی تعبیر اچھی ہی ہوگی۔

دوسری بات یہ کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں نہ پہچانتا ہوں لیکن بعض قرائن نے مجھے اس شخص کے ہدایت پر ہونے کی گواہی دی جن میں بڑا قرینہ یہ ہے کہ خواب میں بھی غلط کلمات ادا ہونے کے باوجود جبکہ وہ شخص خواب کی وجہ سے مکلف بھی نہیں تھا پھر بھی وہ پریشان ہو رہا ہے اور اسکا تدارک کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسکا یہ اہتمام اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسکا ایمان قوی و صالح ہے۔پس اسی بناء پر میں نے اسکی اچھی تعبیر لکھ دی۔

قارئین کرام! پہلے اعتراض کے جواب سے ہمیں معلوم ہوا کہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے اس شخص کو توبہ اس لیے نہیں کروائی کیونکہ ایک تو اس نے خواب کی حالت میں غلط کلمات پڑھے تھے جس کا وہ مکلف نہیں تھا اور رہی بات حالت بیداری کی تو اس میں بھی وہ شخص بے ساختہ ہو کر غلط کلمات پڑھ رہا تھا اور اسکے باوجود وہ پریشان تھا کہ اس کے منہ سے کفریہ کلمات نکلے۔اس شخص کا گھبرانا اور پریشان ہونا ہی اس کے ایمان کی نشانی تھی اور ساتھ یہ بھی واضح ہو گیا کہ وہ شخص کوئی جاہل نہیں بلکہ دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والا تھا۔یہ چند وجوہات تھیں جن کی بناء پر مولانا نے اسے توبہ کروانے کی بجائے اسکی تعبیر بیان کی۔

پھر مولانا نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بظاہر تو یہ خواب برا لگتا ہے لیکن بعض دفعہ خواب برا ہونے کے باوجود اسکی تعبیر اچھی ہوا کرتی ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت بھی کیا گیا۔

 اعتراض 2 : مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے کفریہ کلمات کی تعبیر یہ کیوں کی کہ تمہارا پیر متبع سنت ہے؟ کیا ایسے کفریہ کلمے کی یہ تعبیر ہوتی ہے؟

جواب : متبع سنت کہنے سے یہ واضح کرنا تھا کہ تم تو میرے نام کا کلمہ پڑھ رہے ہو جبکہ میں تو خود رسول اللہ کا غلام ہوں لہٰذا متبع سنت بتانا رسول اللہ کی طرف غلامی کی نسبت کرنا ہے۔اگر یہی واقعہ اس زمانہ کے مشہور مدعی نبوت کے سامنے پیش کیا جاتا تو کیا وہ اسکا یہی جواب دیتا جو میں نے دیا ہے؟ ہرگز نہیں۔

دوسری بات بعض اوقات خواب میں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور دل بھی گواہی دیتا ہے کہ حضور ہی ہیں لیکن زیارت کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ شکل کسی اور شخص کی ہے تو وہاں اہل تعبیر یہی کہتے ہیں کہ یہ اشارہ ہے اس شخص کے متبع سنت ہونے کا۔پس جس طرح وہاں صورت نبوی کی جگہ کسی اور شکل ہونے کو اتباع سے تعبیر کی گیا ٹھیک اسی طرح یہاں پر نام ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جگہ دوسرا نام بیان کیا گیا جسکو اتباع سے تعبیر کیا گیا تو اس سے کونسی شرعی قباحت لازم آ گئی؟

 قارئین کرام! دیکھا آپ نے کہ مولانا نے کس قدر حکمت سے کام لیتے ہوئے " متبع سنت " کی تعبیر بیان فرمائی جس سے یہ بھی واضح کر دیا کہ بیشک تم نے میرے نام کا کلمہ پڑھا ہے لیکن اس سے میرے متعلق کسی غلط فہمی میں نہ رہنا بلکہ میں تو خود رسول اللہ کا غلام ہوں۔

 اعتراض 3 : اگر یہ واقعہ پیش آہی گیا تھا تو اسے یوں رسالے میں شائع کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ پتا بھی تھا کہ اس میں کفریہ کلمات موجود ہیں!

جواب : میرے نزدیک یہ واقعہ اتنا ظاہر تھا کہ اس میں کسی ایسے شبہ کی گنجائش میرے ذہن میں نہ تھی اور ایسے کسی شبہ کے نہ ہونے کے سبب میں نے اسکے مجمل جواب کو کافی سمجھا تفصیل کی حاجت نہ سمجھی۔

میں اسکی اشاعت میں یہ فائدہ بھی سمجھتا تھا کہ اگر کسی کو ایسی حالت پیش آجائے تو وہ تلبیس سے محفوظ رہ کر اپنے جان و ایمان کو بچا سکے اور ایسا ہی شخص اس فائدہ کی قدر بھی کر سکتا ہے۔

 قارئین کرام! انجینئر مرزا جو یہ ہر وقت یہ کہتا رہتا ہے کہ اس واقعہ کی اشاعت پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی اس کا جواب بھی مولانا نے اپنی زندگی میں دےدیا تھا جسکا مقصد صرف لوگوں کے ایمان کو محفوظ رکھنا تھا۔
 یہاں پر ایک اور شبہ کا جواب ہم اپنی طرف سے عرض کرتے چلیں اور وہ یہ ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس شخص پر کوئی شیطانی حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے اسے توبہ کروانی چاہیے تھی۔۔۔

تو اس پر ہم عرض کر دیں کہ اسکی کیا دلیل ہے کہ اس شخص پر شیطان کا حملہ ہوا تھا؟ آخر شیطان کو سوئے ہوئے شخص پر حملہ کر کے کونسا فائدہ ملتا کیونکہ نیند کی حالت میں تو اس پر کوئی بھی گناہ لازم نہیں آنا تھا جبکہ شیطان ہمیشہ اس شخص پر حملہ کرتا ہے جس پر گناہ کا وبال بھی پڑتا ہو۔بھلا کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی پاگل شخص پر بھی شیطان نے حملہ کیا ہو؟؟؟

 خلاصہ کلام یہ ہوا کہ صاحب واقعہ نے خواب اور بیداری کی حالت میں جو کچھ بھی غلط کلمات ادا کیے وہ ان سب کا مکلف نہ تھا کیونکہ اس وقت کچھ بھی اس کے اختیار میں نہ تھا لہٰذا ایسا شخص شریعت کی نظر میں معذور کہلاتا ہے جس پر کوئی حکم نہیں لگتا۔تو جب اس پر کوئی حکم نہیں لگتا تھا تو اسی لیے مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اسے توبہ نہیں کروائی بلکہ وہ ایک صالح و متقی شخص تھا جو خود سے توبہ استغفار کرنے والا تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. Aap ne Acha difa kiya hai lekin sabit nahin kar sake thanvi saha.Ka jawab jaise ke mazmoon ki heading likhi hai

    جواب دیںحذف کریں

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!