Header Ads Widget

اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق احادیث کی روشنی میں

اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق احادیث کی روشنی میں


اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق احادیث کی روشنی میں
از: عبدالعلیم دیوگھری

 اسلام ایک فطری اور آفاقی دین ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اس کی تعلیمات زندگی کے تمام تر شعبوں پر حاوی ہے، حیاتِ انسانی سے متعلق ہر نوع کے مسائل کا حل اس کے اندر موجود ہے، زندگی کا کوئی شعبہ یا باب ایسا نہیں جس کے حوالے سے اس کی کوئی رہنمائی موجود نہ ہو۔ اس میں جہاں انسانیت کی روحانی ترقی و عروج، صلاح و فلاح اور اصلاح و تزکیہ کے لیے الہامی تعلیمات موجود ہیں وہیں اس کی مادی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی اور جمالیاتی گوشوں سے متعلق بھی بےشمار محکم و جامع اصول و قوانین موجود ہیں۔

یوں تو انسانی زندگی کے مختلف شعبہ جات (Branch) ہیں؛ تاہم ان میں سب سے اہمیت و مقام کا حامل وہ شاخ ہے جسے معاشرت (society) سے موسوم کیا جاتا ہے؛ کیوں معاشرتی سطح پر ہی تمام تر شاخوں کا اجتماع ہوتا ہے، یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد انسان کے من جملہ تعلقات مجتمع ہوتے ہیں اور ایسی منظم و مرتب اجتماعیت کو تشکیل دیتے ہیں جو حیات انسانی کے لیے فطرتا ناگزیر ہے۔

         انسان جبلی طور پر اجتماعی شعور رکھتا ہے، اسلام نے اس شعور کا نہ صرف یہ کہ لحاظ کیا ہے؛ بلکہ ایسے محکم اور فطری قوانین و اصول بھی مقرر کیے ہیں جو اس کی بقا و استحکام کے ضامن ہیں اور ایسے تمام تر اسباب و عوامل (Factors)  کی راہیں مسدود کی ہیں جو کسی نہ کسی درجے میں اس اجتماعیت کو نقصان پہنچانے اور افتراق و انتشار پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

          پڑوسیوں کے لیے اخلاقی و قانونی حقوق کا تعین، اس کا تحفظ اور اس کو انجام دینے کے تاکیدی احکام در حقیقت اسی اجتماعیت کی بقا کے پیش نظر ہیں۔ کیوں کہ خونی و خاندانی رشتوں کا دائرہ اگر چہ نسلی رشتوں اور اقربا پر ختم ہو جاتا ہے؛ لیکن اجتماعی سطح پر جب اس کی توسیع کی جائےگی تو سب سے پہلے ہمسایے اس میں داخل ہوں گے، کیوں نسلی رشتوں اور ہمسایوں میں بہت سے اوصاف مشترک ہوتے ہیں، جس طرح ایک رشتہ دار قریب، رفیق، دکھ درد کا ساتھی اور بہت سے امور میں شریک و سہیم ہوتا ہے اسی طرح ہمسایہ بھی قریب، رہائش کا رفیق اور کام کاج کا ساتھی ہوتا ہے، چناں چہ اگر پڑوسیوں کے درمیان کسی قسم کی رنجش اور کشیدگی پیدا ہو جائے یا تعلقات ناخوشگوار ہو جائیں تو اس سے مطلوبہ اجتماعیت متاثر ہوتی ہے اور معاشرتی روابط غیر مستحکم ہونے لگتے ہیں، اسی بنا پر اسلام نے پڑوسی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ اخلاقی طور پر حسن سلوک اور خوش معاملگی کا حکم دیا ہے؛ بلکہ قانونی طور پر بھی اس  کو حقوق عطا کیے ہیں۔


         ہمسایے خدا کی عظیم نعمت ہیں، دین اسلام نے ان کی قدر و منزلت کو بلند کیا ہے اور اس کے حقوق ادا کرنے کی بڑی سخت تاکید ہے، اس کا اندازہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جبریل امین پڑوسیوں کی بابت احکام لیکر میرے پاس اس کثرت سے وارد ہوتے تھے کہ مجھے خدشہ ہونے لگا کہ کہیں وراثت میں بھی ان کو مستحق نہ قرار دے دیا جائے۔ (بخاری)


احادیث مبارکہ میں کثرت سے پڑوسیوں کے ساتھ عمدہ رویہ رکھنے اور اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کی گئی ہے، ہم یہاں نمونہ کے طور پر چند روایات کو پیش کر رہے ہیں۔

پڑوسیوں کے حقوق حدیث کی روشنی میں

انھیں اپنی ذات سے تکلیف نہ پہنچانا

یوں تو حسنِ سلوک کے متعدد درجے ہو سکتے ہیں؛ مگر اس کا سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ اگر کسی لیے نفع رسانی کا سبب نہیں بن سکیں تو کم از کم اس کی ضرر رسانی کا بھی سبب نہیں بننا چاہیے، حسن سلوک کی یہی آخری حد ہے؛ لہذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم پڑوسیوں کے کام آئیں انھیں نفع پہنچائیں ان کی مشکلات کو دور کریں؛ لیکن اگر ہم یہ سب نہیں کر سکتے تو ہم پر لازم ہے کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائیں، اگر کسی کے دل میں ذرہ سی بھی ایمان و اسلام کی رمق باقی ہوگی وہ ضرور اس بات پر عمل کرےگا؛ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح لفظوں میں اس کو ایمان کا معیار قرار دیا ہے، آپ ارشاد فرماتے ہیں:

واللَّهِ لا يُؤْمِنُ، واللَّهِ لا يُؤْمِنُ، واللَّهِ لا يُؤْمِنُ. قيلَ: ومَن يا رَسولَ اللَّهِ؟ قالَ: الذي لا يَأْمَنُ جارُهُ بَوايِقَهُ. (صحيح البخاري)

ترجمہ: بخدا وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا، بخدا وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا، بخدا وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا، دریافت کیا گیا کون یارسول اللہ؟ فرمایا وہ شخص جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ.  (صحيح البخاري)

ترجمہ: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ہرگز اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔


حسن سلوک کرنا

اسلام میں حسن سلوک کا دائرہ نہایت وسیع ہے، وہ انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ تک خوش اخلاقی اور رحم و کرم کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کرتا ہے، حسن سلوک دلوں کو جوڑنے اور تعلقات کو مضبوط بنانے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے، حسن سلوک دلوں میں الفت و محبت کی بیج بوتا ہے اور نفرت و کدورت کی سیاہیوں کو زائل کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کو پسند اور بدسلوکی کو سخت ناپسند فرمایا ہے، ذیل میں تین حدیثیں پیش کی جا رہی ہیں جن سے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


پہلی حدیث:  عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم و الذي نفْسِي بِيدِهِ ، لا يُؤمِنُ عبدٌ حتى يُحِبَّ لِجارِهِ أَوْ قال لِأَخيه ما يُحِبُّ لِنفسِهِ. (صحيح المسلم)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اس وقت تک کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے پڑوسی یا اپنے بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔


دوسری حدیث: عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: مَنْ كاَنَ يُؤْمِنُ بَاللهِ واليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جاَرَه. (صحيح المسلم)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔


تیسری حدیث: عن عبدالله بن عمرو بن العاص عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: خيرُ الأصحابِ عندَ اللهِ خيرُهم لصاحبِه ، و خيرُ الجيرانِ عندَ اللهِ خيرُهم لجارِه. (الأدب المفرد)

ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ساتھیوں میں سے بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو اور پڑوسیوں میں بہتر پڑوسی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔

مالی اعانت

معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا ہے اور افراد میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، کوئی خوش معاش ہوتا ہے تو کسی کی معاشی زندگی ابتری کی شکار ہوتی ہے، غرض معاشرے میں امیر و غریب ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، اسلام نے اہل ثروت پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ محتاجوں اور تنگ دستوں کی دست گیری کریں انھیں مالی امداد فراہم کریں اور ان کی ہر ممکن خدمت کریں۔ چناں چہ اسلام نے زکات کا نظام نافذ کیا اور صدقہ و خیرات کا طریقہ جاری کیا۔

اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کا چوں کہ خاص خیال رکھا گیا ہے اس وجہ سے زکات و صدقات میں ان کا حصہ مقدم رکھا گیا ہے، محتاج پڑوسی کی اعانت سے منھ پھیرنا سخت گناہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت الفاظ میں ایسا کرنے والوں کے لیے وعیدیں سنائی ہیں؛ چناں چہ حدیث شریف میں ہے: 

عن ابن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: 

كَمْ مِنْ جَارٍ مُتَعَِّلقٍ بِجارِهٖ يَوْمَ الْقِيامةِ، يَقُوْلُ، ياَ رَبِّ! هٰذَا أَغْلَقَ باَبَه دُوْنِيْ، فَمَنَعَ مَعْرُوْفَه. (الأدب المفرد)

 ترجمہ: قیامت کے دن کتنے ہی پڑوسی ایسے ہوں گے جو اپنے پڑوسی کے دامن پکڑے ہوئے ہوں گے، وہ کہیں گے کہ اے میرے رب اس شخص نے مجھ پر اپنا دروازہ بند رکھا تھا اور روزمرہ کی چیزوں کو روکے رکھتا تھا۔

عزت و آبرو کی حفاظت

پڑوسی کا صرف یہی حق نہیں ہے کہ اپنی ذات سے انھیں کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے؛ بلکہ اس کی عزت و آبرو کی حفاظت بھی اس کے حقوق میں شامل ہے، پڑوسی کی عزت و آبرو کی حفاظت نہ کرنے اور اس اس کے جان و مال کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کا گناہ بڑا سخت ہے، چناں چہ حدیث شریف میں آتا ہے:

عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أيُّ الذنب أعظم؟ قال: أن تجعل لله نِدًّا، وهو خَلَقَكَ قلت: ثم أَيُّ؟ قال: ثم أن تقتل ولدك خَشْيَةَ أن يأكل معك، قلت: ثم أَيُّ؟ قال: ثم أن تُزَانِي حَلِيْلَةَ جَارِكَ. (متفق عليه)

ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا جب کہ اس نے تمھیں پیدا کیا ہے، میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کر دینا کہ وہ تمھارے ساتھ کھائیں گے، میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔


عیادت کرنا

پڑوسی کی صحت ناساز ہو جائے تو ایسے وقت میں اس کی عیادت کے لیے جانا اور مزاج پرسی کرنا بھی اس کے حقوق میں داخل ہے، اور اس حوالے سے مسلم و غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یہودی پڑوسی کی بیمار پرسی کی ہے؛ چناں چہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا چلو ہم اپنے یہودی ہمسایے کی عیادت کرنا چاہتے ہیں؛ چناں چہ آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا تمہارا کیا حال ہے اور تمہارا دل کیسا ہے؟ (کتاب الآثار)

آزادی کی حفاظت

آزادی انسان کا فطری حق ہے، ہر صورت میں اس کا تحفظ ضروری ہے، خواہ وہ آزادی کسی کی بھی ہو، بالخصوص پڑوسی کی آزادی کی حفاظت کرنا بےحد ضروری ہے۔

چناں چہ حدیث شریف کا مضمون ہے بشر بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں چند افراد شبہ کی بنیاد پر گرفتار کرکے لائے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اتنے میں ایک صحابی کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں یا رسول اللہ میرے پڑوسی کو کس گناہ کے بدلے گرفتار کیا گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار سوال سن کر کوئی جواب نہ دیا؛ تاکہ شہر کا کوتوال گرفتار کرنے کی وضاحت پیش کرے، صحابی نے جب تیسری دفعہ یہی سوال دہرایا اور کوتوال نے کوئی جواب نہیں دیا تو آپ نے فرمایا: خلوا له عن جيرانه یعنی اس کے پڑوسی کو رہا کردو۔

(ابوداؤد کتاب القضا)

حق شفعہ

شفعہ پڑوسی کا شرعی و قانونی حق ہے، شفعہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا مکان یا جائیداد وغیرہ فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے پڑوسی سے پوچھے کہ کیا وہ اس کے خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ خریدنا چاہے تو وہ اس کے خریدنے کا اولیں مستحق ہوگا، اور اگر نہ خریدنا چاہے تو پھر جسے چاہے فروخت کر سکتا ہے، لیکن اگر پڑوسی سے پوچھے بغیر فروخت کر دیا تو اب پڑوسی حق شفعہ کی بنا پر عدالت میں مقدمہ دائر کر سکتا ہے۔

فقہ کی کتابوں میں اس موضوع کے حوالے سے طویل مباحث موجود ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے