Header Ads Widget

مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ارتداد ، مشکلات و تدابیرِ انسداد

مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ارتداد ، مشکلات و تدابیرِ انسداد

مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ارتداد ، مشکلات و تدابیرِ انسداد


از: عبداللہ ثاقب

ارتداد اسلام کی نظر میں ان چند سخت ترین نافرمانیوں اور نا ہنجاریوں میں سے ایک ہے ، جس کی سزا اسلامی ریاست میں قتل ہے ۔

دور نبوی و بعد ازیں کے بیشتر واقعات کتبِ تاریخ میں بھرے پڑے ہیں کہ مرتدین کو قتل کیا جائے ۔

جس طرح اسلام کے صدر اول میں باطل طاقتیں کمزور مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کی گوناگوں کوششیں کیا کرتی تھیں ، اسی طور آج بھی یہ ایک طبقۂ مخصوصہ کی جانب سے جاری ہے ۔

مگر فرق یہ ہے کہ اس بار خالص لڑکیوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، بعض اوقات یہ کارستانیاں نفسانی و بدنی عیش کوشی پر موقوف ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات بلکہ اکثر اس میں ملوث مرد و خواتین کو دین سے کلی بازگشت کی طرف لے جاتی ہیں ۔

اول تو ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کسی غیر مسلم لڑکے سے مسلم لڑکی کے تعلق کو جس طرح ناروا اور غیر اسلامی سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح ہم کسی مسلمان لڑکے کا غیر مسلم لڑکی سے تعلق کو بھی صریح غلط اور حکم خداوندی سے بغاوت گردانتے ہیں ۔

یہاں بات غور طلب یہ ہے کہ "بھگوا لو ٹریپ" (Bhagwa love trap) کی شروعات کچھ بنیادوں پر ہوئی ، جس میں دو بنیادیں اہم ہیں ، جن کو ہم یہاں بیان کرنا چاہتے ہیں ۔

اولا تو اس تحریک کے سربراہوں نے دو باتیں کہیں : 

١ : کہ مسلمان نوجوانان غیر مسلم لڑکیوں کو عشق و محبت فریب میں الجھا کر ان کو مسلمان کر رہے ہیں ، ہمیں اس کا بدلہ لینا ہے .


 ٢ : ہم کو اس قوم کو کمزور کرنا ہے اور ان کو ختم کرنا ہے سو بظاہر غیر سیاسی طریقہ یہ اپنایا جائے کہ ان کی لڑکیوں کو دامِ محبت کا شکار کیا جائے اور ان سے شادی کی جائے ، بعد ازاں جو بن پڑے سو کر لیں ہم اس پر خاموش ہیں ۔

یہ دو  بنیادی وجوہات رہیں اس تحریک کے شروع ہونے میں ، اگر غور کریں گے تو آپ کو مزید اس کی وجوہ مل جائیں گی مگر ہمیں یہاں ان سے بحث نہیں ۔

اب آپ اس پر توجہ دیں کہ یہ دونوں بنیادیں منتقمانہ اور مدافعانہ حیثیت رکھتی ہیں ، ہندو بنیاد پرستوں نے یہ بات تقریبا ١٠٠ سال سے اپنے حلقے میں رائج کی ہوئی ہے کہ مسلمان یہاں کے اول درجے کے شہری نہیں ، چونکہ وہ باہر سے آئے تھے اور ہم پر مسلط ہیں ، سو اس کے آگے ان کے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام پذیر ہوئے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔


اس وقت مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا مسئلہ زوروں پر ہیں ، اس کے کرنے والے کھلے بندوں اس کو کر رہے ہیں مگر ہماری توجہ اجتماعی سطح سے اس پر بالکل نہیں ہے ، ہم "پدرم سلطان بود" کے نشے میں مست اپنے ارد گرد کے حالات سے بے خبر زمانے کی رو پر بہتے چلے جا رہے ہیں ۔

اب ہم یہاں مسلم لڑکیوں کے اس درجہ متأثر ہو جانے اور اس پر شدت اختیار کر جانے کی چند وجوہات بیان کریں گے ، جو ہماری نظر میں بنیادی ہیں بلکہ وہی بنیادی ہیں ۔(واللہ اعلم بالصواب)


١ : اعتقادی مسائل پر گھروں میں اور مکاتب میں اس زور سے بات نہ ہونا جس زور سے حجاب ، نماز ، قرآن پڑھنا وغیرہ پر بات ہوتی ہے .


٢ : شرک و کفر کو جس شدتِ بیان کے ساتھ اللہ غلاظت سے تعبیر کرتا ہے ، اس زور اور شدت کے ساتھ اس کو نہ سمجھنا اور نہ سمجھانا ۔


٣ : غیر مسلموں کے تعلق سے بنا ایک عام ذہن کہ سب بھائی بھائی ہیں ، کسی سے دلی دوستی روا رکھنا نہ یہ کہ بالکل جائز ہے بلکہ مستحسن ہے ۔


٤ : اپنی اولاد سے اس کے دوستوں کے بارے میں لا علمی اختیار کرنا کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں ؟ ۔


٥ : اپنی اولاد کو زمانے کی رفتار کا "لحاظ" کرتے ہوئے اور اس کی آب و ہوا کے زیر اثر "مکمل آزادی" (absolute freedom) مہیا کرنا ۔


میرے نزدیک یہ پانچ بنیادی وجوہ ہیں جن کی بنا پر لڑکیاں اس راہِ بے منزل کی جانب چل پڑتی ہیں اور پھر اس دیوار سے ٹکرا کر چور ہو جاتی ہیں کہ جس کا اندازہ بھی ان کو نہیں ہوتا ۔


یہاں ایک بنیادی غلطی اور ہے جو کہ اجتماعی غلطی ہے اس کو ہم انفرادی غلطیوں میں شامل نہیں کر سکتے ، وہ یہ کہ اس طرح کے جتنے بھی مسائل ہمارے سامنے آتے ہیں وہ ٩٠ فیصد نچلے درمیانی طبقے ( lower middle class) سے تعلق رکھتے ہیں  ، جہاں ایک اہم مسئلہ پیسوں کا ہوتا ہے ، نچلا درمیانی طبقہ عموما دیگر طبقات کی بنسبت اس چکاچوند سے جلد متأثر ہوتا ہے ، جو ایسے میں دکھائی جاتی ہیں ، یہاں غلطی یہ ہے کہ جب تک ہم اس طبقے کی نصرت ہر طریقے سے نہیں کرتے تب تک یہ واقعات تو بند ہونے سے رہے ۔

اسلام میں زکوٰۃ اور فطرے کا جو نظام ہے اس کی مصالح بھی تقریبا یہی ہیں ، سو ہماری ذمہ داری اور دنوں کے بالمقابل ان دنوں اِس لحاظ سے دوگنی اور چوگنی ہو جاتی ہے کہ ہمیں اس طبقے کا خاص خیال رکھنا پڑے گا اگر من حیث القوم کچھ سوچتے اور سمجھتے ہیں ۔


اب ہم ان مشکلات کے حل اور ان کے انسداد کی تدابیر کی طرف توجہ دیتے ہیں کہ ان کے حل اور تدابیرِ انسداد عصرِ حاضر کے لحاظ سے کیا کیا ہو سکتی ہیں ، ممکن ہے کہ کسی اور کے ذہن میں  اس کے علاوہ بھی کچھ نکات ہوں مگر چونکہ ہمارے تعلق ایک عرصے سے ایسے حلقے سے ہے جو نِرا اسکول بیک گراؤنڈ سے آتا ہے اور سب سے زیادہ وہی اس سے متاثر ہے ، سو ہم اس کو ہی پیشِ نظر رکھتے ہیں 


١ : بچوں کو شروعات سے اعتقادی مسائل بہت توجہ اور انہماک سے پڑھانے اور بتانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کے خلاف کسی بھی نظریے کو پہلی نظر میں بھانپ سکیں ، اگر آپ کے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور سنِ بلوغت کو پہونچ گئے ہیں تو ضرور ہے کہ ان کو اعتقادات کی بابت عقلی معیار پر بتایا جائے ، چونکہ یہ دور عقل پسندی اور سائنس کا دور ہے لہذا مکاتب کے اساتذہ کو اعتقادات کے معاملے میں تھوڑا سا عقلی معیار پر رکھ کر سمجھانا ہوگا ، جس سے کہ اعتقادات میں عمر کی زیادتی کے ساتھ پختگی آتی جائے ۔


٢ : شرک و کفر کی بابت علما سے معلومات حاصل کر کے اس کو مکمل گھروں میں بیان کیا جائے تاکہ اولاد سمجھے کہ اسلام کی نظر میں ایک مسلمان اور ایک غیر مسلمان بھائی بھائی کیوں نہیں ہو سکتے اور ان سے دلی تعلقات کیوں روا نہیں رکھے جا سکتے ۔

٣ : یہ بات تو مسلم و غیر مسلم سب کے لیے ہے کہ اپنے دوست و احباب کو کہ مسلم ہوں یا نا مسلم ہوں گھر والوں سے ملاقات کرانے میں اجتناب برتا جائے ، یہ تعلق کے شروعات کی ابتدا بنتی ہے ۔


٤ : تمام والدین کو اپنی اولاد کی فکر رہتی ہے ، سو اس فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنی اولاد کے دوست و احباب کے بارے میں مکمل علم رکھیں ، حالات کی نازکی دیکھتے ہوئے ان پر نظر رکھنا از حد ضروری ہے ، وگرنہ انجام سے آپ بھی خوب واقف ہیں ۔


یہ تو ہوئیں والدین کے لیے کچھ معروضات ، جو کہ تمام والدین کے لیے لازم ہیں کہ اتنا تو کم از کم کریں ۔


اب علما و صلحا کے لیے ایک لائحہ عمل کے طور پر چند باتیں ادب کے ساتھ عرض ہیں ، امید ہے کہ وہ اس پر غور کرکے عمل میں لائیں گے ۔


١ : اگر آپ کسی مسجد کے امام ہیں تو کم از کم جمعہ کو اس پر باقاعدہ بات کریں ، لوگوں کو اس بارے میں سنجیدہ کریں ، اگر آپ کی اہلیہ ، بہن یا ماں بات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں ورنہ آپ کی ہفتہ وار خواتین کا اجتماع اپنے گھر میں کریں اور محلہ کی عورتوں کو بلائیں اور اس بابت جو کچھ مذکورہ بالا نکات میں آیا ہے اس کو بیان کریں ، یا اپنے طور سے جو مناسب سمجھیں ۔

٢ : اگر آپ کسی مدرسے کے ذمہ دار ہیں تو وہاں باقاعدہ خواتین کے لیے تربیتی کیمپ لگائیے ، جس طرح حجاج کے واسطے تربیتی کیمپ لگتے ہیں اور نوجوان علما سے جو ان تمام حالات سے بخوبی واقف ہیں ، اور موجودہ رائج زبان سے اچھی طرح واقف ہوں بات کروائیں ، اپنے مدرسے میں زیر تعلیم طلبہ اور تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو اس جانب متوجہ کریں ۔


٣ : اگر آپ اپنے شہر اور اطراف شہر میں لوگوں سے واقفیت رکھتے ہیں ، نوجوانوں سے واقفیت رکھتے ہیں تو اول تو نوجوان لڑکوں سے (جو کارآمد ہوں) اس بابت بات کریے کہ وہ اپنے محلے کی لڑکیوں کے تعلق سے تھوڑا واقف رہیں ، اپنے اعزا کے سامنے ان تمام حالات کی نزاکت کو واضح کریے اور ان کو اپنے گھر کے بارے میں سنجیدہ ہونے پر آمادہ کریے ، مسجد مسجد جاکر لوگوں سے بات کریے اور اگر ممکن ہو تو مسجد میں ہی خواتین کا کم از کم مہینے میں ایک بار تو اجتماع رکھیے اور اس میں اس موضوع کے متعلق گفتگو کریے ۔


٤ : اگر آپ سوشل میڈیا پر اکٹیو ہیں اور یوٹیوب پر آپ کا چینل ہے اور وییوز کی تعداد اچھی ہے تو اسلامی بنیادی عقائد کی تشریح کیجیے اس کو عقلی پیمانوں پر سمجھائیے ، اپنے انسٹاگرام ، فیسبک اور وہاٹس ایپ ہر سوشل میڈیا کاؤنٹ پر اس کو شیئر کریے ، یہ ذاتی طور پر ہمارا آزمودہ عمل ہے جو کہ نہایت فائدے مند ہے ۔

یہ کچھ خیالات تھے جو کئی روز سے ذہن میں گردش کر رہی تھیں ، اگر آپ کی اس کے کسی جز سے بھی اتفاق ہے تو اس کو خالص رضائے الٰہی کے واسطے اپنے عمل میں لائیں اور اپنے اعزا و اقربا میں شیئر فرما دیں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے