Header Ads Widget

الحاد کیا ہے؟

 الحاد کیا ہے؟

الحاد کیا ہے؟

از قلم:  محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

الحاد عربی زبان کا لفظ ہے جو لحد سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں انحراف و کنارہ کشی، الحاد جس کو لادینیت بھی کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو ماننے سے انکار کیا جائے، یعنی خدا سے بیزاری یا دین سے بیزاری کی روش اپنائی جائے، اس کا انگریزی مترادف Atheism ہے، یہ دراصل یونانی لفظ Atheos سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں (بغیر خدا کے) اسی کے قریب المفہوم لفظ دہریت ہے جو کبھی ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال کیا جاتا ہے، ان تمام باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ الحاد توحید و شرک کی نفی کا نام ہے، یعنی ایک خدا یا چند خداؤں کے انکار کا نام الحاد ہے، اور یہ کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ انکار خدا سے متعلق ایک طرز فکر ہے۔

 دور حاضر میں الحاد کی تین بڑی قسمیں پائی جاتی ہیں: 

1.   الحاد مطلق (Gnosticism)  اس گروہ کے ملحدین خدا کے انکار کے معاملے میں شدت کا رویہ رکھتے ہیں، یہ لوگ ما بعد الطبیعیاتی (Meta- physical) امور کو کسی بھی صورت میں تسلیم نہیں کرتے، کائنات کے متعلق ان کا نظریہ یہ ہے کہ یہ خود بخود وجود میں آئی ہے، اس میں کسی خالق کے کمال صنعت کا ظہور نہیں ہوا ہے، اور اب یہ فطری قوانین (Low of nature) کے تحت چل رہی ہے، اس نقطہ نظر کے حاملین کو (Agnostic Atheist) کہا جاتا ہے، اور ملحدین سے بالعموم یہی طبقہ مراد لیا جاتا ہے۔

2لا ادریت (Agnosticism) اس طبقے کے لوگ نہ خدا کا اقرار کرتے ہیں اور نہ انکار، بلکہ اپنے شعور و ادراک سے ماورا سمجھ کر ذات خدا کے بارے میں سکوت کا رویہ اختیار کرتے ہیں، یہ لوگ عموماً ماورائی ہستیوں کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں ان لوگوں کو (Agnostic Atheist) کہا جاتا ہے۔

3ڈی ازم (Deism) یہ نظریہ خدا کو صرف ایک خالقِ کائنات کی حد تک ماننے کا اصرار کرتا ہے، یعنی ان کے مطابق خدا کائنات کو وجود میں لا کر اس کے مقرر قوانین بنا کر خود کو معطل کر چکا ہے، لہذا نظام کائنات میں اب کسی ہستی کی مداخلت نہیں ہے، بلکہ اب یہ ایک آٹومیٹک گھڑی کی طرح خود بخودچل رہی ہے۔

      الحاد کے پاس درحقیقت نہ تو کوئی بنیادی مقدمہ ہے اور نہ ہی علمی استدلال، بلکہ سراسر باطل تاویلات اور ظن و تخمین پر قائم ہے، ان ملحدین کی طرف قرآن نے بھی اشارہ کر کے ان کی حقیقت کو واضح کیا ہے، ” وقالوا ما هي الا حياتنا الدنيا نموت و نحيا وما يه‍لكنا الا الده‍ر وما لهم بذالك من علم ان هم الا يظنون “ یہاں پر اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ ”ملحدوں دہریوں اور منکرین خدا کے پاس انکار خدا کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ محض اٹکل اور بلا ثبوت بات کرتے ہیں“ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے سے ہی بعض افراد الحاد و دہریت کے قائل کسی نہ کسی درجے میں رہے ہیں۔

                        عالمی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ الحاد و دہریت کبھی کسی خاص قوت کی شکل میں دنیا میں اب تک نہیں آئی ہے، یا تو دنیا میں توحید کا غلبہ رہا یا پھر شرک کا، علاوہ بدھ مت کے خدا کا تصور ہر حال میں اور ہر زمانے میں رہا ہے، مگر اٹھارویں صدی سے جوں ہی فلسفے اور سائنس نے اپنے بال و پر کو پھیلانا شروع کیا اور مغرب میں اس کا عروج شروع ہوا تو موجودہ الحاد روشن خیالوں اور مادیت پرستوں کے ذہنوں میں نئے نئے افکار و خیالات کی صورت میں پیدا ہونے لگا، کسی نے کائنات کی توجیہ کرنی چاہی، کسی نے کائنات کو طبعی اصولوں پر کاربند ہونے کا فلسفہ پیش کیا، کسی مغربی مفکر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ کائنات مادے کا ایسا مجموعہ ہے کہ جو ہمیشہ سے ایسے ہی موجود ہے اور اس کا کوئی نقطۂ آغاز نہیں ہے، ان تمام افکار و نظریات کے پس پردہ الحاد و دہریت کو فروغ ملتا رہا، بڑے بڑے مغربی مفکرین نٹشے ماہر فلسفہ (philosophy) مارکس ماہر معاشیات (Economic) ڈرخم ماہر عمرانیات (Sociology) فرائڈ ماہر نفسیات (Psychology) یہ سب الحاد و دہریت کے نمائندے بن گئے، حتی کہ انہوں نے فلسفہ اور سائنس کی مختلف شاخوں کے علم کو الحادی بنیادوں پر منظم کر دیا، بالخصوص چارلس ڈارون (Charles Darwin) نے جب تخلیق کائنات کے نظریے کے متبادل نظریۂ ارتقاء کو پیش کیا، تو گویا کہ ڈارون نے صدیوں کی اس گتھی کو سلجھا دیا جس نے ملحدین کو پریشان کر رکھا تھا کہ انسان اور جاندار اشیاء کس طرح وجود میں آتی ہے، یہ نظریہ پیش ہونا تھا کہ گویا الحاد کو اپنے عروج کے لیے ایک نئی شاہراہ دریافت ہو گئی، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے خدا تعالی کی خالقیت اور مالکیت کا انکار کر کے اس بات کے قائل ہو گئے کہ فطرت میں ایک ایسا آٹومیٹک نظام موجود ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادہ حرکت پذیر ہو کر عربوں کی تعداد میں موجود جاندار اشیاء کی صورت میں اختیار کر لیتا ہے۔

        انیسویں صدی کے آخر تک ملحدین نے ایسا نقطہ بنا لیا جو ان کے خیال میں کائنات سے متعلق تمام سوالوں کا جواب دیتا تھا، یعنی تخلیق کائنات اور اس میں موجود حیوانات و نباتات کے بارے میں نظریہ ارتقا کو اپنا لیا، لیکن پھر اسی صدی میں بگ بینگ تھیوی (big bang theory) نے نظریہ ارتقا (Theory of Evolution) کو غلط ثابت کر دیا، اس تھیوری کے مطابق کائنات توانائی کی ایک بہت بڑی گولے کی شکل میں موجود تھی، جو ایک بہت بڑے دھماکے (بگ بینگ ) کے نتیجے میں مادے کی صورت اختیار کر گیا، اس نظریے کو ماننے کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کے خالق کو تسلیم کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ اس صورت میں یہ بھی امکان ہے کہ دھماکہ دینے والا کوئی ما فوق الفطرت ہستی (خدا) ہو، اسی وجہ سے بعض متعصب ملحد سائنسدانوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، لیکن مزید سائنسی تحقیقات نے جب اس نظریہ کو دلائل سے قوی کر دیا جس سے پھر سائنس دانوں میں خدا کے ماننے کی تحریک پیدا ہوئی، تاہم الحاد کا سیل رواں یو ہی آزاد ذہنوں کو مسخر کرتا رہا۔

دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں وہ بالعموم توحید یا شرک کی صورت میں ذات خداوندی کے قائل رہے ہیں، اور الحاد کی عمارت دراصل تصور خدا کے انکار پر قائم ہے، لہذا اب ملحدین مذاہب کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ مذہب دراصل قدیم انسانوں کی ایجاد ہے جسے انہوں نے اپنے فہم سے بالا تر سوالوں کے جواب نہ ہونے کی بنا پر محض ذہنی تسکین کے لیے وضع کر لیا تھا، لیکن چونکہ اب فلسفہ اور سائنس نے ان تمام لا ینحل سوالات کے جوابات بتا دیے ہیں جس سے وہ پہلے لاعلم تھے، اور ان چیزوں کی توجیہ بھی کر دی جس کی توجیہ سے عقل انسانی عاجز تھی، لہذا اب کسی خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ” خدا کا تصور اپنی افادیت کے آخری مقام پر پہنچ چکا ہے، اب وہ مزید ترقی نہیں کر سکتا، ما فوق الفطری طاقتیں دراصل مذہب کا بوجھ اٹھانے کے لیے انسانی ذہن نے اختراع کی تھی، پہلے جادو پیدا ہوا پھر روحانی تصرفات نے اس کی جگہ لی، پھر دیوتاؤں کا عقیدہ ابھرا اور اس کے بعد ایک خدا کا تصور آیا، اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر کر مذہب اپنی آخری حد کو پہنچ کر ختم ہو چکا ہے، کسی وقت یہ خدا ہماری تہذیب کے ضروری مفروضے اور مفید تخیلات تھے، مگر اب جدید ترقی یافتہ سماج میں وہ اپنی ضروریت اور افادیت کھو چکے ہیں “  مثلاً گزشتہ زمانوں میں جب لوگوں نے سورج کو طلوع و غروب ہوتے دیکھا تو ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ اس کے پسِ پردہ ایک عظیم الشان اور مافوق الفطرت ہستی کے وجود اور اس کی دخل اندازی کو تسلیم کر لیں، اسی طرح دیگر بہت سے سوالات جس کی بابت ان کے پاس کوئی جواب نہ ہونے کی بنا پر انہوں نے ایک غیبی ہستی (خدا) کو تجویز کر لیا تھا، لیکن چونکہ اس دور میں اب ہمیں ان چیزوں کی علتیں اور فطری اسباب معلوم ہو چکے ہیں مثلاً ہم یہ جان گئے ہیں کہ سورج در حقیقت طلوع و غروب نہیں ہوتا بلکہ زمین گردش کرتے ہوئے اس کے سامنے آ جاتی ہے اور پھر ہٹ جاتی ہے، اس وجہ سے اب سورج کو کنٹرول کرنے والے خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح مرغی کا بچہ انڈے کے خول کے اندر پرورش پاتا ہے، اور خول ٹوٹنے سے باہر آتا ہے، جب سوال پیدا ہوا کہ یہ خول کیسے ٹوٹتا ہے، تو پہلے زمانے میں لوگ اس کا یہ جواب دیتے تھے کہ خدا ایسا کرتا ہے، مگر اب خورد بینی مشاہدے کے ذریعے معلوم ہوا کہ 21 روز کی مدت پوری ہونے پر ننھے بچے کے چونچ پر ایک نہایت چھوٹی سی سخت سینگ ظاہر ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ خول توڑ کر باہر آ جاتا ہے، لہذا یہاں بھی جب انڈے کا خول ٹوٹنے کا سبب معلوم ہو گیا تو اب خول توڑنے والے کسی خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اگر ہم اس نقطہ نظر اور کائنات و مخلوقات کی اس توجیہ کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنس نے اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا کہ پہلے سے جو کچھ تفصیلات معلوم تھی سائنس نے ان معلومات میں مزید اضافہ کر دیا ہے، یعنی حقائق کے مشاہدے کے دائرے مزید وسیع تر کر دیا ہے، نہ ہی یہ کوئی توجیہ ہے اور نہ ہی ان علتوں کو جان لینے اور مان لینے کی صورت میں خدا کا تصور کسی طرح بھی بےکار قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ مرغی کے بچے کا انڈے کے خول سے باہر آنے کے بارے میں سائنس نے جو جواب دیا ہے وہ اس کی مکمل توجیہ ہے ہی نہیں، بلکہ وہ واقعہ کہ صرف مزید علم ہے، جس سے واقعہ کے چند اور مناظر معلوم ہو گئے، اس نے واقعے کا اصل سبب نہیں بتایا، اس مشاہدے کی صورتحال میں جو فرق پیدا ہوا وہ صرف یہ ہے کہ پہلے جو سوال کھول کے ٹوٹنے کے بارے میں تھا، وہ اب سینگ کے اوپر جا کر ٹھہر گیا، بچے کا اپنی سینگ سے خول توڑ کر باہر آنا واقعے کی صورت کی صرف ایک درمیانی کڑی ہے وہ واقعے کا سبب نہیں ہے، واقعہ کا سبب اس وقت معلوم ہوگا جب یہ جان لیں کہ چونچ پر سینگ کیسے ظاہر ہوا ؟ اور بچے کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ خول توڑنے کے لیے کسی سخت نوکیلے دار چیز کی ضرورت ہے ؟ جس کی مدد سے وہ خول سے باہر آے، اس کو ایک اور مثال سے سمجھیں کہ کسی ڈھکن بند مشین کو اگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ چل رہی ہے، اگر ہم اس کی ڈھکن اتار کر اس کی مشینی سسٹم کو دیکھیں کہ اجزا ایک دوسرے سے کس طرح باہم جڑے ہوئے ہیں، اور یہ کہ باہر کا چکر کس طرح ایک اور چکر کی مدد سے چل رہا ہے، اور وہ چکر کس طرح دوسرے بہت سے پرزوں سے مل کر حرکت کرتا ہے، یہاں تک کہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے سارے پرزوں اور اس کی پوری حرکت کو دیکھ لیں، مگر کیا اس علم کی یہ معنی ہیں کہ ہم نے مشین کے خالق اور اس کے سبب حرکت کا راز بھی معلوم کر لیا، کیا کسی مشین کے کارگردگی کی تفصیلات کو جان لینے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بخود بن گئی، اور اپنے آپ چل رہی ہے، اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے، تو کائنات کی کارگردگی کے بعض جھلکیاں دیکھنے سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ یہ سارا کارخانہ اپنے آپ قائم ہوا ہے، اور آپ سے آپ چل رہا ہے،  مولانا وحید الدین خان صاحب اسی کو لکھتے ہیں ” یہ ساری دریافتیں صرف واقعے کی تصویر ہیں واقعے کی توجیہ نہیں ہیں، سائنس یہ نہیں بتاتی کہ فطرت کے قوانین کیسے بن گئے، وہ کیسے اس قدر مفید شکل میں مسلسل طور پر زمین و آسمان میں قائم ہے، اور اس صحت کے ساتھ قائم ہے کہ ان کی بنیاد پر سائنس میں قوانین مرتب کیے جاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ فطرت جس کو معلوم کر لینے کی وجہ سے انسان یہ دعویٰ کرنے لگا ہے کہ اس نے کائنات کی توجیہ دریافت کر لی وہ محض دھوکہ ہے یہ درمیانی کڑی کو آخری کڑی قرار دینا ہے۔ ( مذہب اور جدید چیلنج ص 19)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سائنس کے تمام انکشافات و اختراعات موجودات و کائنات کی توجیہ ہرگز نہیں ہو سکتی بلکہ اس نے صرف ہمارے مشاہدے کی قوت کو وسیع پیمانے پر مزید قوی ترین کر دیا کہ دور بینوں کے ذریعے افلاک سے آگے کی چیزوں کو نگاہوں کے سامنے کر دیا اور خورد بینوں کے ذریعے غیر مرئی اشیاء کو بھی آنکھوں کی گرفت میں لے آیا، واقعات کے سلسلے کو جاننا نہ واقعات کی توجیہ ہے اور نہ ہی اس سے کسی مسبب الاسباب کے انکار کے لیے راستہ نکلتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے