Header Ads Widget

دیوبندیت کیا ہے؟

 دیوبندیت کیا ہے؟

دیوبندیت کیا ہے؟

از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

دیوبندیت کا لفظ جن افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ہے، یا جس جماعت کی نمائندگی کرتا ہے وہ کوئی جدید افکار، نئے خیالات و نظریات کا حامل نہیں ہے کہ جن کو گردش دوراں، حوادث وقت نے پیدا کیا ہو، یا انقلاب زمانہ کے زیر اثر وجود پذیر ہوا ہو، بلکہ یہ دراصل وہی توسط و اعتدال، جامعیت و اکملیت والا مسلک ہے جن کا تسلسل خیر القرون سے چلا آرہا ہے، اور جن کو زبان نبوت نے ”ما أنا عليه و اصحابی“ کے ذریعے تعبیر فرمایا، اور جس کی مزید واضح تعبیر علماء امت نے ”اہل سنت والجماعت“ کے ساتھ کیا ہے، اس تعبیر میں دو بنیادی عنصر ہیں، یعنی یہ تعبیر دو لفظوں سے مرکب ہے، ایک ”السنۃ“ دوسرا ”الجماعۃ“ سے، سنت سے مراد قانون، دستور، طریقۂ ہدایت، اور الجماعت سے مراد ان نفوس قدسیہ کا گروہ جو رہبران طریق ہیں، اور جن کی معیت و رہنمائی میں صراطِ مستقیم پر چلا جاتا ہے، یہی دو چیزیں اس مسلک کے خمیر ہیں، سنت یعنی وہ دستور الہیٰ جو حق تعالٰی شانہ نے لوح محفوظ میں قلم بند فرمایا، پھر بلفظہ اس کو بیت العزت میں اتارا، پھر بیت العزت سے نجما نجما قلب نبوت پر نازل کیا، اور بالآخر زبان نبوت نے خلق خدا کو سنایا جن کی ایک خاص تعبیر قرآن یا وحی متلو ہے، اور جن کی تفسیر و توضیح گاہے بہ گاہے لسان نبوت کے ذریعے وحی غیر متلو کی شکل میں ظاہر ہوا، جو درحقیقت مراد خداوندی ہی کی توضیح مزید تھی، اسی مراد خداوندی کو دستور الہیٰ یعنی سنت کہا جاتا ہے، اور الجماعت کا مصداق مقدس شخصیات یعنی صحابہ کرام سے لے کر جمہور علماءِ امت، تابعین اور تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین کی روش پر قائم رہنا، انہی کے بیان کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں قرآن و سنت کو سمجھنا، ان تمام کے بارے میں حسن ظن رکھنا، یہی وہ چیزیں ہیں جس کی جامع تعبیر ”اہل سنت والجماعت“ سے کی جاتی ہے، یعنی ایسا مسلک جو دستور الہیٰ کو اولیت کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ متقدمین میں سے اہل حق کی جماعت کو بھی مذہب و شریعت میں بطور رہنما تسلیم کریں، یہی وہ جامع تعبیر اور جامع طریقہ ہے جو خیر القرآن سے سلسلہ بہ سلسلہ ہوتا ہوا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک پہنچا اور جن سے پھر یہی سلسلہ مکمل طور پر علماءِ دیوبند تک پہنچا، اور یہی جامعیت، اعتدال و میانہ روی ان کے لیے وجہ امتیاز و تعارف بنا۔

 


قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالٰی نے امت مسلمہ کو ”امۃ وسطا“ کہا ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے اس امت کا امتیازی وصف اعتدال اور میانہ روی ہے، اور چونکہ علماءِ دیوبند اس مکمل دین کے حامل ہیں اس لیے ان کے مسلک کے مزاج و مزاق میں طبعی طور پر یہی توسط و اعتدال سرایت کیے ہوئے ہیں، اور ان کی میانہ روی افراط و تفریط کے درمیان سے اس طرح گزرتی ہے کہ ان کا دامن ان دو انتہائی سروں میں سے کسی سے بھی نہیں الجھتا۔

                علماءِ دیوبند کے توسط و اعتدال کی ایک بڑی مثال خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے، کہ ایک بے ادب اور تفریط و تنقیص کا آمیز جماعت تو وہ ہے جو آپ کی شان رسالت میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام محض پیغام رساں، مخبر اور ڈاکیے کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی ذمہ داری محض بے کم و کاست پیغام اور اخبار کی ترسیل و تبلیغ ہے، اور بس اس سے زیادہ معاذ اللہ ان کی کوئی حیثیت و مقام نہیں ہے، اور دوسرا مبالغہ آمیز اور غلو پسند وہ جماعت ہے جو گروہ انبیاء بشمول سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ما فوق الفطرت قرار دیتے ہیں، کبھی تو وہ پوشیدہ لفظوں میں انبیاء کو اوتار قرار دے کر احد اور احمد میں میم کے تفریق و تمییز کو لغو و بے معنی قرار دیتے ہیں، تو کبھی اس مقدس گروہ کے لیے ایسے اختیار و اوصاف تسلیم کرتے ہیں جو بلاشبہ ذات باری تعالی کا وصف خاص اور شان ربوبیت ہی کے لائق ہے، یا کبھی صرف ذاتی اور عرضی کا فرق کرتے ہیں، اور کبھی پردۂ مجاز میں وجود ربانی کی حقیقت کا اعتقاد رکھتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ دونوں کھلی گمراہی اور افراط تفریط کی واضح مثال ہے، جو بر بناے جہالت امت کا ایک طبقہ اپنائے ہوئے ہیں، حالانکہ اسلام افراط و تفریط اور مبالغہ و تنقیص دونوں خامیوں سے بالکل پاک ہے، ان دونوں نقائص کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل نے ہر مقام میں امتیوں کو علمی و فکری ہر سطح پر توسط و اعتدال کی طرف رہنمائی فرمائی اور اسی کی تلقین و تبلیغ کرتے رہے، چناںچہ علماءِ اہلِ سنت والجماعت نے ان دونوں متجاوز عن الحدود رویوں اور نظریوں کے درمیان اعتدال کا نقطۂ نظر قائم کیا، اور وہ یہ ہے کہ یہ گروہ مقدسین جہاں پیغام الہیٰ کے امین ہیں، جنہوں نے کمال دیانت و امانت اور کمال حزم و احتیاط کے ساتھ بے کم و کاس، من و عن پیغام الہیٰ کو مخلوق الہی تک پہنچایا ہے، جو عالم بشریت کا سب سے بلند تر مقام ہے وہیں اس کے رمز شناس معلم اور اس کی روشنی میں مخلوق الہیٰ کے مربی و محسن بھی ہیں، اس لیے جہاں وہ خدا کے سچے پیغمبر ہیں جس سے ان کی مقبولیت عند اللہ اور امانت و راست بازی کھلتی ہے، وہیں وہ عالم کے معلم و مربی بھی ہیں جس سے ان کا محسن عالم ہونا ظاہر ہوتا ہے، پھر اسی کے ساتھ وہ انسانوں کو اخلاق انسانیت کا درس دینے والے شیوخ بھی ہیں جس سے ان کا محبوب عالم ہونا نمایاں ہوتا ہے، اس لیے وہ ہر تعظیم و عظمت کے مستحق،  ہر ادب و احترام کے مستوجب، اور ہر محبت و اطاعت کے محور و مرکز ہیں، مگر ساتھ ساتھ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ بلاشبہ بشر ہیں مگر پاک ترین بشر، ”کالیاقوت فی الحجر“ یعنی نوع بشر میں ان کے ہم مثل کوئی نہیں، پھر اسی مقدس طبقے کے آخری اور سب سے زیادہ برگزیدہ ہستی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر نور ہے، جن کی عظمت و سربلندی ہر بلند و برتر ہستی سے بوجوہ زیادہ اور بڑھ کر ہے، اسی لیے ان کی تعظیم و توقیر کے درجات اور حقوق بھی اوروں سے زیادہ ہیں، اور وہ یہ ہے کہ حضور سرور عالم سید الکونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر، افضل الانبیاء، افضل الکائنات ہیں، خاتم النبیین والمرسلین ہونا آپ کی ذات کے لیے وجہ امتیاز ہے، آپ تمام کمال و جمال مثلا خلت، اصطفائیت، کلیمیت، روحیت، صادقیت، مخلصیت اور صدیقیت وغیرہ کا جامع بلکہ مبدأِ نبوّت انبیاء اور منشأِ ولایت اولیاء ہیں، لیکن یہاں بھی ان تمام عقیدت و نیازمندی کے باوجود ایک مسلمہ حقیقت کا اقرار و اعتراف ہے کہ آپ بشریت سے خارج نہیں ہیں، بلکہ بشریت کے شاہکار ہیں، یہ وہ نظریہ ہے جو غلو و مبالغہ، افراط و تنقیص کے مابین معتدل اور متوسط ہے، اور اسی نظریے کے حامل علماءِ دیوبند رحمہم اللہ ہیں، اور یہی فکر علماءِ دیوبند اور وابستگان دیوبند کے مزاج و مذاق میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔

انبیاء علیہم السلام کے بعد صحابہ کرام کا مقدس گروہ ہے جنہوں نے براہ راست خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے تربیت حاصل کی، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اگر کسی طبقے کی پاکیزگی کو بیان کیا ہے تو وہ یہی صحابہ کرام کا طبقہ ہے، جیسے کہ قرآن مجید میں راشدون، مفلحون، صادقون اور رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ وغیرہ کے الفاظ آتے ہیں، قرآن مجید نے ان پاک نفوس کے تذکرے کو دوام بخشا جس کے سبب وہ ہمہ وقت ذکر و تلاوت میں، خطبات و مواعظ میں، مدرسوں اور خانقاہوں میں، مجالس و محافل میں نمایاں طور پر موضوع تذکرہ رہتے ہیں، لیکن صحابہ کرام کے حوالے سے بھی افراط و تفریط کے نظریات پیدا ہو گئے ہیں، کہ بعض کو تو نبوت سے بھی اعلی مقام دے دیا اور ان کو معصوم سمجھنے لگے، حتی کہ ان میں حلول خداوندی ماننے لگیں، جبکہ انہی کی جانب سے بعض اصحاب کو تنقیص و تکفیر کا ہدف بنایا گیا، سب و شتم کا نشانہ بنایا گیا، حتی کی لوگ ان کی مذمت میں غلو کر کے تبرائی بن گئے، علماءِ دیوبند یہاں بھی سابق کی طرح نقطہ اعتدال پر قائم ہیں، ان کے مسلک میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تقدس کے انتہائی مقام پر ہیں، مگر نبی یا خدا نہیں، بلکہ تمام بشری صفات، لوازمات اور ضروریات کے پابند ہیں، ان کے مراتب عام بشر سے کہیں زیادہ بالاتر ہیں لیکن صحابیت کے شرف میں سارے یکساں ہیں، البتہ ان میں بھی باہم فرق مراتب ہیں، پس علماءِ دیوبند ان کی عمومی عظمت و جلالت کی وجہ سے انہیں بلا استثنا نجوم ہدایت مانتے ہیں، اور بعد والوں کی نجات انہیں کا علمی و عملی اتباع کے دائرے میں منحصر سمجھتے ہیں، لیکن انہیں شارع نہیں سمجھتے یعنی ان کے لیے کسی چیز کا حلال و حرام کرنے کا اختیار نہیں مانتے، اور بحیثیت مجموعی ان سب کو ”الصحابۃ کلھم عدول“ کی روشنی میں دیانت و امانت کا اعلی نمونہ سمجھتے ہیں۔

علماءِ دیوبند کے توسط و اعتدال کا ایک اور نمونہ اولیاء کرام کے پاک نفوس کے متعلق نظریہ ہیں، جن کے بارے میں ایک تفریط آمیز گروہ تو وہ ہے جو ان کی شان میں زبان درازی کرنے سے نہیں چوکتی، اور نہ ہی ان کے تذکرے میں ان کے مقام و مرتبے کا لحاظ رکھتی ہے، جبکہ دوسرا غلو آمیز طبقہ وہ ہے جو ان پاک نفوس کو حاجت روا اور مشکل کشا تک سمجھتے ہیں، ان کے اعتقاد کے مطابق اولیاء کرام اولاد کی خوشیاں بھی دے سکتے ہیں، اور زمانے کے تھپیڑوں اور مصیبتوں سے نجات بھی دلا سکتے ہیں، یہ نظریہ سراسر عقیدۂ توحید کے مزاحم و متضاد ہے، اور شرک کی آلائشوں سے آلودہ ہے، جبکہ صحیح اور راہ اعتدال یہ ہے کہ ان کی قدر شناسی اور مرتبہ آگاہی کے بعد نہ ان شخصیات کے اسیر ہوا جاے اور نہ ہی ان کی شخصیت کے خلاف زبان درازی کی جاے، یہی درمیانہ راہ ہے اور اسی کے امین و پاسبان علماءِ دیوبند رحمہم اللہ ہیں۔

                  حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) نے مسلکِ دیوبند کو بطورِ خلاصہ کے سات عناوین کے تحت بیان فرمایا ہے، اور پھر ساتوں کو سبع سنابل سے تعبیر فرمایا، یعنی کہ یہ سات بالیں ہیں جن کے ہر ہر بال میں سو سو دانے ہیں، وہ سات عناوین درج ذیل ہیں۔

(١)   علم شریعت   اس عنوان کے تحت اعتقادات، عبادات، معاملات اور معاشرات وغیرہ انواع شامل ہیں، یعنی شریعت کے وہ علوم جو اہل صفا، باعمل اور مستند علمائے دین اور مربیان قلوب کی تربیت اور فیضان صحبت و معیت کے توسط سند متصل کے ساتھ حاصل ہوا ہے، نہ کہ جو محض زور مطالعہ اور عقلی تگ و تاز پر مبنی ہو اگرچہ وہ منطقی و استدلالی قوت سے خالی بھی نہ ہو۔

(٢)   اتباع سنت   یعنی ہر شعبہ زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کا دوام و اہتمام کرنا، اور حال و قال، ظاہر و باطن میں آداب شریعت برقرار رکھنا، 

(٣)   فقہی حنفیت   چونکہ علماءِ دیوبند بالعموم مسلک احناف سے وابستہ ہیں لہذا عملاً انہیں کے مستنبط فروعات کو لائق تقلید جاننا اور مسائل و فتاویٰ کی تخریج و ترجیح میں احناف کے اصول فقہ کی پیروی کرنا 

(٤) پیروی طریقت   تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب اور تہذیب اخلاق کے لیے محققین صوفیا کے سلاسل اور اصول مجربہ کے تحت رہنمائی حاصل کرنا 

(٥) کلامی ماتریدیت    یعنی صحیح فکر کے ساتھ طریقِ اہل سنت والجماعت اور اشاعرہ و ما تریدیہ کی تنقیح کردہ مفہومات اور مرتب کردہ اصول و قواعد پر عقائد حقہ کا استحکام اور قوت یقین کی برقراری 

(٦) دفاع زیغ و ضلالت   فتنوں کی سرکوبی اور متعصب گروہ کی مدافعت، رد شرک و بدعات، رد الحاد و دہریت، اصلاح رسوم جاہلیت، اصلاح معاشرہ اور تغییر منکرات جیسے عناوین شامل ہیں

(٧) ذوق قاسمیت ورشیدیت   مربیان دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے مزاج و مذاق اور مشرب کی موافقت کرنا، یہ ساتوں عناصر دیوبندیت کے لیے کلیدی اساس ہیں۔

پھر حضرت قاری طیب صاحب نے ہی سبع سنابل کو چار عنوان کے تحت جمع فرمایا ہے، جس کو ”اربعۃ انھار“ سے تعبیر فرمایا، یعنی یہ چاروں دیوبندیت کا خلاصہ ہیں، جو کہ درحقیقت دین کا بھی عطر اور نچوڑ ہیں، اسی کو ام الاحادیث یعنی حدیث جبرائیل میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بطور خلاصۂ دین کے بیان فرمایا، ایمان، اسلام، احسان اور اعلائے کلمۃ اللہ، یہ چاروں دین کی بنیاد ہیں، جس کی اساسی حجتیں چار ہی ہو سکتی ہیں، کتاب و سنت اجماع و قیاس اس میں اولا دو تو حجت تشریعی ہیں، جس سے شریعت بنتی ہے، اور آخر کے دو تفریعی یعنی جس سے مسائل شریعت کھلتی ہے یہ درایتی ہے، پس حجت تشریعی کے لیے روایت و سند ناگزیر ہے، اور بقیہ دو کے لیے تربیت یافتہ عقل و فہم اور تقویٰ شعار ذہن و ذوق، پس علماءِ دیوبند کا مسلک عقلی بھی ہے اور نقلی بھی، روایتی بھی ہے اور درایتی بھی، مگر اس طرح کی نہ عقل سے خارج ہے نہ عقل پر مبنی، نہ ظاہریہ کی طرح کہ جس میں الفاظِ وحی پر جمود کر کے عقل و درایت کو معطل کر دیا گیا ہے، اور حکم و مصالح کو خیرآباد کہہ کر اجتہاد و استنباط کی راہیں مسدود کر دی گئی ہیں، اور نہ عقل پرست معتزلہ کی طرح کہ جس میں عقل اصل اور نقل پر حاکم ہے اور نقل کا مفہوم عقل کے تابع ہے، جس سے دین فلسفۂ محض بن کر رہ جاتا ہے، ان دونوں کا معاملہ ”وکان امرہ فرطا“ کی طرح ہے، جبکہ علماءِ دیوبند کا مسلک اسی جامیعت و اعتدال کے عنصر کو تھامے ہوئے ہیں جو ان کا شعار ہے، یعنی ان کے یہاں تمام معاملات میں عقل و نقل پورے توازن کے ساتھ اس طرح جمع ہیں کہ اصول و فروع میں نقل کے ساتھ عقل بھی بطور خادم کے کار فرما ہیں، اسی لیے وہ بیک وقت مفسر بھی ہیں اور محدث بھی، فقیہ بھی ہے متکلم بھی، صوفی بھی ہیں اور مجاہد بھی، مقلد بھی ہیں اور مفکر بھی، کسی معاملے میں نہ غلو ہے نہ تنقیص، نہ تکفیر بازی نہ دشنام طرازی، نہ بدگوئی یہ نہ عناد و حسد، بلکہ صرف بیان مسئلہ یا احقاق حق اور ابطال باطل، پس انہیں اوصاف و احوال کے مجموعے کا نام دیوبندیت ہے، اور اگر علماءِ دیوبند کے دینی رخ اور مسلکی مزاج کے نسبت سے جاننا ہو تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دینا مسلم، فرقتا اہل سنت والجماعت ہیں، مذہباً حنفی ہیں، کلام ماتریدی و اشعری ہیں، مشربا صوفی ہیں، سلوکا چشتی بلکہ جامع سلاسل ہیں، فکرا ولی اللہی ہیں، اصولا قاسمی ہیں، فروعا رشیدی ہیں، بیانا یعقوبی ہیں اور نسبتا دیوبندی ہیں، والحمدللہ علی ھذہ الجامعیۃ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے