Header Ads Widget

نسیم حجازی کے ناولوں سے جڑی کچھ یادیں، کچھ باتیں

نسیم حجازی کے ناولوں سے جڑی کچھ یادیں، کچھ باتیں

نسیم حجازی کے ناولوں سے جڑی کچھ یادیں، کچھ باتیں

رشحات قلم: سید احمد حسین


شب کی تاریکی گہری ہوتی جارہی تھی، موسم خاصا خوشگوار تھا، شاید آس پاس کے کسی علاقے میں بارش ہوئی تھی، میں کمرے کے ایک گوشے میں جہاں سے بالکنی کے ذریعے باہر کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا بیٹھا سفید برقی قمقمے کی روشنی میں ایک مشہور مبلغ اور خطیب کے خطبات کا مطالعہ کر رہا تھا۔اس زمانے میں مجھے مختلف علماءکرام کے خطبات اور تقریروں پر مشتمل کتابوں سے خاصی دلچسپی تھی، اس رات بھی ,,خطبات طارق جمیل،، کی کوئی سی جلد سامنے کھلی تھی، باہر خنک ہوائیں چل رہی تھیں، خاموش فضاء میں ماحول کچھ پر اسرار سا معلوم ہوتا تھا، بالکنی کا دروازہ کھلا تھا، گاہے بگاہے ہوا کا کوئی تیز جھونکا زناٹے سے اندر داخل ہوجاتا اور ایک مرتبہ پھر میری نگاہیں کتاب کے اوراق سے ہٹ کر چند لمحوں کےلیے باہر لہلہاتے درختوں کے رقص کرتے پتوں پر اٹھ جاتیں،پھر میں نشاط انگیز کیفیت اور خوشگوار احساس کے ساتھ اپنے مطالعہ میں مصروف ہوجاتا۔ 


       ,, بھائیوں اپنی تاریخ کو فراموش مت کرو اپنی تاریخ کو پڑھو، کن قربانیوں سے ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو بنایا، کچھ اور نہیں تو نسیم حجازی کی خاک وخون ہی پڑھ لو۔ ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ میں نے کالج کے زمانے میں خاک وخون کا مطالعہ کیا تھا پھر تو میری زندگی ہی بدل گئی میں نے گناہوں سے توبہ کرلی۔ نماز کا پابند ہوگیا،،


          مطالعہ کے دوران کتاب کے کسی صفحہ پر کچھ اسی قسم کے الفاظ پر مشتمل چند سطریں تھیں جن پر میری نگاہیں تھم سی گئیں۔ ,,خاک وخون،، ,, نسیم حجازی،، یہ دونوں الفاظ میرے ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگے کیونکہ اب تک یہ دونوں نام میرے لیے اجنبی تھے۔ کیاہے اس کتاب میں؟ کیا ایسی باتیں لکھی ہیں کہ اس شخص نے توبہ کرلی، نمازی بن گیا! یہ نسیم حجازی کون ہیں؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات تجسسات کا روپ دھار کر سر اٹھانے لگے اور میں نے اس کو پڑھنے کا ارادہ کرلیا، اور اگلے روز میرے اس ارادے نے عزم کی صورت اختیار کرلی۔۔ 

دیوبند کے بیشتر کتب خانوں سے رابطہ کیا مگر ہر ایک سے جواب نفی ہی میں ملا، اسی تلاش وجستجو میں قریباً ایک ہفتہ کا عرصہ بیت گیا مگر کتاب نہ ملنی تھی سو نہ ملی۔ 

انسان کی افتاد طبع کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جو چیز جتنی نایاب اور پوشیدہ ہو اس کےلیے دل میں تجسس اور طلب کی خواہش اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے، لہذا میں بھی اس تجربے سے گزرتا رہا،اسی ادھیڑ بن میں دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے رہے کہ ایک دن اچانک دل میں خیال آیا بلکہ یوں کہئے کہ الہام ہوا کیوں نہ علامہ گوگل سے رجوع کیا جائے، شائد مل جائے جب رجوع کیا تو کتاب بآسانی مل گئی اور جب مل گئی تو خوشی کا ٹھکانہ نہ پوچھئے،دل بلیوں اچھلنے لگا،اسی وقت پڑھنا شروع کردیا اور پڑھتارہا،پڑھتارہا،مسلسل پڑھتا رہا،اور یوں یہ کتاب مکمل ہوگئی۔ 

  کتاب کیا تھی؟مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی باہمی دوستی، بھائی چارگی پھر انکا ایک دوسرے کا دشمن بن جانے، ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہوجانے اور تقسیم ملک کے وقت مسلمانوں پر ڈھاۓجانےوالے مظالم کی داستانِ دلخراش جن کو پڑھتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے، گرم خون ابلنے لگتا ہے اور دل غم وغصہ کے ملے جلے جذبات سے بیقرار ہوا جاتا ہے۔ کتنے ہی مکان اپنے مکینوں سمیت جلادئےگئے، کتنے مہاجرین راستوں ہی میں ذبح کردئیے گئے، یہ تاریخ کا وہ زخم ہے جو ہمیشہ رِستارہےگا۔۔ 

اگر چہ چند صفحات پڑھتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ایک ناول ہے اور یہ سچ ہے کہ ناول کے کردار فرضی ہوتےہیں مگر یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ اس میں جو تاریخ بیان کی گئی ہے اور جس وقت کے جن حالات کی عکاسی کی گئی ہے اگر سارے نہ سہی تو بیشتر درست اور حقیقت پر مبنی ہیں۔

یہ تھا نسیم حجازی سے میرا پہلا تعارف جو اس ناول کے ذریعے سے ہوا،اس ناول کو پڑھنے کے بعد میں کافی دنوں تک اس کے سحر سے نکل نہ سکا اور آج بھی خود کو اس کے طلسم میں جکڑا ہوا پاتا ہوں۔۔ 

یہی وہ ناول ہے جس نے مجھے نسیم حجازی کا گرویدہ بنادیا،پھر تو ایک سلسلہ چل پڑا اور تلاش کرکر کے نسیم حجازی کے تمام ناولوں کو پڑھا،محمد بن قاسم، داستان مجاہد،یوسف بن تاشقین،اندھیری رات کے مسافر،شاہین،قافلۂ حجاز،آخری چٹان،معظم علی، اور تلوار ٹوٹ گئی قیصر وکسری وغیرہ۔۔۔ان سب کو علی الترتیب انہیں دنوں دیوبند کے مکتبوں سے منگا منگا کر پڑھتا رہا۔ان سب میں بھی ,,داستانِ مجاہد،، کو مکرر سہ کررپڑھا۔۔۔ 

نسیم حجازی کا اسلوب تحریر ایسا دلچسپ اور زود اثر ہے کہ قاری اسکی سحر طرازی میں اس طرح مسحور ہوجاتا ہے کہ اگر ذوق مطالعہ نہ بھی ہو جب بھی ختم کئے بغیر نہیں رکھ سکتا اور ایک ناول مکمل کرلینے کے بعد دل سے برابر ھل من مزید، ھل من مزید کی صداۓ مسلسل آتی رہتی ہے پھر دست طلب مزید کی طلب میں دراز ہوتاہے دوسرا، تیسرا، چوتھا پھر پانچواں اور اس طرح سارے ناول چٹ کرلینے کے بعد بھی تشنگی ختم نہیں ہوپاتی بلکہ مزید بڑھتی ہی جاتی ہے،۔۔۔ 

ادبی چاشنی لئے ہوۓ دلوں میں اتر جانے والے خوبصورت جملے، دو صنفوں کے مابین لطیف انسانی احساسات وجذبات سے لبریز مکالمے، فطرت کی خوبصورت عکاسی، مرکزی کرداروں کے ایمان باللہ، توکل علی اللہ اور تعلق مع اللہ کے اس پہلو کے بیان کا انوکھا انداز جو ان کے بازؤں میں برابر بجلی بھرتا،عزائم کو بلند رکھتا، حوصلوں کو بڑھا تا اور ہر ہر قدم پر امیدوں کے دیئے روشن کئے رکھتا ہے جسے علامہ اقبال نے,, ذوق خدائی،، اور ,,لذت آشنائی،، سے تعبیر کیا ہے۔۔ 


یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے 

جنہیں تونے بخشا ہے ذوقِ خدائی

دوعالم سے کرتی ہے بےگانہ دل کو

عجب چیز   ہے  لذتِ    آشنائی


یہ وہ خصوصیات ہیں جو نسیم حجازی کے ناولوں کو دیگر تاریخی ناولوں سے ممتاز کرتی ہیں۔

نسیم حجازی کے ناولوں میں بے ساختگی بھی ہے اور برجستگی بھی، ندرت بھی ہے اور جدت بھی، حلاوت بھی ہے اور لطافت بھی،طراوت بھی ہے اور نفاست بھی،ادبی چاشنی بھی ہے اور تاریخ نگاری بھی، جملوں کا در و بست اور نشست و برخواست کی جو عمدگی نسیم حجازی کی تحریروں میں ملتی ہے وہ ہمیں دوسرے تاریخی ناول نگاروں کی تحریروں میں نظر نہیں آتی۔۔

نسیم حجازی کے ناولوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کو پڑھتے ہوئے قاری کسی بھی قسم کی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا،بلکہ قاری خود کو بھی انہیں کرداروں کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔۔

دیگر ناول نگاروں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے ناولوں کے اندر مرکزی کرداروں کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں جیسے وہ انسان نہ ہوں بلکہ کوئی مافوق الفطرت مخلوق ہوں جب کہ نسیم حجازی کے ناولوں میں بالعموم اس قسم کا ,,کریلا نیم چڑھا،، نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ ان کو پڑھتے ہوئے قاری خود کو بھی انہیں کرداروں میں ضم محسوس کرتا ہے۔۔ 

یوں تو نسیم حجازی نے مسلمانوں کی تاریخ عروج و زوال دونوں کو موضوع بناتے ہوئے متعدد ناول لکھے مگر نسیم حجازی نے جتنی عمر پائی اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کچھ زیادہ نہیں لکھا مگر جو کچھ بھی لکھا خوبصورت اور معیاری لکھا۔۔۔

آج کی نئی نسل جو یوٹیوب،فیسبوک اور واٹساپ وغیرہ پر بیہودہ اور فضول چیزوں میں عمر عزیز کے بیشتر اوقات ضائع کردیتی ہے اور تاریخ کی ضخیم جلدوں اور بلند پایہ کتابوں کو دیکھتے ہی انہیں دردِ سر ہونے لگتاہے؛اس صورتحال کے پس منظر میں نسیم حجازی کے یہ تاریخی ناول بساغنیمت ہیں کہ جن سے کچھ نا کچھ تاریخی معلومات سے بھی آگاہی ہوجاتی ہے، اردو زبان وادب سے بھی دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور کسی حد تک ذوقِ مطالعہ بھی پروان چڑھتاہے۔۔۔ 

خیر! اوربھی بہت سی یادیں اور باتیں نوک قلم پر آنے کے لئے مضطرب وبے قرار ہیں مگر مضمون کی طوالت کے خوف سے یہ احساس بھی دامن گیر ہے کہ مبادا آپ کےلیے باعثِ اکتاہٹ اور بارِ خاطر ہوجاۓ، اسلئے یہیں ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے