Header Ads Widget

حق گوئی، مجاہد مومن کا شیوا ہے

 حق گوئی، مجاہد مومن کا شیوا ہے




اگر بادہ خوار کو مے خانے کی عقیدت یا ساقی کی ناراضی، اظہار حق سے روکتی ہے تو یقینا وہ اندھی عقیدت کے بوجھ تلے اپنی مردہ ضمیری کی لاش اٹھاۓ پھر رہا ہے۔وہ اپنے من پسند کے مزاج آمرانہ پر خدا و رسول کی خوشنودی قربان کر رہا ہے۔سیدھا سیدھا یہ کہ لیں کہ وہ دنیوی منافع کے لیے دین کو داؤ پر لگا رہا ہے۔

حق گوئی و بے باکی مومن کا شیوا ہے۔مومن کی مثال شیر جیسی ہے وہ اپنے معاملات میں وضوح رکھتا ہے کسی روباہی سے کام نہیں لیتا۔اور اگر دنیا طلبی بحال رکھنے کی پالیسی، اظہار حق سے مانع ہے تب تو یہ اور بھی بڑا جرم ہے۔مومن تو جابر حکومت کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر حق و صداقت کا برملا اعلان کر دیتا ہے۔وہ کسی بھی قسم کے ڈر کو خاطر میں نہیں لاتا۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر صالح مومن کی ڈیوٹی ہے۔اگر ایسا نہیں کرتا تو وہ بالواسطہ کتمان آیت کا مجرم ہے۔سنن نسائی میں ایک باب ہی اسی پر باندھا ہے۔باب: فضل من تکلم بالحق عند امام جائر۔ حضرت طارق بن شہاب نے پوچھا کہ کونسا جہاد افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا امام جائر (ظالم حکمران)کے سامنے حق بات کہنا۔


ہمارے سامنے عمائدین امت و سرخیلان شریعت کی روشن سیرت موجود ہے۔انہوں نے مشقتیں، صعوبتیں برداشت کیں، سخت ابتلا و آزمائش کے برے دور سے گزرے، مطلق العنان حکومتوں کے آزار سہے، مگر معاملات دین میں کسی طرح کی مصالحت پر راضی نہ ہوۓ۔یہ علماۓ حق کے وہ قافلے تھے جو الگ الگ دور میں الگ لگ شکل و صورت میں مجاہدانہ تیور کے ساتھ ظاہر ہوۓ اور اپنی میعاد میں نقش وفا چھوڑ کر گزر گئے۔

تیسری صدی ہجری کا نصف اول گزر چکا تھا۔شہر بخارا میں حضرت امام بخاری کے حدیث کے دروس جاری تھے۔بس کیا تھا کہ امام کے ابتلا کی گھنٹی بج اٹھی۔حاکم بخارا کا کہنا تھا کہ شاہی خاندان کے بچوں کو محل میں آکر اسپیشل کلاس میں حدیث کا درس دیں۔امام نے صاف منع کر دیا۔فرمان آیا کہ آپ شہر چھوڑ دیں۔امام کو چھوڑنا پڑا۔روایت کے مطابق، آپ اسی شہر بدری کے غم میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔آپ کی وفات شہر سے باہر ایک درخت کے نیچے روتے روتے ہوئی۔

اسی تیسری ہجری کے نصف اول کا آخری عشرہ چل رہا تھا۔خلیفہ مامون کے دور میں درباری علما کے ذریعے خلق قرآن کا فتنہ پیدا کیا گیا۔یہیں سے امام احمد بن حنبل کی ذہنی و جسمانی آزمائش کا آغاز ہوا۔دربار حکومت میں بارہا امام نے بڑی وضاحت کے ساتھ خلق قرآن کے مسئلہ کو رد کیا۔بادشاہ پر اعتزال کا اثر کچھ زیادہ تھا امام کی دلائل کو پس پشت ڈال کر انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار کیا گیا۔مامون کی وفات کے بعد معتصم نے سخت قید کے ساتھ کوڑے بھی لگواۓ۔پھر واثق کا دور آیا اس نے بھی وہی کیا۔اس مرد خدا آگاہ کا حال بڑا عجب تھا، جسمانی اذیتیں جھیلنا گوارا کیا مگر مسئلہ سے ایک حرف بھی پیچھے ہٹنا منظور نہ کیا۔


گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں اکبر کے دین الہی کا فتنہ پاؤں پسارنے لگا تھا۔یہ ایک ایسا فتنہ تھا کہ اکبر مذاہب کا ایک سیکولر اسٹیٹ قائم کرنا چاہتا تھا۔جب کہ ہندوانہ رسم و رواج کو پہلے ہی محل میں جگہ دی جا چکی تھی۔درباری مولویوں کے ذریعے ہند کے سارے دھرموں کا ایک ملغوبہ تیار تھا۔یہ واضح رہے کہ مغل سلطنت میں اکبر ایک جاہ و جلال کا حکمراں مانا جاتا ہے۔ان کا رعب رعایا پر دکھتا تھا۔شیخ احمد سرہندی کسی بھی شاہی رعب کو خاطر میں نہ لاتے ہوۓ اس فتنے کا شدید رد فرمایا۔غور کریں کہ ایک عالم جس کے پاس کوئی لاؤ لشکر نہیں،کوئی رعیت بھی نہیں وہ وقت ایک بڑے حکمراں کو چیلنج کر رہا ہے جس کا انجام سخت ابتلا یا موت بھی ہو سکتا تھا۔

فضاۓ عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی

میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی


سطور بالا میں ان مجاہد رنگ و خیر پرور اکابرین امت کا ذکر اس لیے کرنا پڑا تاکہ عزیمت خیال علما کو حوصلہ ملے۔خود میں کئی بار حالات کے جبر و اکراہ سے تھک جاتا ہوں۔اپنے پراۓ کی بے توجہی کا درد سہتا ہوں۔تہی دست ہونے کے طعنے جھیلتا ہوں۔مسائل کی کثرت سے گھبرانے لگتا ہوں۔ایسے میں پھر مجھے حالات کی تیرہ شبی میں نقوش مسافران عزیمت کی سیرت سے امید کے اجالے نمودار ہوتے دکھتے ہیں اور میں خود کو حق گوئی و بے باکی کے لیے ثبات قدمی کی دعائیں کرتے ہوئے شکرانہ بجا لاتا ہوں۔اس خیال کے ساتھ 


نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی

حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی


مشتاق نوری

۱۳؍جنوری ۲۰۲۴

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے