Header Ads Widget

رمضان: عبادتوں کا موسم بہار

رمضان: عبادتوں کا موسم بہار 


رمضان: عبادتوں کا موسم بہار

از: عبدالعلیم دیوگھری 



فطرت گہری نیند میں سو رہی ہوتی ہے، زمین کے ہونٹوں پر پیاس سے خشکی کی پپڑیاں جمی ہوتی ہیں، چمن افسردہ ہوتا ہے، باغ سنسان پڑا ہوتا ہے، پھول کمھلائے ہوئے ہوتے ہیں، کلیاں مرجھائی ہوئی ہوتی ہیں، درخت سوکھے پڑے ہوتے ہیں، پودے پژمردہ ہوتے ہیں اور پتیاں شاخوں سے جھڑ جھڑ کر دم توڑ رہی ہوتی ہیں کہ جیسے ہی بہار کا دل فریب موسم اپنی تمام تر رعنائیوں اور جلوہ سامانیوں سمیت نمودار ہوتا ہے گلشن ہستی یک قلم سنور اٹھتی ہے، فطرت گہرے خواب سے بیدار ہو اٹھتی ہے، افسردہ چمن لہلہانے لگتا ہے، پھول کھلنے لگتے ہیں، کلیاں چٹخنے لگتی ہیں، غنچے مسکرانے لگتے ہیں، درخت سر سبز و شاداب ہونے لگتے ہیں، پودے نمو پانے لگتے ہیں، شاخوں پر تازی پتیاں ابھر آتی ہیں، روئے زمین پر خوبصورت سبزے کی چادر تن جاتی ہے، تاحد نگاہ ہریالی و شادابی کا فرحت انگیز منظر نگاہوں کو خیرہ کرنے لگتا ہے، چرند و پرند رقص و سرود کے عالم میں مست ہو جاتے ہیں، پیداوار کی کثرت دیکھ کسانوں کے چہرے کھل کھل اٹھتے ہیں، مویشیوں کو تازہ گھاس میسر آ جاتا ہے؛ غرض نہایت خوش نما اور دل آویز منظر ہوتا ہے اور یہ سب کچھ موسم بہار کی کرشمہ سازی ہوتی ہے۔

خالق کائنات نے جس طرح اس مادی زندگی کی تازگی اور اسے حیات نو بخشنے کے لیے موسم بہار کا انتظام کر رکھا ہے ٹھیک اسی طرح انسانوں کی روحانی زندگی کو سنوارنے کے لیے رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کا انتظام کر رکھا ہے۔ یہ مہینہ در حقیقت عبادتوں کا موسم بہار ہے، جب اس کی آمد ہوتی ہے تو انسانوں کی روحانی زندگی سنور جاتی ہے، سوئے ہوئے قلوب بیدار ہو اٹھتے ہیں، غفلتوں کے سیاہ بادل چھٹنے لگتے ہیں، دلوں کی کشت ویراں عبادت و ریاضت کی کھیتیوں سے لہلہا اٹھتی ہے، محبت و الفت کے خوشنما پھول کھل اٹھتے ہیں، منجمد طبیعتوں میں شورش ایمانی کا اضطراب بپا ہو جاتا ہے اور انسانوں کی روحانی زندگی اللہ تعالی کے چشمۂ رحمت و مغفرت سے سیراب ہو جاتی ہے۔

نیز دیگر مہینوں کے بالمقابل اس مہینے میں عبادت و ریاضت کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں، مسجدیں ذکر و اذکار اور تلاوت کی دلنشیں اور روح پرور صداؤں سے آباد رہتی ہیں، نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، بیشتر لوگ فریضہ زکات بھی اسی مہینے میں ادا کرتے ہیں، روزے داروں کے سر پر سجی ٹوپیاں الگ ہی نظارہ پیش کرتی ہیں اور افطار و تراویح اور سحری کا منظر اس مہینے کی رونق میں چار چاند لگا دیتا ہے۔

اور رب ذو الجلال کی دریائے رحمت و مغفرت کا پوچھنا ہی کیا! اس کی رحمتوں، برکتوں، بخششوں اور عنایتوں کی پیہم بارش سے سبھی نہال ہو جاتے ہیں، دینداروں، متقیوں اور پارساؤں کی بات ہی کیا؟ یہاں تو عاصیوں، نافرمانوں، سیاہ کاروں اور خطاکاروں کا نصیبہ بھی اوج کمال کو پہنچ جاتا ہے، آتے جاؤ اور مغفرت کا پروانہ پاتے جاؤ، خالی کشکول لیکر آؤ اور نوازشوں سے دامن بھر کر جاؤ، ناامید آؤ اور لالہ افسردہ کو آتش قبا کرکے جاؤ، غرض اس مبارک مہینے میں اس ذات کی دریائے رحمت پورے جوش میں ہوتی ہے جو ہمہ رحمت و مغفرت ہے، ہمہ جود و کرم ہے، ہمہ بخشش و عطا ہے، بھلا اس کی دریائے رحمت کا کوئی کنارہ بھی ہے؟

اس کی رحمتوں اور بخششوں کی بات یہیں تمام نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کی بخشش و عنایت کا عالم تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک نفل عبادت کے بدلے فرض عبادت کا ثواب دیتا ہے اور ایک فرض کے عوض ستر فرضوں کے ثواب سے نوازتا ہے، ہر شب لاکھوں سیہ بختوں کی قسمت چمکتی ہے اور انھیں جہنم کی ہولناکی سے نجات کا پروانہ حاصل ہوتا ہے، اسی پر بس نہیں؛ بلکہ دوزخ کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور بہشت کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، شیطان لعین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے؛ تاکہ اس کے بندے نہایت دلجمعی، یکسوئی اور کامل انہماک کے ساتھ اس کی عبادت اور رضاجوئی میں مشغول ہو جائیں۔

کون محروم القسمت اور حرماں نصیب ہوگا جو عبادتوں کے اس موسم بہار کا لطف لینے اور استفادہ کرنے سے محروم رہ جائے، جس طرح موسم بہار میں کسان، چرند و پرند، مویشی، چوپائے؛ غرض ہر مخلوق خوب خوب استفادہ کرتی ہے اسی طرح عبادتوں کے اس موسم بہار سے ہمیں خوب خوب استفادہ کرنا چاہیے اور عبادت، تلاوت، ذکر و اذکار، صدقات و خیرات اور دیگر اعمال صالحہ کے ذریعے اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں کا گراں قدر ذخیرہ جمع کر لینا چاہیے کہ یہ نیکیاں ہی ہمارے لیے سرمایۂ حیات، متاع سعادت اور باعث نجات ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے