Header Ads Widget

ہر لفظ ترا دل میں چبھن چھوڑ رہا ہے

ہر لفظ ترا دل میں چبھن چھوڑ رہا ہے


از قلم: محمد عمران نیپالی

متعلم: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ یوپی الہند


اللہ رب العالمین نے ہم انسانوں کی تخلیق فرمائی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی، اسی لیے ہم پر ضروری ہے کہ کچھ لکھنے یا کوئی کام کرنے سے پہلے بار بار سوچیں، اگر ہم کسی انسان کو نصیحت کرنا چاہ رہے ہیں تو اس کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے اور کون سا طریقہ اپنائیں گے تو نصیحت کار آمد ثابت ہوگی، آج ہر کوئی اپنے کو  ناصح باور کروانے کے در پہ ہے لیکن ناصح کے لیے اللہ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا طریقے بتائے ہیں اسے ہم بھول بیٹھے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا  ہے کہ جنھیں ہم نصیحت کرتے ہیں وہ نصحیت حاصل کرنے کے بجائے بغاوت پر اتر آتے ہیں اور وہیں سے طرح طرح کے فسادات جنم لینا شروع کر دیتے ہیں، آج مجھے اس عنوان پر خامہ فرسائی کی سخت ضرورت محسوس ہوئی ورنہ میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ جب تک سالانہ امتحان اختتام پذیر نہ ہوجائے اس سے پہلے درسی کتابوں کے علاوپہ کچھ نہ لکھوں گا،  لیکن آج ایسی ضرورت آن پڑی کہ جنشِ قلم کی نوبت آئی۔

معزز قارئینِ کرام!

             آئیے سب سے پہلے ہم یہ جانتے ہیں کہ نصیحت کرنے کے سلسلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا کیا فرمان ہیں؟ قرآن مجید جو اللہ رب العالمین کا مقدس کلام ہے وہی قرآن پاک ہم ناصح کو یہ پیغام دے رہا ہے  کہ نصیحت  اخوت اور محبت پر ہو، اس میں کسی قسم کی درشت کلامی اور سختی نہ ہو، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ۞ اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ۞

ترجمہ: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے انداز سے نصیحت کے ذریعے دعوت دو، اور ان سے مناظرہ کرو تو بہترین طریقے سے، بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔[النحل: 125]

جب ہم اس آیت کریمہ میں غور و خوض کرتے ہیں تو ہمیں مندرجہ ذیل پیغامات ملتے ہیں کہ بے شک کسی کا دعویٰ اور موقف کتنا ہی جھوٹا ہو اس کے باوجود اسے دین کی دعوت حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ دینا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو طبعًا اور فطرتًا نرم خو اور ہمدرد پیدا فرمایا تھا، آپ مشکلات پر صبر کرنے والے، مخالفوں کی مخالفت کا جواب رحاب صدری کے ساتھ دینے والے، اور بدترین دشمن کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔ آپ (ﷺ) نے زندگی بھر کسی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دیا آپ کے اعلیٰ اخلاق کی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یوں تعریف کی گئی ہے:

”لوگو! تمہارے پاس تمھیں میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اسے نہایت ہی گراں گزرتی ہے وہ تمہاری کامیابی کی بہت ہی چاہت رکھتا ہے۔ مومنوں کے ساتھ نہایت مہربان اور شفقت کرنے والا ہے۔“ (التوبۃ:128)

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو اعلیٰ اخلاق اور بے حساب صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا لیکن اس کے باوجود آپ کو حکم ہوا کہ آپ حکمت، دانائی اور بصیرت کے ساتھ لوگوں کو دین حنیف کی طرف دعوت دیں اگر کسی وقت بحث و تکرار کی نوبت آئے تو اس میں بھی حسن اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں۔ آخر میں فرمایا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کون اس کے راستے سے بھٹک چکا اور کون ہدایت پانے والوں میں شامل ہے۔ حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ موقع محل اور لوگوں کی فکری استعداد کے مطابق بات کی جائے۔ اس کے ساتھ اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ لوگ کس حد تک سننے میں آمادگی رکھتے ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وعظ و نصیحت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ داعیِ الی اللہ کے اسلوب اور انداز میں سنجیدگی، خیر خواہی اور ہمدردی کا پہلو غالب ہو کیونکہ موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سامع کے دل پر اثر انداز ہو سکے۔

اللّٰہ رب العزت کے ارشادات جاننے کے بعد جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل احادیث ہماری آنکھوں کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے، ملاحظہ فرمائیں:

(عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَتَخَوَّلُنَا بالْمَوْعِظَۃِ فِی الأَیَّامِ، کَرَاہَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا) [ رواہ البخاری : باب الموعظۃ ساعۃ بعد ساعۃ ]

” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کچھ دن ہمیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیتے کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔“

(عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ مَآ أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لاَ تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلاَّ کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً) [ رواہ مسلم فی المقدمۃ، باب النَّہْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ]

” حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ تم کسی قوم کو ایسی بات نہ کہو جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہے جو لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بن جائے۔“

 

پیارے احباب!

             مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنا بہترین طریقہ کار سکھایا ہم اسے کیوں کر بھول جاتے ہیں، ہم پر لازم ہے کہ نصیحت کرتے وقت رب ذوالجلال اور رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ کار کا خیال رکھیں، جب بھی رسول اللہ ﷺ نصیحت فرماتے تو ان کا نفس درمیان میں نہ آتا کیونکہ آپ ﷺ دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر پل فکر مند رہتے اس کی بے شمار مثالیں ہیں، مکہ مکرمہ میں رسول اکرم ﷺ کی بہت مخالفت ہوئی، الفاظ کا استعمال ہو یا عمل کا میدان، کفارِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی سخاوت یا نرمی نہیں برتی لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان سے صبر، مہربانی اور نرمی کا معاملہ فرمایا اور امید رکھی کہ آخر میں انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوجائے گا اور وہ انہیں اپنے بہترین مفاد میں نیکی پر آمادہ کرلیں گے۔ آنحضرت ﷺ مخالفین پر فتح پانا اپنا مقصد نہیں بنائے ہوئے تھے بلکہ تاحیات انہیں جنت کا راستہ دکھاتے رہے۔ 

آج کل سنتِ نبوی کے برعکس اعمال دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ لوگ نصیحت کے نام پر مشورے تو دیتے ہیں لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کو نیچا دکھایا جائے۔ 

اسی مناسبت سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو اپنے بھائی کو پوشیدہ رہ کر سمجھاتا ہے، وہ اس کی خیرخواہی کرتا ہے،  اور اس کی زینت کا باعث ہے، اور جو اعلانیہ نصیحت کرتا ہے وہ اسے رسوا کرتا اور معیوب ٹہراتا ہے،  [منھاج المسلم: ص 196]  

دوسروں کو نصیحت کرنا کوئی عیب نہیں، اپنے خاندان اور معاشرے کی بہتری کے لیے بہت ضروری ہے تاہم نصیحت سے قبل اس کی اہمیت، فضیلت اور آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا لازم بھی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کے لئے دوسروں کو نصیحت کرنا کارِ ثواب ہے جس پر اجر ملتا ہے۔ اپنے آپ کو بہتر بنانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

کاش ہمیں بھی اِصلاح کا ڈھنگ آجائے، ہمارا تو اکثر حال یہ ہو تا ہے کہ اگر کسی کو سمجھانا بھی ہو تو بلاضرورتِ شرعی سب کے سامنے نام لے کر یا اُسی کی طرف دیکھ کر اس طرح سمجھاتے ہیں کہ انکے راز و عیوب سے پردہ اٹھ جاتا ہے،  وجہِ تحریر بھی ذکر کردوں وہ یہ کہ شوشل میڈیا کے دور میں جہاں "فیسبک" کا استعمال عروج پر ہے، وہاں ماشاء اللہ ہمارے علماء کا بھی گروہ کثیر تعداد میں موجود ہے جو تحریر و تقریر کے ذریعے اصلاح کا کام کررہے ہیں، کچھ نام نہاد لوگ اپنے اسماء کے ساتھ ندوی، قاسمی، مظاہری اور اصلاحی و فلاحی کا لیبل لگائے اور دیگر القاب چسپاں کئے ہوئے ہیں لیکن اخلاق سے بالکل عاری اور خالی ہیں، وہ دھڑلے سے کسی کی پوسٹ پر نازیبا کمینٹ کردیتے ہیں سوچتے بھی نہیں کہ اس کمینٹ سے مخاطب تک کیا پیغام جائے گا، یہ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے بڑے بڑے ادارے سے علوم حاصل کرکے ڈگریاں تو اپنے نام کرلیں لیکن اسوۂ حسنہ نہیں سیکھا، یہ بات ہمیشہ سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ محض نسبت (اپنے نام کے آگے ندوی، قاسمی، مظاہری، لگالینے) سے اشیاء کی حقیقتیں بدل نہیں جاتیں، اگر آپ اتنے ہی خیرخواہ اور دیندار انسان ہیں تو مخاطب کو پرسنل پر نصیحت کریں نہ کہ شہرت پانے کی غرض سے اعلانیہ کمینٹ (تبصرہ) کریں۔

خود اپنے ضمیر سے ہی پوچھ لیجیے کہ اگر اس جگہ آپ ہوتے تو آپ کو کیا اچھا لگتا؟ اس اسلوب سے معاشرہ میں تبدیلی آئیگی یا مزید فساد و بگاڑ سے معاشرہ دوچار ہوگا کسی نے زبردست عکاسی کی ہے

ناصح تجھے آتے نہیں آدابِ نصیحت

ہر لفظ ترا دل میں چبھن چھوڑ رہا ہے

 لہٰذا تمام احباب سے خاکسار کی مؤدبانہ درخواست ہے کہ نرمی لطافت  سے نصیحت کریں، خفگی کا اظہار نہ کریں، سخت وسست جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں، بسا اوقات خشونت ودرشتی سلجھے ہوئے کاموں کو بھی الجھادیتی ہے، موقع ومحل دیکھ کر نصیحت کریں، بے موقع نصیحت کا اثر الٹا پڑتا ہے، بے محل گفتگو کرنے سے بھی مخاطب پر اچھا اثر نہیں پڑتا بلکہ ایک طرح کا تکدر پیدا ہوجاتا ہے، جو قبولِ نصیحت کے لیے مانع بن جاتا ہے۔

 اس لیے ناصح کو حکمت سے کام لینا چاہیے، نصیحت کے لیے عمدہ الفاظ اور اچھے اسلوب کو اختیار کرنا چاہیے، نصیحت کرتے وقت ناصح سب سے پہلے خود کو مخاطب سمجھیں، سامنے والے شخص کو مخاطب نہ سمجھیں، نصیحت کا جواب اگر تلخی سے بھی ملے تو ہمت نہ ہاریں، ناصح کی ہمیشہ یہی تاریخ رہی ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کے بجائے بد سلوکی کی گئی ہے، پھولوں کے تاج کے بجائے کانٹوں کا تاج پہنایا گیا ہے، اسے خیر خواہ سمجھنے کے بجائے بدخواہ سمجھاگیا ہے، انبیاء اور مصلحین قوم کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے، اس لیے کام کرتے رہنا چاہیے،  اللہ سب سے پہلے مجھے اس کے بعد تمام امت مسلمہ کو لکھی گئی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین یا رب العالمین)


                      

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے