Header Ads Widget

ریاکاری کیا ہے؟

      ریاکاری کیا ہے؟

ریاکاری کیا ہے؟ اقسام، علامات، علاج

از قلم: عبدالعلیم دیوگھری

  اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، نیت جس قدر بےلوث اور خلوص آمیز ہوگی اس قدر عمل کی تاثیر و قوت اور اس پر مرتب ہونے والے اجر و ثواب میں اضافہ ہوگا، دین اسلام میں اخلاص و للہیت کو خاص اہمیت حاصل ہے؛ بلکہ اعمال کی قبولیت کا انحصار حسن نیت پر ہی رکھا گیا ہے، اسلام کی نظر میں ایک انسان کی کامیابی کا معراج یہ ہے کہ اس کے تمام اعمال و افعال، اخلاق و کردار، حرکات و سکنات اور روابط و تعلقات میں اخلاص و للہیت کا عنصر پوری قوت سے جلوہ گر ہو جائے۔

         نمود و نمائش، شہرت و جاہ طلبی، تصنع و تکلف اور ریاکاری و ظاہرداری اسلام کی رو سے نہایت مذموم اور قبیح صفات ہیں، اس کی تعلیمات اس بات کا حکم دیتی ہیں کہ بندۂ مومن کا مرکز نگاہ اور منتہائے مقصود ہر ہر عمل میں خالص اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہو، وہ اپنا ہر کام ستائش و صلے کی تمنا یا خود کو بڑا ظاہر کرنے کے جذبہ سے خالی ہوکر انجام دے۔


         قرآن و حدیث میں ریاکاری کی مذمت کے حوالے سے صاف اور صریح ارشادات موجود ہیں، جن کو ہم آیندہ سپرد قرطاس کریں گے، سردست مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ریاکاری کسے کہتے ہیں؟ ریاکاری کی کتنی قسمیں ہیں؟ اس حوالے سے چند معروضات قلم بند کر دیے جائیں۔


ریاکاری کیا ہے؟

         ریا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا ماخذ رؤیۃ ہے، رؤیت کے معنی دیکھنے کے آتے ہیں، چوں کہ ریاکار اپنا عمل دوسروں کو دکھانے کی غرض سے انجام دیتا ہے اس لیے اس کے اس عمل کو ریا سے تعبیر کیا جاتا ہے، جسے اردو میں ریاکاری کہتے ہیں۔

ریاکار انسان اپنا عمل اللہ کی رضاجوئی کے لیے نہیں؛ بلکہ انسانوں کی رضاجوئی کے لیے کرتا ہے؛ تاکہ وہ خلق کی نگاہوں میں معزز و مکرم بن جائے اور لوگوں کے دلوں میں اس کے تقوی کا رعب قائم ہو جائے۔

ریاکاری کی قسمیں

          ریاکار آدمی اپنے مقصدِ شہرت و ناموری کے حصول کے لیے متعدد حیلے تراشتا ہے:

(۱) کبھی وہ جسمانی اعتبار سے ریاکاری کا مظاہرہ کرتا ہے، مثلا عوام کی نگاہوں میں خود کو انتہائی لاغر و نحیف اور کمزور ظاہر کرتا ہے؛ تاکہ لوگ سمجھیں کہ کثرت عبادت اور پیہم ریاضت کی وجہ سے اس کے جسم میں کمزوری در آئی ہے۔

(۲) اسی طرح کچھ لوگ لباس و پوشاک کے ذریعے عوام کو جھانسا دیتے ہیں بہ ایں طور کہ وہ انتہائی بوسیدہ، خستہ اور پھٹے پرانے پیراہن میں ملبوس اور پراگندہ حال میں عوام کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں؛ تاکہ لوگ خیال کریں کہ ان پر خشیت الہی اور خوف آخرت کی ایسی کیفیت طاری ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا سے اس قدر بےگانہ اور غافل ہو گئے ہیں کہ انھیں اپنی ذات کی بھی کوئی پروا نہیں رہی ہے۔ 

(۳) اس کے برعکس کچھ ریاکار اپنی بزرگی اور ولایت ظاہر کرنے کے لیے عمدہ، سفید اور نفیس قسم کے پوشاک زیب تن کرکے، ہاتھ میں تسبیح تھامے سر پر دستار سجائے عوام کو اپنی مصنوعی بزرگیت کا معتقد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

(۴) وہیں بہت سے لوگ لوگوں کو دکھانے کی غرض سے عبادات کو انتہائی خشوع خضوع کے ساتھ انجام دیتے ہیں، ان کی عبادات میں خلوص نہیں ہوتا ہے وہ اللہ کی رضاجوئی کے واسطے نہیں؛ بلکہ مخلوق کی رضاجوئی کے لیے عبادات کا اس قدر اہتمام کرتے ہیں۔ جو لوگ ریاکاری کے جذبے سے عمل انجام دیتے ہیں ان کا عمل نہ صرف یہ کہ اکارت و رائیگاں چلا جاتا ہے؛ بلکہ وہ ان کے لیے وبال کا سبب بھی بن جاتا ہے۔



ریاکاری کی مذمت

         ریاکاری ایک حرام فعل ہے، اللہ تعالی نے عبادت میں کسی غیر کو شریک کرنے سے منع فرمایا ہے، اللہ کے سوا کسی دوسرے کو دکھانے کی غرض سے عبادت کرنا بھی عبادت میں شریک کرنا ہے؛ چناں چہ ارشاد فرماتے ہیں: 


قُل إِنَّما أَنا بَشَرٌ مِثلُكُم يوحى إِلَيَّ أَنَّما إِلهُكُم إِلهٌ واحِدٌ فَمَن كانَ يَرجو لِقاءَ رَبِّهِ فَليَعمَل عَمَلًا صالِحًا وَلا يُشرِك بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (سورۃ الکہف)

ترجمہ: آپ کہہ دیجیے، بےشک میں تو تم ہی جیسا بشر ہوں، میرے پاس بس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، سو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھے تو نیک کام کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی شریک کو نہ کرے۔


اسی طرح حدیث قدسی ہے:

عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا: "قال تعالى : أنا أغنى الشركاء عن الشرك؛ من عمل عملا أشرك معي فيه غيري تركتُه وشِرْكَه" (صحیح مسلم)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: میں تمام شرکا سے زیادہ شرک سے بےنیاز ہوں، جو شخص کوئی ایسا عمل انجام دیتا ہے جس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کو بھی شریک کرتا ہے، تو میں اسے اس کے شرک سمیت چھوڑ دیتا ہوں۔


اسی طرح ایک اور روایت ہے:

أخرج الإمام أحمد عن محمود بن لبيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر قالوا: وما الشرك الأصغر يا رسول الله؟ قال: الرياء. (مسند احمد)

ترجمہ: امام احمد رحمہ اللہ نے محمود بن لبید کی سند سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تم پر جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ شرک اصغر ہے، صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ شرک اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ریاکاری۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاکاری کو صریح شرک نہیں کہا؛ بلکہ شرک اصغر سے تعبیر کیا؛ کیوں کہ ایسا کرنے والا اللہ کی الوہیت میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہے، لیکن چوں کہ اپنی عبادت کے اغراض میں لوگوں کو دکھانا بھی شامل کر لیتا ہے اس لیے اسے شرک اصغر کہا گیا۔

نیز قرآن کریم میں ریاکاری منافقوں کا طرز عمل بتایا گیا ہے؛ جیسا کہ ارشاد باری ہے:

 إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا. (سورة النساء)

ترجمہ: بلاشبہ منافق لوگ چالبازی کرتے ہیں، حالاں کہ اللہ تعالی اس چال کی ان کو سزا دینے والے ہیں، اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں، تو بہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، صرف آدمیوں کو دکھلاتے ہیں، اور اللہ تعالی کا ذکر بھی نہیں کرتے؛ مگر بہت ہی مختصر۔


اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ منافقین خود کو لوگوں کی نگاہوں میں مسلمان ظاہر کرنے کے لیے دکھاوے کی غرض سے نمازیں پڑھتے تھے، ان کی نمازوں میں خشوع و خضوع اور اخلاص و نیت نیتی کا فقدان ہوتا تھا، وہ انتہائی کاہلی کے ساتھ مساجد میں صف آرا ہو جاتے تھے، ان کی زبانیں بھی اللہ کے ذکر سے ناآشنا ہوتی تھیں؛ کیوں کہ یہ چیزیں ان کا مطلوب و مقصود نہیں تھیں، ان کا مقصد تو بس یہ تھا کہ لوگ انھیں صفوں میں دیکھیں اور سمجھیں کہ یہ بھی ہماری طرح اسلام کے نام لیوا ہیں۔

           اسی طرح ریاکاروں کی کیفیت بھی منافقین کی طرح ہی ہوتی ہے ان کا غرض بھی محض دکھلانا ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے وہ انتہائی پرسکون اور بہ ظاہر خشوع و خضوع کے انداز میں نمازیں پڑھتے ہیں؛ تاکہ لوگوں کے قلوب میں اس کی بزرگیت کا رعب قائم ہو، گویا ریاکار اور منافق من وجہٍ ایک دوسرے کے مماثل ہیں کہ ایک اپنی اسلامیت ظاہر کرنا چاہتا ہے اور دوسرا اپنی بزرگیت و ولایت۔


ریاکاری کی علامتیں

         ہر مومن پر لازم ہے کہ وہ ریا جیسی قبیح صفت سے خود کو محفوظ رکھے، جس کے لیے ان علامات کا جاننا از حد ضروری ہے جو ریاکاری پر دلالت کرتی ہیں؛ لہذا چند علامتوں کو بیان کر دیا جاتا ہے:

(۱) شہرت و ناموری اور تعریف و ستائش کا جذبہ دل میں پیدا ہو جانا۔

(۲) تکبر کا پیدا ہو جانا اور لوگوں کے ساتھ تواضح و انکساری سے پیش نہ آنا۔

(۳) لوگوں کے خوف یا ان کی خوشنودی کے جذبے سے کوئی کام کرنا۔

(۴) شرعی احکام کی بابت فتوی دینے میں جلدی کرنا اور اس میں پیش پیش رہنا۔

(۵) رائے سے مخالفت کرنے کا رجحان پیدا ہونا اگر چہ وہ صحیح ہو اور متفقہ رائے سے دور رہنا۔

(۶) اپنی خلوت گاہ میں عبادت کرتے وقت عبادت میں دل نہ لگنا۔

(۷) عبادات کی انجام دہی کے وقت دل میں کسی کی توجہ حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہونا۔



ریاکاری کا علاج

           اسلام میں ریاکاری کی صریح ممانعت ہے، اور ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی جملہ طاعات و عبادات کو اس ہلاکت خیز جذبے سے محفوظ رکھے جو عمل کی ساری محنت پر دفعۃ پانی پھیر دیتا ہے؛ لہذا جو کوئی یہ محسوس کرے کہ اس کے اندر ریا کے جذبے کا ادنی شائبہ بھی موجود ہے اسے فی الفور اس کا علاج کرنا چاہیے، جس کے لیے درج ذیل تجاویز کو رو بہ عمل لایا جا سکتا ہے۔

(۱) عبادات کی ادائیگی کے دوران اس بات کا استحضار رکھے کہ اس کی جملہ حرکات و سکنات پر اس کے خالق و مالک کی نظر ہے، وہ اسے دیکھ اور سن رہا ہے؛ بلکہ اس کے دل میں اٹھنے والے ہر فکر و خیال اور جذبے سے واقف ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں اسے احسان سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی عبادات کو اس کیفیت میں ڈوب کر ادا کرنا کہ گویا وہ اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت نہ ہو تو کم از کم یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی اسے دیکھ رہے ہیں۔


(۲) ریاکاری کے مرض سے نجات کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے؛ کیوں کہ وہی ہے جو شر سے بندوں کی حفاظت کرتا اور خیر کی توفیق دیتا ہے، نیز جب حق تعالی سے کسی گناہ سے بچنے کی دعا کی جاتی ہے تو اس کی قبولیت کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔


(۳) ریاکاری کے نیتجے میں مرتب ہونے والے منفی اثرات کے متعلق غور کرنا چاہیے، کہ کس طرح ریاکاری کا جذبہ عمل کی روح کو ختم کر دیتا ہے، ساری محنت پر پانی پھیر دیتا ہے اور اللہ تعالی کے غیض و غضب کا سبب بنتا ہے۔


(۴) ریاکاری کی دنیوی و اخروی سزاؤں کا استحضار کرنا چاہیے کہ اگر لوگوں کو اس کی ریاکاری کا علم ہو گیا تو اس کی بدنامی و بےآبروئی کا کیا عالم ہوگا، اور آخرت کی سزا تو ظاہر ہے۔


(۵) خلوت و تنہائی میں عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے اور اس کی عادت ڈالنی چاہیے اور ایسی جگہوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں خلق کا اجتماع ہوتا ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے