Header Ads Widget

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح میں ختم قرآن ثابت ہے؟

 کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح میں ختم قرآن ثابت ہے؟


کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح میں ختم قرآن ثابت ہے؟


بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی 

رمضان ہو یا غیر رمضان ، رات کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدار قراءت میں ایسی کوئی لازمی اور واجبی حد بندی نہیں فرمائی ہے کہ اس سے کمی بیشی کی اجازت ہی نہ ہو ، بلکہ حالات وتقاضے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت مختصر اور مطول دونوں طرح ہوتی تھی ، لیکن طویل قرآءت آپ کو محبوب تھی ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تراویح کی مشروعیت کی سب سے اہم غرض قرآن کریم کی تلاوت ہے ؛ تاکہ مسلمان کلام ربانی سن سکیں ؛ کیونکہ خود قرآن کریم کا نزول اسی ماہ میں ہوا ، اور صاحب قرآن حضرت جبرئیل علیہ  السلام کے ساتھ اس ماہ میں  نازل شدہ تمام آیات کا دور کیا کرتے تھے  :
بَلْ مِنْ أَجْلِ مَقْصُودِ التَّرَاوِيحِ قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فِيهَا لِيَسْمَعَ الْمُسْلِمُونَ كَلَامَ اللَّهِ. فَإِنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ فِيهِ نَزَلَ الْقُرْآنُ وَفِيهِ كَانَ جِبْرِيلُ يُدَارِسُ النَّبِيَّ إلخ….. ( مجموع الفتاوى 122/23)

قاضی ابو علی نسفی رحمہ اللہ کا خیال یہ ہے کہ تراویح بذات خود مقصود نہیں ہے ؛ بلکہ وہ در اصل ختم قرآن کے لئے مشروع ہوئی ہے ؛ اس پہ تفریعاً لکھتے ہیں کہ اگر تراویح میں اختتام رمضان سے قبل تراویح میں ختم قرآن ہوگیا ہو تو اب بقیہ راتوں میں تراویح نہ پڑھنے کی بھی گنجائش ہے :
قال القاضي الإمام أبو علي النسفي رحمه الله، وإذا ختم في التراويح مرة وصلى العشاء يقية الشهر من غير تراويح يجوز من غير كراهة؛ لأن التراويح ما شرعت بحق نفسها بل لأجل القراءة فيها، فالسنّة هو الختم مرة وقد ختم مرة، فلو أمرناه بالتراويح بعد ذلك أمرناه بهابحق نفسها وإنها ما شرعت بحق نفسها.(المحيط البرهاني 460/1)
مشہور محقق علامہ طحطاوی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ مشروعیتِ تراویح کا مقصد ختم قرآن ہے  :
لأنها شرعت لأجل ختم القرآن وقد حصل مرة الخ…. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ص 414-415)
لیکن علماے محققین فرماتے ہیں کہ تراویح پورے ماہ کے لئے مستقل مشروع ومسنون ہے ، ختم قرآن کے بعد بقیہ ایام رمضان ترک تراویح مکروہ عمل ہے :
لَوْ حَصَلَ الْخَتْمُ لَيْلَةَ التَّاسِعَ عَشَرَ أَوْ الْحَادِي وَالْعِشْرِينَ لَا تُتْرَكُ التَّرَاوِيحُ فِي بَقِيَّةِ الشَّهْرِ؛ لِأَنَّهَا سُنَّةٌ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ الْأَصَحُّ أَنَّهُ يُكْرَهُ لَهُ التَّرْكُ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ.(الفتاوى الهندية ١١٨/١)

الجوھرۃ  النیرۃ میں ہے : 
وَلَوْ حَصَلَ الْخَتْمُ بِلَيْلَةِ التَّاسِعِ أَوْ الْحَادِي وَالْعِشْرِينَ لَا يَتْرُكُ التَّرَاوِيحَ فِي بَقِيَّةِ الشَّهْرِ؛ لِأَنَّهَا سُنَّةٌ فِي جَمِيعِ الشَّهْرِ، قَالَ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - «وَسَنَنْت لَكُمْ قِيَامَهُ» ، وَلِهَذَا قِيلَ إذَا عَجَّلَ الْخَتْمَ فَالْمُسْتَحَبُّ أَنْ يَبْتَدِئَ مِنْ أَوَّلِ الْقُرْآنِ فِي بَقِيَّةِ الشَّهْرِ( الجوهرة النيرة 98/1)
محقق ابن الہمام نے اسے صیغہ تمریض سے نقل کرتے ہوئے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے :
ثُمَّ إذَا خَتَمَ قَبْلَ آخِرِهِ قِيلَ لَا يُكْرَه تَرْكُ التَّرَاوِيحِ فِيمَا بَقِيَ، وَقِيلَ يُصَلِّيهَا وَيَقْرَأُ فِيهَا مَا يَشَاءُ( فتح القدير 469/1)

پھر رمضان کا مبارک مہینہ تو ہے ہی نزول قرآن کا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کا رمضان المبارک کی راتوں میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ اس وقت تک نازل شدہ پورے قرآن کریم کا عام زندگی میں ایک دفعہ اور حیات مبارکہ کے آخری رمضان المبارک میں دو دفعہ دور کرنے کا ذکر ملتا ہے ( أخرجه البخاري (6) واللفظ له، ومسلم (2308) جس سے حضور کے رمضان میں ختم قرآن کا صریح ثبوت ملتا ہے ،ویسے اس ماہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدار قرآءت مختلف ہوتی تھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں ’’سورہ  المزمل‘‘ ( بیس آیات ) پڑھتے تھے اور کبھی پچاس آیات پڑھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، 
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جو شخص رات میں دس آیات پڑھے وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا، اور جو سو آیات پڑھے گا وہ قانتین میں لکھا جائے گا، اور جو دو سو آیات پڑھے وہ فائزین میں لکھا جائے گا۔ (یعنی کامیاب و کامران لوگوں میں اس کا شمار ہو گا- سنن دارمی 3489)
بلکہ ایک رات تو بیمار ہونے کی حالت میں بھی آپ نے سورۃ البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف، اور سورۃ التوبہ تلاوت فرمائی ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان کے قصے میں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں "البقرہ" پھر "النساء" پھر "آل عمران" پڑھا اور آپ کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کے تعدیل کے ساتھ ہوتی تھی ( اسلام ویب سے ماخوذ ) 
ویسے ذخیرہ احادیث میں صریح طور پہ یہ تو نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح میں قرآن ختم ومکمل کیا ہو ، لیکن  متعدد روایتوں میں اس بات کا اشارہ ضرور ملتا ہے کہ رمضان میں ایک ختم نہیں ؛ بلکہ تین تین ختم قرآن سنت رسول سے ثابت ہے ۔ 
مثلاً : 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے  مختلف قراء کو طلب فرمایا اور ان سے قرآن کریم کی تلاوت کروائی ان میں جس کی پڑھنےکی رفتار سب سے زیادہ تھی اس کو ہر رکعت میں تیس،تیس آیات پڑھنے کو فرمایا،درمیانی رفتار والے کو پچیس،پچیس آیات اور سب سے ہلکی رفتار والے کو بیس،بیس آیات پڑھنے کو ارشاد فرمایا،اس روایت سے سب سے زیادہ رفتار والے شخص کا کم از کم تین قرآنِ پاک یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہی پڑھنا ثابت ہوتا ہے،کیوں کہ پورے مہینے تیس دن ہونے کی صورت میں تراویح کی چھ سو رکعات بن جاتی ہیں اور قرآن کریم کی کُل آیات اختلاف کے باوجود چھ ہزار تو ہیں ہی،تو اس طرح بھی کم از کم اٹھارہ ہزار آیات یعنی تین قرآن کا ختم ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے حضرت عمر اپنے من سے ایسا بالکل نہیں کرسکتے ، لامحالہ ان کے پیش نظر اس بابت حضور کی کوئی سنت ضرور ہوگی جس کی بنیاد پر قراء کو ایک سے تین ختم تک کرنے پر مامور کررہے ہیں ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سنت کی طرح اپنے خلفاء راشدین کی سنت کی اتّباع کا بھی حکم فرماتے ہیں ، جس سے واضح ہے کہ حسب موقع وحال ایک سے تین ختم کرنا سنت سے ثابت ہے ، سنن بیہقی میں ہے : 
"دعا عمر بن الخطاب رضي الله عنه بثلاث قراء ‌فاستقرأهم، ‌فأمر ‌أسرعهم قراءة أن يقرأ للناس ثلاثين آية، وأمر أوسطهم أن يقرأ خمسا وعشرين، وأمر أبطأهم أن يقرأ للناس عشرين آية."
(ص:700،ج:2،‌‌باب قدر قراءتهم في قيام شهر رمضان،ط: دار الكتب العلمية)

حضرات صحابہ تراویح پڑھ کر اتنی تاخیر سے گھر لوٹتے کہ طلوع فجر کا خدشہ ہوجاتا  اور سحری کی فکر ہونے لگتی تھی :
"عن عبد الله بن أبي بكر أنه قال: سمعت أبي يقول: " كنا ننصرف من القيام في رمضان فنستعجل الخادم بالطعام مخافة الفجر ."
(سنن بیہقی ص:701،ج:2،‌‌باب قدر قراءتهم في قيام شهر رمضان،ط: دار الكتب العلمية، وموطأ مالك رقم254")

اتنی تاخیر جب ہی متصور ہے کہ صحابہ کرام کا معمول مکمل قرآن پڑھنے کا رہا ہو ، قصار مفصل سے پڑھنے کی صورت میں اتنی تاخیر کیسے ہوسکتی ہے ؟ 
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی ایک رات باہر تشریف لے گئے اور کچھ لوگوں کو مسجد کے کنارے نماز پڑھتے دیکھا تو حضور نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ لوگ کیا کررہے ہیں ؟ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! انہیں قرآن یاد نہیں ہے، اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہوں نے اچھا کیا، انہوں نے  ٹھیک کیا ہے۔"
"عن ابن الهاد، أن ثعلبة بن أبي مالك القرظي، حدثه قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة في رمضان فرأى ناسا في ناحية المسجد يصلون، فقال: " ما يصنع هؤلاء؟ " قال قائل: يا رسول الله، هؤلاء ناس ليس معهم قرآن وأبي بن كعب يقرأ وهم معه يصلون بصلاته قال: " ‌قد ‌أحسنوا، أو ‌قد ‌أصابوا ."
(سنن بیہقی ص:697،ج:2،‌‌‌‌باب من زعم أنها بالجماعة أفضل لمن لا يكون حافظا للقرآن،ط: دار الكتب العلمية)

اس حدیث میں حضور کے استفسار کے جواب میں حاضرین میں سے کسی کا یہ  کہنا کہ ان کو قرآن نہیں آتا، لامحالہ اس کا یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کو اتنا بھی قرآن نہیں آتا کہ جس سے خود سے اپنی نماز پڑھ سکیں ،بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کو پورا قرآن نہیں آتااور یہ پورا قرآن سننے کے لیے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں تراویح کے لیے جمع ہوئے ہیں
پھر حضور کا ان کی تحسین وتائید کرنا ختم قرآن کو ثابت وبرقرار رکھتاہے ؛ لہٰذا ختم قرآن تقریر رسول سے ثابت ہوا ۔
مصنف عبد الرزاق کی روایت میں ہے کہ صحابہ دیر شب کو تراویح پڑھ کر اپنے گھروں کو تین چوتھائی رات گزرنے کے بعد بالکل فجر کے قریب واپس آتے تھے:
 عن السائب بن يزيد قال: كنا ننصرف من القيام على عهد عمر، وقد دنا فروع الفجر، وكان القيام على عهد عمر ثلاثة وعشرين ركعة."
(مصنف عبد الرزاق ص:11،ج:5،کتاب الصيام،باب قيام رمضان،ط:دار التأصيل)

"وعن الحسن قال: كان الناس يقومون في رمضان، فيصلون العشاء حين يذهب ربع الليل، وينصرفون، وعليهم ربع آخر."
(مصنف عبد الرزاقص:12،ج:5،کتاب الصيام،باب قيام رمضان،ط:دار التأصيل)
 
اتنی تاخیر سے گھر لوٹنا تبھی ہوسکتاہے کہ جب پورا پورا قرآن ختم کرنے کا معمول ہو، قصار مفصل سے پڑھنے کی صورت میں اتنی تاخیر ممکن نہیں ہے ۔
بیہقی کی روایت میں ہے کہ صحابہ کرام تراویح میں اتنی لمبی اور دیر تک تلاوت کرتے کہ شدت قیام کے باعث انہیں اپنی لاٹھیوں پہ سہارا لینا پڑجاتا تھا :
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: "كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ -رضي اللَّه عنه- فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً". قَالَ: "وَكَانُوا يَقْرَؤونَ بِالمِئِينِ، وَكَانُوا يَتَوَكَّؤُونَ عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ -رضي اللَّه عنه- مِنْ شِدَّةِ القِيَامِ( بيهقي 698/2)
مبسوط سرخسی میں ہے : 
أَصْلُهُ مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّهُ دَعَا ثَلَاثَةً مِنْ الْأَئِمَّةِ وَاسْتَقْرَأَهُمْ فَأَمَرَ أَحَدَهُمْ أَنْ يَقْرَأَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ ثَلَاثِينَ آيَةً وَأَمَرَ الْآخَرَ أَنْ يَقْرَأَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ خَمْسَةً وَعِشْرِينَ آيَةً وَأَمَرَ الثَّالِثَ أَنْ يَقْرَأَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ عِشْرِينَ آيَةً( المبسوط للسرخسي246/2)

بدائع الصنائع میں ہے : 
لِأَنَّهُ رُوِيَ أَنَّ عُمَرَ دَعَا بِثَلَاثَةٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ فَاسْتَقْرَأَهُمْ وَأَمَرَ أَوَّلَهُمْ أَنْ يَقْرَأَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِثَلَاثِينَ آيَةً، وَأَمَرَ الثَّانِيَ أَنْ يَقْرَأَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ خَمْسَةً وَعِشْرِينَ آيَةً، وَأَمَرَ الثَّالِثَ أَنْ يَقْرَأَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ عِشْرِينَ آيَةً( 289/1)
 (فتویٰ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
ان نصوص سے واضح ہے کہ تراویح میں ختم قرآن اصحاب رسول کا معمول تھا ، اور وہ ایسا تب ہی کرسکتے ہیں جبکہ اس بابت انہیں حضور کے منشاء ومرضی کا علم ہو ، سنت رسول کی اتّباع وتعمیل میں انجام دیئے جانے والے افعال صحابہ بھی سنت شریعت کے زمرے میں ہی آتے ہیں جیساکہ اس سے قبل ملاعلی قاری کے حوالے سے ہم نقل کرچکے ہیں ، پھر جب اصحاب رسول کی اس تطویل قراءت کو صاحب شرع کی تائید وتقریر بھی حاصل ہوجائے تو بھلا پھر تراویح میں تکمیل قرآن کی سنیت کے ثبوت کے تئیں کیا شبہ باقی رہ سکتا ہے ؟  
ہاں ! طرق ثبوت میں فرق ضرور ہے ۔ عبارت النص کی بجائے اشارۃ النص سے سنیت ثابت ہورہی ہے ؛ لیکن استنباط احکام کے باب میں یہ طریقہ بھی تسلیم شدہ ہے۔
ابو اسامہ القاسمی 
بیگوسرائے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے