Header Ads Widget

گیان واپی مسجد کا تعارف

 گیان واپی مسجد کا تعارف 

گیان واپی مسجد کا تعارف



از قلم: محمد یاسر رگھولی 

 متعلم دارالعلوم دیوبند 

   

     بابری مسجد کے غیر منصفانہ فیصلے کے بعد سے ہی ہندو انتہا پسندوں کے حوصلے اس قدر بلند ہو گئے ہیں کہ ملک کی دیگر متعدد مساجد پر بھی وہی جھوٹے اور کھوکھلے دعوے کرکے ملک میں بد امنی کی فضا قائم کرنے میں مصروفِ عمل ہیں ، اس وقت ہندوستان کی کئی ایک مساجد اس تنازعے کا شکار ہیں ، انہیں متنازع مساجد میں سے ایک گیان واپی بھی ہے۔

    ہندوؤں کا دعوی ہے کہ یہ مسجد کاشی وشوناتھ مندر کو مسمار کرکے اس کے ملبے پر تعمیر کی گئی ہے تو وہیں دوسری طرف مسلم طبقہ اس کی مکمل تردید کر رہا ہے اور صحیح بات بھی یہی ہے کیونکہ تاریخی اعتبار سے یہاں مندر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

     تا دمِ تحریر اس موضوع پر زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا ہے لیکن جو کچھ بھی لکھا ہے اس کا حاصل درج ذیل سطروں میں لکھا جا رہا ہے۔

   وجہِ تسمیہ : عام تاثر یہ ہے کہ "گیان واپی" اس مسجد کا نام ہے حالانکہ یہ تاثر غلط ہے ، کیونکہ گیان واپی بنارس کے اس محلے کا نام ہے جہاں یہ مسجد واقع ہے ، اسی مناسبت سے اس کو "جامع مسجد گیان واپی " کہا جاتا ہے ، بقول حضرت مولانا عبد السلام نعمانی اس کی وجہِ تسمیہ کے سلسلے میں یہ روایت مشہور ہے کہ 

           " گیان واپی محلے کا نام ہے اسی مناسبت سے مسجد اسی محلے کی طرف منسوب ہے ، گیان واپی نام پڑنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ہندوؤں کے مہا دیو جی گو بچشم بظاہر پتھر ہیں لیکن اپنی عقل کے زور سے ایک باؤلی (جو وہیں کسی جگہ تھی) چلے گئے پھر واپس نہیں ہوۓ یہ روایت زبانی مشہور ہے ۔       (تاریخ آثار بنارس ص ٩٩)

   یومِ تاسیس : یومِ تاسیس کے متعلق قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں تاریخ یا فلاں بادشاہ کے عہد میں اس کی بنیاد رکھی گئی ، تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس مسجد کا وجود اکبر بادشاہ کے عہد سے پہلے سے ہے کیونکہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے اس وقت کے بنارس کے مشہور بزرگ حضرت شاہ مخدوم طیب بنارسی (متوفیٰ ١٠٤٢ھ) اسی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرتے تھے ۔ 

     اس مسجد کی تاسیس سے متعلق یہ بات بھی کہی جاتی  ہے کہ سلطان ابراہیم شاہ شرقی (متوفیٰ ٨٤٤ھ مطابق ١٤٤٠ء) جونپور کے صدر الصدور قاضی صدر جہاں اور ان کے ایک دولت مند شاگرد شیخ سلیمان محدث نے نویں صدی ہجری میں عالمگیر بادشاہ (متوفیٰ١١١٧ھ مطابق  ١٧٠٧ء) کے دادا ہمایوں بادشاہ (متوفیٰ ٩٦٣ھ مطابق ١٥٥٦ء) کے عالمِ وجود میں آنے سے بہت پہلے بنوائی ہے ۔ 

     مذکورہ بالا باتیں اگرچہ حتمی اور یقینی نہیں ہیں ، لیکن انہیں سِرے سے بعید از امکان قرار دینا بھی صحیح نہیں ، کیونکہ  اکبر کا دورِ حکومت محدث سلیمان سے بہت بعد کا ہے ، بہر حال اس کا صحیح علم تو اللّٰہ تعالیٰ ہی کو ہے ۔

    مسجد کے مغربی حصے میں  اب سے تقریباً 75 سال قبل تک ایک قناتی مسجد تھی جس کا فی الحال نام و نشان بھی نہیں ہے ، یہی وہ جگہ ہے کہ جو  قناتی مسجد کا فرش ہے ، جس پر موجودہ دور کے فرقہ پرست ہندو زبردستی شرنگا گوری کی ادائیگی کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے آۓ دن تنازعہ ہوتا رہتا ہے حالانکہ ان کی شرنگاگوری کی اصل جگہ مسجد  کے مغربی موڑ سے تقریباً ٥٠ قدم پر واقع پھول منڈی میں ہے ۔

  مدرسہ ایوانِ شریعت : اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمة کے والد شاہجہاں نے ١٠٤٨ھ میں مسجد کی پشت پر واقع کھنڈر کی زمین پر ایک مدرسہ "ایوانِ شریعت" کے نام سے قائم کیا جس میں علومِ دینیہ کی تعلیم دی جاتی تھی ، اس مدرسے کی عمارت تو بہت پہلے ہی منہدم ہو کر کھنڈر کی صورت اختیار کر گئی لیکن اب سے تقریباً ٥٥ سال قبل تک جامع مسجد میں ہی مدرسہ چلتا تھا ، اِس وقت اُس مدرسے کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ۔ 

    ایک غلط فہمی کا ازالہ : آخر میں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتا چلوں کہ ایک بڑی تعداد میں  لوگوں کا خیال ہے کہ اس مسجد  کے بانی اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمة ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ شروع میں متعدد حوالوں سے یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ اس مسجد کا وجود اکبر کے دورِ حکومت سے پہلے سے ہے لہٰذا اورنگزیبؒ کو اس کا بانی قرار دینا صحیح نہیں ، البتہ اتنا ضرور ہے کہ اورنگزیبؒ نے ١٠٦٨ھ مطابق ١٦٥٨ء میں اس کی تجدیدِ تعمیر کرائی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو مذکورہ بالا شبہ پیدا ہوا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے