Header Ads Widget

سفرنامۂ قطر | قسط۳

 سفر نامۂ قطر

سفرنامۂ قطر

قسط۳

از قلم: سید شعیب حسینی ندوی


اتوار کے دن سات جنوری کی صبح نمودار ہوتی ہے، صبح صادق کی روشنی رات کی تاریکی کو نگلنا شروع کرتی ہے، میں فجر ادا کرنے کے بعد اپنے حجرہ سے باہر کے مناظر دیکھتا ہوں، کمرے کے ایک سمت پوری کانچ کی دیوار تھی جس سے باہر کے مناظر خوب نظر آتے تھے، لمبی چوڑی سڑک جس پر تیز رفتار کاریں دوڑتی بھاگتی نظر آتیں اور سڑک کے پار دوسری جانب فلک بوس عمارتیں تھیں یہ سرکاری دفاتر اور بڑی کمپنیوں کی عمارتیں تھیں اور دوسرے پانچ ستارہ ہوٹل بھی تھے، جن پر کارٹونوں کی نقشے آویزاں تھے کیونکہ چند روز میں فٹبال کا ایشیا کپ ہونے والا تھا اس لیے اس کی تیاریاں جگہ جگہ دکھ رہی تھیں، میں سوچ رہا تھا یہ ریگستان اور سمندر کے کنارے بسا ہوا چھوٹا سا جزیرہ کس قدر ترقی کر چکا ہے، تمدن اور عمرانیت میں کتنا آگے نکل چکا ہے، دنیا کی چمک دمک اور مادیت کی ریل پیل ہر جگہ نظر آتی ہے، معاشی ترقی ہر چیز سے ہویدا ہے۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ناشتہ کے لیے ہم نیچے اترتے ہیں پھر جلد تیار ہوکر کانفرنس کے لیے نکل پڑتے ہیں، آج کا دن صرف اتحاد کے ممبران کے لیے مختص تھا دوسرے مدعوین خصوصی کو شرکت کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ آج کی نشستیں انتظامی امور سے متعلق تھیں، صدر اور مجلس عاملہ کا انتخاب بھی آج ہونا تھا۔

ہم کانفرنس ہال پہنچ جاتے ہیں، اتحاد کے عہدہ داران اسٹیج پر بیٹھتے ہیں اور آئندہ کے لائحہ عمل کو پیش کرتے ہیں، مستقبل کی نئی اسٹراٹیجی زیر بحث آتی ہے، اس وقت کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر علی قرہ داغی ایک نرالی اصطلاح سے باخبر کرتے ہیں اور مستقبل کی پلاننک کو اس کے منسلک کرتے ہیں، ’من المؤسس الی المؤسسیۃ‘، چونکہ شیخ قرضاوی اس تنظیم کے بانی ہیں اور وہ سب کے مرجع تھے، اب وہ نہیں رہے اس لیے تنظیمی ڈھانچہ کو ایسا مضبوط کیا جائے کہ فرد کے بجائے ادارہ کی بالادستی اور اصولوں کی سیادت کے ساتھ آگے کا سفر طے کیا جائے۔

نیا شعار بھی دیا گیا ’نقيم ديننا، وننهض بأمتنا، وننصر مقدساتنا‘ ہم دین قائم کریں گے، اپنی امت کو لے کر اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنے مقامات مقدسہ کی تحفظ کی جد وجہد کریں گے۔ یہ شعار شیخ عصام کا دیا ہوا تھا۔

دعوتی اور سماجی کاموں کو منظم کرنے اور اتحاد کو مزید فعال و سرگرم بنانے پر تمام پہلؤوں سے غور ہوا، درمیان میں مختصر وقفہ ہوتا تھا، کانفرنس ہال کے باہر برآمدے میں چائے اور ناشتہ کا بہترین نظم مسلسل رہتا تھا، درمیان میں اٹھ کر ہم کچھ ٹونگ لیا کرتے تھے اور مختلف ذائقے کی چائے سے حلق تر رکھتے تھے، چائے نوشی کے ساتھ مختلف ملکوں کے لوگوں سے ملاقاتیں اور تبادلۂ خیال بھی ہوجایا کرتا تھا۔

انتظامی امور پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو گیا، نماز کے بعد ظہرانہ کا نظم اسی ہوٹل میں تھا اور ڈیڑھ دو گھنٹہ کا وقفہ تھا، کھانے کا بڑا سا ہال تھا اور ہال تک پہنچنے کی راہداری خوبصورت اور دیدہ زیب چیزوں سے سجائی گئی تھی، گول میزیں کرسیوں کے ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے مرتب رکھی ہوئی تھیں اور کھانے بڑی بڑی تھالوں میں چنے ہوئے تھے، سلاد، گوشت، سبزیاں، پھل اور چٹنیاں سب دستیاب تھیں، خود اپنی پسند سے کھانا نکالیں اور ٹیبل پر آکر نوش کریں، کھانے کی ٹیبل پر ہمارے ساتھ کچھ فلسطینی نوجوان تھے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، ان سے کچھ سرسری سی غزہ اور حالیہ معرکہ پر بات چیت ہوئی وہ مستقبل کے حوالہ سے بہت پر عزم نظر آئے لیکن عام تباہی اور جانی نقصانات پر بہت درد و فکر ظاہر کرتے رہے، عرب ملکوں کے موقف اور دنیا کے رد عمل پر بھی بات ہوئی۔

کچھ ہی دیر میں اگلی نشست کا آغاز ہوا، مرکزی ہال میں سب کو جمع کر کے آگے کے پروگرام کی تفصیل بتائی گئی کہ اتحاد کے تنظیمی ڈھانچہ اور لائحہ عمل کو آخری شکل دینے کے لیے ورکشاپ شروع ہوگی، تین ہال میں لوگ بٹ جائیں گے اور بحث و چرچا کر کے نتائج پیش کریں گے، ایک ہال میں علمی وفکری مسائل پر چرچا ہوگی، دوسرے ہال میں ملی مسائل اور تیسرے ہال میں صحافتی معاملات پر چرچا ہوگی۔

میں نے اپنی دلچسپی سے علمی قضایا والے ہال بنام سلوی ۱ کو منتخب کیا اور وہاں ہم چھ سات گول میزوں کے گرد گروپ بنا بنا کر بیٹھ گئے، میرے گروپ میں کچھ دس بارہ افراد رہے ہوں گے جن میں اکثریت کردستان عراق کی تھی کچھ لوگ ترکی کے تھے اور کچھ دوسرے بھی اور میں ہندوستان سے اکیلا تھا، پانچ عناصر تھے بحث کے، ہمارے حصہ میں یہ عنصر آیا کہ ہماری تنظیم کو کن عالمی قضایا و مسائل میں متحرک ہونا چاہیے اور کیسے کام کرنا چاہیے؟ پہلے ہم نے ان قضایا کی فہرست تیار کی جو زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ان میں الحاد و ارتداد، استبداد و استعمار، خاندان، تبدیلئ جنس جیسے کئی مسائل کو چھانٹا پھر ان پر غور و خوض کر کے کام کرنے کے حوالے سے نمبر وار مشورے لکھتے گئے، ہمارے گروپ کے کردستانی ساتھی بیچ بیچ میں اپنی علاقائی زبان بولنے لگتے تھے پھر متنبہ ہوتے اور عربی شروع کرتے، میں بھی برابر اپنی رائے دیتا رہا اور بہت اچھا تبادلۂ خیال ہوتا رہا، معلوم ہوا وہ حضرات کالجز کے لیکچرر اور پروفیسر حضرات تھے اور اچھی عمیق بحث کر رہے تھے، ایک پوائنٹ رکھا جاتا پھر اس پر مثبت و منفی تجزیہ سب مل کر کرتے پھر اس مشورے کو نوٹ کر لیا جاتا، یہ سلسلہ ایک آدھ گھنٹے چلا ہوگا پھر ہمارے تحریری مشوروں کو ذمہ داروں نے لے لیا اور ہم باہر نکل کر چائے ناشتہ نوش کرنے لگے، لوگوں سے ملاقات ہوتی رہی اور ہندوستان اور ندوی نسبت کا نام لیتے ہی وہ شیخ ابو الحسن کو یاد کرتے، افغانستان کے کچھ احباب سے بھی یہاں ملاقات ہوئیں، ایک بزرگ صاحب بڑے عزم و قوت سے بار بار یہ کہتے رہے کہ ہمیں غزہ تک پہنچانے کا انتظام کر دیا جائے میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں چند دنوں میں آپ لوگوں کو مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کی دعوت ہماری طرف سے ملے گی، ہم تجربہ کار ہیں کہ ان عالمی طاقتوں کو شکست کیسے دی جاتی ہے۔

پھر مغرب کا وقت ہوگیا اور نماز کے بعد جو اسٹراٹیجی مشوروں میں آئی تھی اس کو مرکزی ہال میں سنایا گیا اور اپنی رائے پیش کرنے کا موقعہ دیا گیا، میں نے بھی اس موقعہ پر کھڑے ہوکر چند گزارشات رکھیں اور رائے پیش کی۔

اب آخری نشست کا وقت آگیا اور یہ سب سے اہم نشست اس حیثیت سے تھی کہ اس میں تنظیم کے صدر اور ارکان مجلس عاملہ کا انتخاب ہونا تھا، اسٹیج پر لجنۃ الانتخابات جو عہدہ دار قاضی صاحبان پر مشتمل تھی انہوں نے جگہ سنبھال لی اور پورا ہال بھرا ہوا تھا سب اس موقعہ کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، نمائندے پیش کرنے کے لیے پہلے ہی فارم دیے جا چکے تھے اور خواہشمند حضرات از خود یا جو کسی کو نمائندہ بنانا چاہتے ہوں انہوں نے افتتاحی جلسہ کے بعد ہی پرچے داخل کر دیے تھے، شرط یہ تھی کہ صدر کے نمائندے کے لیے کم سے کم تیس ممبران کی دستخط کے ساتھ پرچہ قبول کیا جاتا اور رکن عاملہ کے لیے بیس دستخط کے ساتھ، لیکن عجیب اتفاق کہ صدارت کے لیے صرف ایک ہی نام پیش ہوا لیکن ورکنگ کمیٹی کے لیے سو سے زائد نام آئے جبکہ اس میں صرف اکتیس افراد ہی منتخب ہوتے ہیں، انتخاب کا طریقہ یہ تھا کہ ہمارے کانفرنس کارڈ پر جو بار کوڈ تھا اس کو اسکین کرنے پر انتخابی پیچ کھل جاتا اور ووٹ کرنے کا آپشن آتا، اس کے حق میں ووٹ دینے، مخالف میں ووٹ کرنے اور نوٹا دبانے کا آپشن تھا، کیونکہ صدارت کے لیے صرف ایک نام شیخ علی قرہ داغی کا تھا تو ووٹنگ شروع ہوئی ہم نے ووٹ ڈالا، ان کے منتخب ہونے کے لیے شرط یہ تھی کہ ان کو کم سے کم جملہ ووٹ کرنے والوں کے پچاس پوائنٹ ایک اعشاریہ ووٹ حق میں ملنے چاہیے، پندرہ منٹ کے بعد نتیجہ ظاہر ہوا اور شیخ کو اکیانوے فیصد سے زیادہ ووٹ ملے، اور وہ صدر منتخب ہو گئے، پھر منتخب صدر نے کھڑے ہو کر اپنے نائبین کا اعلان کیا، اس سے پہلے چار نائب ہوتے تھے لیکن صدر نے چھ نام پیش کیے، اس پر اعتراض ہوا کہ چار کی جگہ چھ کیسے اور کافی گرما گرم بحث ہوتی رہی کہ اس تبدیلی کو قبول کیا جائے یا نہیں، صوتی اتفاق سے اس تبدیلی کو منظور کر لیا گیا اور بالآخر چھ پر ووٹنگ شروع ہوئی، یہ چھ افراد شیخ احمد خلیلی، شیخ عصام البشیر، سابق صدر شیخ سالم سقاف، شیخ محمد حسن ددو، ترکی سابق وزیر محمد گورماز اور مایہ ناز مفکر و مصنف ڈاکٹر عبد المجید نجار تھے، ان تمام لوگوں میں سب سے زیادہ ووٹ شیخ حسن ددو کو ملے تھے، ان کے حق میں پچانوے فیصد سے زیادہ ووٹ ڈلے، مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ جب صدر کے اختیار سے چھ کو ہی منتخب کرنا ہے تو ووٹنگ کا مقصد کیا ہے، شاید صرف اتنی بات تھی کہ اگر کسی کو پچاس فیصد سے کم ملے تو وہ باہر ہو جائے گا۔

پھر ورکنگ کمیٹی کے لیے انتخاب شروع ہوا لیکن بار بار کچھ تکنیکی خرابی کی وجہ سے وہ رد ہوجاتا پھر سے ہوتا، اس میں خاصی تاخیر ہوتی رہی، ہر شخص کو اکتیس لوگوں تک ووٹ کر کے منتخب کرنے کا حق تھا، میں نے دس بارہ لوگوں کو منتخب کیا جن کو میں کسی طور پر جانتا تھا، ان میں سر فہرست عم معظم حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی مد ظلہ تھے، ایک نوجوان شخص اسامہ نامی بھی تھا جو اپنی گزارشات رکھنے کے سیشن میں یہ گفتگو کر چکا تھا کہ ہماری تنظیموں میں صرف بوڑھے افراد کو عہدوں پر لیا جاتا ہے نوجوانوں کو کیوں آگے نہیں بڑھایا جاتا ہے جبکہ طوفان الاقصی میں ابو عبیدہ کے بقول سترہ سے تیئیس سال کے نوجوانوں نے یہ انقلاب برپا کیا ہے، وہ بھی ورکنگ کمیٹی کے لیے کھڑا ہوا تھا، میں نے خاص طور پر اس کے حق میں ووٹنگ کی، اور بعد میں اس سے نوجوانوں کو آگے بڑھانے پر بات چیت بھی ہوئی، اور حسن اتفاق وہ منتخب بھی ہوا، اور چچا ابو بھی بھاری حمایت سے منتخب ہوئے، در اصل الکٹرانک ووٹنگ میں خلل واقع ہوجانے کی وجہ سے بعد میں ورکنگ کمیٹی کے لیے پرچے پر ووٹ ڈالے گئے، کیونکہ مجھے ایک ساتھی سے ملاقات کرنا تھی اور ان کو وقت دے چکا تھا اس لیے آٹھ بجے میں ہال سے نکل گیا، شیراٹون ہوٹل کے مرکزی دروازہ پر جناب عبد الرحمن صاحب منتظر تھے، انکا تعلق کرناٹک کے شموگہ ضلع سے ہے اور انکا سسرال منگلور ہے، وہ صاحب خیر اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں، یہاں منگلور میں ان سے ملاقات ہو چکی تھی، ان کا میسج آیا تھا کہ آج ہی ملاقات کرنا ہے کیونکہ کل وہ دبئی جارے ہیں، وہ سلامہ انٹرنیشنل کمپنی کے اکاؤنٹ کے شعبہ کے ذمہ دار ہیں، ان کے ساتھ محترم محسن صاحب بھی تھے جنکا تعلق بھٹکل کے نزدیک گنگولی سے ہے، وہاں بیٹھ کر ان سے گفت و شنید ہوتی رہی، عشائیہ ان کی طرف سے طے تھا، میں نے کہا مجھے کچھ دیسی کھانا انڈین ہوٹل میں کھلائیے، وہ مجھے ایک ملیباری ریسٹورانٹ میں لے گئے اور مختلف قسم کی مچھلیاں کھلائیں، مختلف مسائل پر ان سے بات چیت جاری رہی، وہ اپنے کاموں کا تعارف کراتے رہے، کہ الحمد للہ سیکڑوں مسلمان نوجوانوں کو انہوں نے وہاں کام دلوایا ہے اور اپنے ماتحت عملہ کے ساتھ کیسے الفت اور معاونت کے ساتھ وہ کام کر رہے ہیں، اور کچھ دینی سوالات بھی وہ کرتے رہے اور میں جواب دیتا رہا، خاص طور پر چار اماموں کی تقلید امت میں اختلاف و افتراق کا کیا سبب ہے؟ اس سوال پر کافی دیر چرچا ہوئی اور کسی حد وہ میرے جوابات سے مطمئن ہوئے، وہ اردو میں روانی سے بات نہیں کر پاتے ہیں اس لیے گفتگو انگریزی زبان میں ہی ان سے ہوئی، پھر انہوں نے مجھے میرے ہوٹل تک پہنچا کر الوداع کہا اور پھر جلد ملنے کی امید کے ساتھ ہم جدا ہوئے۔

ہوٹل میں کچھ ندوی احباب چچا ابو سے ملنے آئے ہوئے تھے، بطور خاص مولانا اسلم ندوی صاحب، مولانا امتیاز ندوی، بھائی سیف اللہ ندوی ان سے رائے بریلی میں اچھی ملاقات رہ چکی تھی یہ معاذ بھائی کے بہت قریبی دوست ہیں، مولانا سعد ندوی، عبد المالک فلاحی وغیرہ موجود تھے، بہت محبت سے سب ملے اور اچھی بیٹھک ان حضرات کے ساتھ رہی، بلکہ پھر روزآنہ ہی رات میں محفل سجا کرتی تھی اور بے تکلف بات چیت اور ہنسی مذاق کا دور چلتا، چچا ابو کے ساتھ سنجیدہ مجلس کر کے بازو کے بھائی صاحب کے کمرے میں ہماری پر لطف محفل لگتی جس میں مولانا عبد الغفار صاحب اور مولانا مجیب صاحب بھی شریک ہوتے۔

دن بھر کی تھکن اور مسلسل مصروفیت کے بعد رات بستر پر لیٹتے ہی خواب خرگوش میں چلے گئے۔

(جاری)

سفرنامۂ قطر قسط۱

سفرنامۂ قطر قسط۲

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے