Header Ads Widget

علماءِ دیوبند عربوں کی نظر میں

 علماءِ دیوبند عربوں کی نظر میں 


علماءِ دیوبند عربوں کی نظر میں

از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

علماءِ اہل سنت احناف دیوبند کے علمی کارناموں و عملی جدوجہد کے نقوش صفحۂ عالم پر اس قدر نمایاں و آشکارا ہیں کہ جن کا اعتراف و تائید ہند تو کجا پورے ایشیا بلکہ مصر و شام تک، عجم ہی کیا بلکہ عرب تک، مشرق سے لے کر مغرب سمیت تمام اہل علم و ارباب دانش و بینش نے کیا ہے، ان کی خدمات کو تمام ہی نے سراہا ہے، اور تحسین و آفرین کی نظروں سے دیکھا ہے، ان کو ان وقیع کارناموں اور عظیم خدمات کی بنا پر عالمی ایوارڈ اور تمغہ امتیاز سے بھی نوازا ہے، جہاں تک ان علماء کے رسوخ فی العلم اور لیاقت و قابلیت کی بات ہے تو اس باب میں یہ اس قدر عظیم ہیں کہ تاریخ انسانی کا مکمل ایک دور ان کے عظیم علمی کارناموں کے باعث تابندہ و درخشندہ ہیں، اور پوری قوم کے لیے باعثِ فخر اور سرمایۂ حیات ہیں، جن کو دیکھ کر عوام تو عوام خواص تک ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے ہیں، عجم تو عجم عرب کے وہ علماء جو اپنے عہد کے  عبقری تصور کیے جاتے ہیں، جن کو اسلامی حکومت و سلطنت میں شیخ الاسلام کے منصب پر فائز کیا گیا ہو، جن کو مملکت اسلامی میں مفتی اعظم کا خطاب و عہدہ حاصل ہو، وہ عبقری علماء، شیخ الاسلام اور وہ مفتی اعظم دیوبند کے اس چھوٹی سی بستی میں واقع ایک مدرسے سے علمی و فکری وابستگی رکھنے والے علماء سے شرفِ تلمذ اور حصول سند و اجازت کو خدمات جلیلہ کے باعث مایۂ افتخار جانتے ہیں، جن کی ملاقات و زیارت کو موجب ثواب و برکت مانتے ہیں، اور عرب سے عجم تک کے سفر کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، چنانچہ اس میکدۂ علم و عرفان میں جہاں یورپ کے محققین برائے تحقیق و تفتیش آتے ہیں وہیں حرمین شریفین (زادھا اللہ و شرفا و کرامتا) کے امام و متولی اور دیار عرب کے اہل علم و بصیرت اپنی تشریف آوری اور قدوم میمنت سے اعجاز بخشتے ہیں، اور گراں قدر حقیقت پر مبنی مشاہداتی تاثرات سے بھی نوازتے ہیں، جس میں علماءِ دیوبند کی قربانیوں اور ان کے علمی و تصنیفی کارناموں کو سراہتے ہیں۔


چنانچہ ۱۳۹۵ھ میں عرب علماء کی ایک جماعت آئی جس میں جناب یوسف السید ہاشمی رفاعی وزیر حکومت کویت اور سید استاد عبدالرحمن مدیر ماہ نامہ ”البلاغ“ کویت اور قطر کے شیخ عبدالمعز عبدالستار آئے تھے، انہوں نے اپنا یہ تاثر ظاہر کیا کہ ”اللہ تعالٰی نے ہمیں اسلامی قلعہ کی زیارت کی توفیق بخشی جسے ہم ”ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند“ کے نام سے یاد کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ دارالعلوم دیوبند کو دین حنیف کی خدمت اور اسلامی دعوت کو عام کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق بخشے، ہم اپنے وطن میں سنتے اور پڑھتے تھے کہ ”دارالعلوم دیوبند“ ہندوستان میں دین کی روشنی کا مینارہ ہے، جو اپنی ضیاپاشیوں سے سارے عالم اسلام کو منور کر رہا ہے، اللہ تعالی دارالعلوم کے مستقبل کو حال سے بہتر بنائے جیسا کہ اس نے حال کو ماضی سے بہتر بنایا“


علمائے ازہر کا خراج تحسین

۱۳۵۲ھ میں علماء جامعہ ازہر مصر کا ایک وفد دیوبند آیا، یہاں کے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئی کہا ”یہاں پر ہم نے ایک ایسی جماعت کی زیارت کی جس نے اپنی زندگی کو تفسیر قرآن اور حدیث و فقہ وغیرہ علوم دینیہ کے لیے وقف کر دیں ہیں، یہاں کے اساتذہ سے مذاکرۂ علمی کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ علوم اسلامیہ میں انہوں نے کامل دسترس اور زبردست مہارت حاصل کی ہے۔( اخلاص کا تاج محل دار العلوم دیوبند)


 اسی طرح ١٣٩٥ھ میں علماء ازہر کا ایک وفد آیا، جس میں شیخ الازہر ڈاکٹر عبدالحلیم محمود، وکیل الازہر شیخ عبدالرحمن بیطار، مفتی اعظم مصر محمد خاطر اور سابق شیخ الازہر شیخ محمد الفحام تھے، شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم محمود نے فرمایا ”میں اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم صاحب کے زہد و تقویٰ، رفعت علم اور اخلاص و للہیت کی یہ آثار ہیں، جو اس ادارے میں دیکھے جاتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ فضلاء دارالعلوم تمام شہروں اور ملکوں میں کامیابی کے ساتھ خدمتِ دین میں مشغول ہیں“

 اسی طرح سابق شیخ الازہر شیخ محمد الفحام نے فرمایا کہ ”ایک زمانے سے میں دارالعلوم دیوبند کی زیارت کا مشتاق تھا، میرا یہ اشتیاق دن بدن بڑھتا رہا، میں نے اللہ سے دعا کی کہ میری موت اس وقت تک نہ آئے جب تک میں دارالعلوم دیوبند کی زیارت نہ کر لوں، اور الحمدللہ میری یہ تمنا پوری ہوئی جس کو میں کبھی بھول نہیں سکتا، میں نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ یہاں دیکھا، وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو میں نے سنا تھا۔

 علامہ علی مصری کی شہادت 

            حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی علم حدیث میں قابلیت و مہارت شہرۂ آفاق ہے، علامہ علی مصری حنبلی حافظ الحدیث دیوبند آئے، اور حضرت کشمیریؒ کے درسِ بخاری میں شریک ہوئے، حضرت شاہ صاحب نے اس دن ان کی رعایت سے عربی میں تقریر فرمائی، مہمان موصوف نے سوالات کیے اور شاہ صاحب نے جوابات دیے، بعد اختتامِ درس شیخ علی موصوف نے طلبہ کے ہجوم میں کھڑے ہو کر فرمایا ”میں نے عرب ممالک کا سفر کیا اور علماء و اکابر سے ملاقات کی ہے، خود مصر میں سالہا سال درس حدیث دے آیا ہوں، میں نے شام سے لے کر ہند تک اس شان کا کوئی محدث اور عالِم نہیں پایا، میں نے ان کو ساکت کرنے کی ہر طرح کی کوشش کی لیکن ان کے استحضار، تیقظ، حفظ و اتقان، ذکاوت و ذہانت اور وسعتِ نظر سے حیران رہ گیا“ اور آخر میں کہا ”لو حلفت انہ اعلم بابی حنیفۃ لما حنثت“ یعنی اگر میں قسم کھا جاؤں کہ یہ شخص ابو حنیفہ کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں تو میں اس دعوے میں جھوٹا نہیں ہوں گا۔ (تصویر انور ص 120)

 اسی طرح علامہ زاہد الکوثری جو ترکی کے نامور عالم گزرے ہیں، حدیث اور فقہ حنفی میں نادرۂ روزگار شخصیت کے مالک ہیں، جن دنوں یہ قاہرہ میں جلا وطنی کے دن گزار رہے تھے، ان دنوں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بعض تصانیف کا انہوں نے مطالعہ کیا، اور پھر جو فرمایا اس سے شاہ صاحب کی ان کی نگاہ میں قدر و عظمت کا اندازہ ہوتا ہے، فرمایا ”احادیث سے دقیق مسائل کے استنباط میں شیخ ابن ہمام صاحبِ فتح القدیر کے بعد ایسا محدث و عالم امت میں نہیں گزرا“  یہ علامہ انور شاہ کشمیری کی علمی لیاقت اور حدیث میں امامت کے درجے میں فائز المرامی کا ایک ادنی سا اعتراف ہے، حقیقت یہ ہے کہ علامہ انور شاہ کشمیری خاتم المحدثین کہے جانے لائق ہیں، اور حدیث دانی میں متقدمین میں سے علامہ ابن حجر، علامہ عینی وغیرہ سے کسی بھی درجے میں کم نہیں تھے، اور متاخرین کی تو بات ہی کیا ہے اس میں تو عدیم النظیر و فقید المثال تھے۔


علامہ عثمانی اور اہل ازہر کا کمال اعتراف 

                   ربیع الثانی 1357ھ کو دارالعلوم دیوبند میں جامعۃ الازہر قاہرہ کے علماء پر مشتمل ایک وفد آیا تھا، جس نے ہندوستان کے تقریباً تمام مدارس کے علمی نظام اور علمی سرگرمیوں کے جائزے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں فروکش ہوئے، اس وقت حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی صدر مہتمم تھے، مولانا عثمانی نے پروگرام میں صدارتی تقریر عربی میں فرمائی، حقیقت یہ ہے کہ ہندی علما میں کون ایسا شخص علم و فضل کا مالک ہوگا جو کہ مولانا مرحوم کی عربی تقریر کا جواب پیش کر سکے، جامعہ ازہر قاہرہ کی وفد کے لیڈر کو فتح الملہم پیش کی گئی تو اس نے بے حد تعریف کی اور کہا کہ ”تمام علمائے عرب مل کر اس کی مثال پیش کرنا چاہیں، تو محال ہے“ (حیات عثمانی 371)

اسی طرح پروفیسر انوار الحسن شیر کوٹی لکھتے ہیں کہ ”میرے دوست شیخ احمد عقاد منیجر روضۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا کہ جب علامہ شبیر احمد عثمانی حرم میں جاتے ہیں تو عربوں کی انگلیاں ان کی طرف اٹھتی ہیں، اور وہ کہتے کہ ”ھذا عالم ہندی کبیر“ یعنی یہ تو ہندوستان کا زبردست عالم ہے۔ (حیات عثمانی)


عرب ممالک کے زائرین کے تاثرات

رجب ١٣٨٩ھ میں عرب ملکوں میں سے مراکش، الجزائر اور شرقِ اردن کے چند حضرات دارالعلوم میں تشریف لائے، دارالعلوم کو دیکھ کر یہ لوگ بہت متاثر ہوئے اور اپنے مشاہدات کا ان الفاظ میں اظہار فرمایا ”خداوند قدوس کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ہندوستان آنے کا موقع عطا فرمایا، ہم ہندوستان کا سفر کرتے ہوئے اس جوش و خروش اور دینی جذبات کو محسوس کر رہے تھے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب میں موجزن تھے، ہم جب اپنی ان مشکلات اور تکالیف راہ کا جو ہمیں ایسے اسفار میں پیش آتی ہیں صحابہ کرام کی مجاہدانہ زندگانی سے موازنہ کرتے ہیں تو ہماری یہ ساری جدوجہد ایک حقیر شئی نظر آتی ہے، ہم نے ہندوستان کے مختلف علاقوں کو گھوم کر دیکھا یہاں مسلمان باشند ے بفضل اللہ سنت نبوی کو اپنی زندگی میں خاص مقام دیتے ہیں، ان کی مستورات پردے کی پابند اور مذہبی اجتماعات اور مواعظ و نصائح سننے کے شوقین ہیں، یہاں کے دینی ادارے بھی خصوصیت کے حامل ہیں، جو اپنی خاص وضع پر چل رہیں ہیں، ہمیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ ہندستان کے رسم و رواج پر اسلامی تعلیمات کے اثرات دور رس ہیں، اور ہندستان جیسے ملک میں جہاں اطراف عالم سے لوگ آتے رہتے ہیں اسلامی تعلیمات مرکزِ توجہات ہیں“


شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کے تاثرات

 جامعہ حلب شام کے استاذ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ نے دارالعلوم کو دیکھ کر اپنی جن تاثرات کا اظہار فرمایا ان کا یہ پہلو بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ان کے نزدیک یہاں کے علماء کی تصانیف میں ایسے علمی مباحث ملتے ہیں جو علماء متقدمین، مفسرین، محدثین اور حکما کے یہاں دستیاب نہیں ہیں، شیخ ابو غدہ فرماتے ہیں ”اس عاجز و ناتواں راقم سطور کے لیے اللہ تعالی کا یہ بہت بڑا فضل و انعام ہے کہ اس نے ہندوستان کے شہروں کی سیاحت و زیارت کا موقع بہم پہنچایا، بالخصوص ان شہروں میں سرفہرست ”دیوبند“ اور اس کی دینی درسگاہ ”دارالعلوم“ کا درجہ ہے جو درحقیقت ہندوستان کا علم و تقویٰ سے بھرپور زندہ قلب علماء و مؤلفین کا مرکز اور دین و معرفت کے طلبہ کی آماج گاہ ہے، اس مرکز کی زیارت عمر بھر کی تمناؤں اور لیل و نہار کے خوابوں میں سے ایک خواب اور تمنا تھی، خدا کا شکر ہے کہ آج دارالعلوم کو دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی اور پرانا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا، دور رہتے ہوئے جو کچھ دارالعلوم کے بارے میں سنا تھا اس کا جو کچھ ذہن میں خاکہ و تصور تھا قریب سے دیکھ کر اس کو اس سے کہیں زیادہ اچھا اور بہتر پایا، اس مقدس ادارے کے گوشے گوشے سے انوار علم کا فیضان ہوتا ہے، اس کی درسگاہوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی تعلیم دی جاتی ہے، اور تشنۂ کامانِ علم اور طالبانِ رشد و ہدایت کے لیے مثالی نظم و نسق، سلیقہ شعاری، اور روشن دماغی کے ساتھ اس اسلوب سے احکام دین و شریعت بیان کیے جاتے ہیں جس میں اہل روحانیت کی روحانیت اور اصحاب علم و تحقیق کے آثار و فیوض نمایاں طور پر جھلکتے ہیں، اللہ تعالی کا یہ کمال فضل و احسان ہے کہ مجھے ”مولانا الاجل برکۃ الامۃ ذی الانفاس الطاہرہ سیدی الشیخ المحدث السید فخر الدین احمد المرادآبادی“ کے درس حدیث شریف کے کچھ حصے کی سماعت کا شرف حاصل ہوا، حضرت موصوف نے طلبہ  محبین کرام کی درخواست کی رعایت کرتے ہوئے حدیث بنی سلمہ پر عربی میں تقریر فرمائی، جس میں ذکر ہے کہ بنی سلمہ کے خواہش ہوئی وہ اپنے مکانوں کو چھوڑ کر مسجد نبوی کی جوار میں منتقل ہو جائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اس ارادے کا علم ہوا تو ارشاد فرمایا ”دياركم تكتب لكم آثاركم“ موصوف کی تقریر بیش بہا موتیوں اور تابناک ستاروں کا مجموعہ اور فیض الباری اور عمدۃ القاری کا مصداق تھی، اسی کے ساتھ شیخ موصوف کی طرف سے ان طلبہ کو جو گوش بر آواز تھے اپنی خصوصی ارشادات سے نوازنے کا سلسلہ جاری تھا، جو ان تلامذہ کے نفوس میں اس طرح سرایت کرتے تھے جس طرح عطر ہوا میں اور پانی زندگی میں کرتا ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالی موصوف کو سنت مطہرہ اور اس کے متبعین کی طرف سے جزاء خیر دے، اور اس ادارے کو سماحۃ الشیخ صدر المدرسین مولانا العلامہ ابراہیم البلیاوی اور مولانا القاری محمد طیب صاحب جیسے اراکین و اساطین ائمہ اجلہ بدر الہدی اور مصابیح الدجی کے زیر سایہ ہمیشہ پھلتا پھولتا قائم رکھے، اور ان بزرگوں کے نفع بخش اوقات اور انفاس طاہرہ میں برکت عطا فرمائیں۔

پھر آگے ارشاد فرمایا ”ان حضرات کی بعض کتابیں تو وہ ہیں جن میں ایسی چیزیں ملتی ہیں جو متقدمین علماء اکابر مفسرین محدثین اور حکما کے یہاں بھی دستیاب نہیں ہوتی ہیں، لیکن افسوس اور قلق کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان نادر تالیفات میں سے اکثر بلکہ سب کے سب اردو زبان میں لکھی گئی ہیں، جو گو ہندوستان کی عام اسلامی زبان صحیح، لیکن عربی کو کثیر الاستعمال اور علوم اسلام کے خاص زبان ہونے کا جو شرف حاصل ہے ظاہر ہے کہ وہ اردو کو حاصل نہیں، لہٰذا یہ علوم اور بیش قیمت تحقیقات جو ہمارے برادران اسلام علماءِ ہند کا خصوصی حصہ اور کارنامہ ہے اگر اردو ہی کے قالب میں محبوس رکھی گئی تو ہم عربی زبان بولنے والوں سے مخفی اور پوشیدہ رہ کر ہمارے محرومی کا باعث بنے رہیں گی، اور اس طرح نہ صرف ہمارے ساتھ ہی نا انصافی ہوگی بلکہ علم دین کے حق کا بھی ایک بہت بڑا نقصان ہوگا، اس لیے فریضہ معرفت اور امانت علم کی ادائیگی کے لیے یہ بات اولین واجبات میں سے ہے کہ نفیس شاہکار اور عمدہ کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کیا جائے، تاکہ ان سے وہ آنکھیں روشنی حاصل کریں جو ایسی چیزوں کے لیے بے تاب، تشنہ اور مشتاق ہے، اور جیسا کہ میرا خیال ہے اس اہم ذمہ داری اور کٹھن فریضے کی ادائیگی کا کام اسی ادارۂ عامرہ کے افراد کر سکتے ہیں جو علماء کرام اور طلبۂ نجبا کا گہوارہ و سر چشمہ ہے۔


علماءِ مصر کے وفد کے تاثرات

                   جامعہ ازہر کے علماء کا ایک مقتدر وفد جو وہاں کے مخصوص اساتذہ پر مشتمل تھا، ہندوستان آیا ہوا تھا، دارالعلوم کی دعوت پر دو ذی قاعدہ 13 ھ کی شام کو وفد کے اراکین دارالعلوم میں تشریف لائے، اگلے روز وفد نے دارالعلوم کا معائنہ کیا، اساتذہ کی محنت و تندہی، کثرت اسباق اور مختلف علوم و فنون کی تعلیم و تدریس کی جامعیت کو دیکھ کر وفد کو حیرت ہوتی تھی، چنانچہ امیر وفد شیخ ابراہیم الجبالی نے اس پر بار بار اپنے تعجب کا اظہار کیا، ان کو یقین نہ آتا تھا کہ ایک ہی استاد پانچ چھے گھنٹے کس طرح مختلف علوم کی متعدد بلند پایا کتابیں پڑھا سکتا ہے، اور مختلف علوم میں کیوں کر جامعیت پیدا کر سکتا ہے، معائنے کے بعد خیر مقدم کی جلسے میں سپاس نامہ پیش کیا گیا، جس کے جواب میں امیر وفد نے دارالعلوم کا شکریہ اور اس کے علمی خدمات کی تعریف اور تحسین کرتے ہوئے دارالعلوم اور جامعہ ازہر کے مابین ارتباط باہمی کے رشتے کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیے جانے کی خواہش کا پرزور الفاظ میں اظہار فرمایا۔ (تاریخ دارالعلوم دیوبند ج ۱ ص ٢٨٩)


یوسف السید ہاشم الرفاعی کا اعتراف

”عالمِ اسلام کو اس وقت ایک زبردست چیلنج کا سامنا ہے، یہ چیلنج پہلے تو اسلام کے دشمنوں کی جانب سے تھا وہ کہا کرتے تھے کہ اسلام اس دور کا ساتھ نہیں دے سکتا، لیکن اب یہ چیلنج خود داخلی طور پر مسلمان نوجوانوں کے اندر سے ابھر رہا ہے، جدید تعلیم یافتہ نوجوان مستشرقین کی کتابوں کو دیکھتے ہیں اور تشکیک میں مبتلا ہو کر کہتے ہیں کہ اسلام عصر حاضر میں رہنمائی کی صلاحیت نہیں رکھتا، اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ اگر دشمن آپ کے گھر میں ہو تو اس کا مقابلہ دشوار ہوتا ہے، ان نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اسلام کو اس کے صحیح خد و خال کے ساتھ جانتے ہی نہیں ہیں، اس فکری چیلنج کے لیے ہمیں علماء راسخین کی ضرورت ہے اور علمائے راسخین پیدا کرنے کے لیے ”دارالعلوم دیوبند“ جیسے ادارے کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت صرف ہندوستان کی نہیں بلکہ سارے عالم اسلام کی ضرورت ہے، اسلام پر اعتراضات کے دفعیہ کے لیے ہم جلیل القدر علماء کے محتاج ہیں، ہمیں حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر کی معیار کی علماء کی ضرورت ہے اور ہمیں فخر کہ الحمدللہ اس درجے کے علماء اس دار العلوم میں موجود ہیں،

                  دارالعلوم دیوبند اپنے افکار و نظریات میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی سے کسب فیض کرتا رہا ہے، امام غزالی نے اپنے عہد کے مطابق فلسفے یونان کی یلغار سے اسلام کو محفوظ رکھا، شاہ ولی اللہ نے کفر و شرک کی تردید کے لیے کام کیا، ہمیں بھی اس وقت ان چیزوں پر کام کرنا چاہیے جو اس دور کی پیداوار ہیں، شیطانی طاقتیں روز نئے حربے استعمال کرتے ہیں، ہمیں اپنے عقائد و افکار کی حفاظت کے لیے ان کے خلاف کام کرنا چاہیے۔


یہ بھی پڑھیں: علماء دیوبند اور علم حدیث

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے