Header Ads Widget

غزل کیا ہے؟

 غزل کیا ہے؟ 

غزل کیا ہے؟

محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی

اگر آپ  اردو فاضل و ادیب یا غزل گو شعرا سے غزل کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کا ماخذ و جاے اشتقاق سے متعلق دریافت کریں گے تو اکثر و بیشتر یہ جواب دیں گے کہ غزل عربی زبان کا لفظ ہے، جو غزال سے بنا ہے، جو بہ وقتِ شکار ہرن کے منہ سے نکلی ہوئی درد بھری آواز کو کہتے ہیں، اور غزل کی لغوی تعریف عورتوں کی باتیں کرنا یا عورتوں سے باتیں کرنا ہے، اور اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ ایسا متوازن  کلام جو ہم وزن، ہم بحر اور ہم قافیہ ہو، اور اس کے ہر شعر میں علیحدہ مضمون بیان کیا گیا ہو، یہ یا اس طرح کے جوابات آپ کو ملیں گے، لیکن غزل کی ایسی تعریف جس میں سراسر حسن و عشق ہی کا اظہار ہو، جو موسمِ شباب میں پھوٹتے انکر کی خبر ہو، جو سراپا محبوب کی اداؤں ہی کا بیانیہ ہو، جو محض زلفِ محبوب کی چھاؤں، نازنینِ غزل کی گوری گوری باہوں، اس کے بلوریں آنکھوں کے حسن و جمال، اس کے دل کی دھڑکن، اس کے نظروں کے جادو، اس کے جسم کی بھینی بھینی خوشبو کی داستان ہو، بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ غزل ہی سراپا محبوب کی منظوم تصویر ہو، غزل کی ایسی تعریف اور ایسا بیانیہ جناب حکیم حامد تحسین صاحب کے محبت شناس، عشق نواز، عشق پرور قلم کے ذریعے سنیں، لکھتے ہیں ’’ غزل وہ چیز ہے جس کو سنتے ہی محبت کے مقدس جذبے سمندر کے بے چین موجوں کی طرح موجزن ہو جاتی ہے، غزل وہ چیز ہے جس کے محبت کے چراغ ہر خاص و عام کے دیدۂ و قلب میں فروزاں رہتا ہے، غزل بھینی بھینی خوشبوؤں کا وہ طوفان اور رنگ و نور کی مہکتی وہ برسات ہے جس سے دلِ افسردہ کو  تازگی اور نئی زندگی مل جائے، در حقیقت غزل اردو شاعری کی آبرو ہے ‘‘ ایک اور جگہ حکیم حامد صاحب اپنی عاجزی اور بے کسی کا اظہار کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں ’’ میں حیران ہوں کہ دو شیزۂ غزل کی کیا تعریف کروں، اُسے تاریخِ حسن و عشق کا ایک مہکتا ورق مانوں یا احساس کے ایک سلگتے شعلے کا نام دوں، محبوب کے چہرے پر کِھلا گلاب تر کہوں یا شاخِ گل کے نام سے پکاروں؟ اس کو چاندنی کی ٹھنڈک سے تشبیہ دوں یا عارضوں کے شعلوں کا استعارہ جانوں، اسے گل بدوش وادی کہوں یا دل کی وادی میں اترتا چاند سمجھوں؟ ‘‘ ایک اور اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس میں غزل کو کوہِ قاف سے تشبیہ دے کر غزل کی محض عزت افزائی ہی نہیں کی بلکہ غزل کی اہمیت و معنویت اور اس کے کمالِ حسن و جمالِ عشق کے معارج بیان کر دیے، لکھتے ہیں ’’ غزل خاتونِ خانہ نہیں ہے جو چولہے کے گیلے ایندھن میں پھونکیں مارتی دکھائی دیتی ہو، یہ تو کوہِ قاف کی پری ہے جو قوسِ قزح کا آنچل لہراتی اپنے مرمریں قدموں سے دل کے آنگن میں چھم سے اُتر آتی ہے اور دل کی فضاؤں میں روشنی پھیلا دیتی اور رنگ بکھیر دیتی ہے 


                   خواب کون نہیں دیکھتا، اور کون ہے جو خوش کن، مسرّت خیز خواب اور مبشرات نہ دیکھنا چاہے، مگر ہم دیکھنے والوں میں سے کتنے ہیں جن کے خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے ہیں، جن کا خواب خوابِ صادق ہوتا ہے، جن کی آزروئیں تکمیل کو پہنچتی ہے، جن کی امنگیں، خواہشیں اور تمنائیں پوری ہوتی ہیں، اور مزید یہ کہ جب ہمارے خوابوں کے شیش محل زمین دوز ہو جاتی ہیں، ان کے تکمیل کی کوئی صورت یا راہ نظر نہیں آتی، اور خواب محض خیالی دنیا میں ایک خوابِ زریں ہی کی شکل میں محبوس ہو کر رہ جاتا ہے، تو ہمیں کتنے صدمات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے، کن کن تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، امیدوں کو کتنا ٹھیس پہنچتا ہے، کتنی آنسؤویں بہتی ہیں، اور پھر ہم اپنے آپ کو ان صدمات سے نجات دلانے کے لیے کیا کیا حربیں استعمال کرتے ہیں، اپنے درد کی درمانی کے لیے کتنے یاروں کے در کی خاک چھانی کرتے ہیں، مگر حکیم حامد صاحب کیا کرتے ہیں ؟ خود ہی گویا ہیں، انہیں کی زبانی سماعت فرمائیں ’’ جب خواب ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں، بکھر بکھر جاتے ہیں، دل کا خون سمٹ کر آنکھوں کے پیمانوں میں آ جاتا ہے اور ان میں درد کے چراغ جلنے لگتے ہیں تو کوئی میرؔ، کوئی غالبؔ، کوئی مومنؔ، کوئی حسرتؔ، کوئی آرزوؔ، کوئی شادؔ، کوئی اصغرؔ، کوئی جگرؔ، کوئی شمیمؔ، کوئی ریاضؔ، کوئی ذوقؔ، کوئی عامرؔ اور کوئی فراقؔ ایسی غزل چھیڑتا ہے، جو ہماری نا امیدوں کے حصار کو توڑ کر اندر داخل ہوتی ہے اور ہمارا دامن پکڑ کر غزل کے مہکتے گلزاروں میں لے جاتی ہے ‘‘ پھر کیا ہوتا ہے ؟ دوسری جگہ رقم طراز ہیں، ملاحظہ فرمائیں  ’’ بہاریں آتی ہیں اور دبے پاؤں چلی جاتی ہیں لیکن غزل ایک ایسی بہار ہے جو ہمیشہ اردو شاعری کے گلزاروں میں کھیلتی رہتی ہے، اور ایسے ایسے تر و تازہ، شگفتہ اور خوشنما پھول دیکھنے کو ملتے ہیں، جن کی دل فریبی اور خوشنمائی ہمیشہ کے لیے دلوں میں سما جاتی ہے، اور دماغوں کو معطّر کرتی رہتی ہے‘‘ 

خیر ! یہ تو غزل کے حوالے سے ایک تعارفی نوٹ تھا، اب آئیے غزل کو ایک اور پہلو سے جانتے ہیں، یعنی تاریخی و تہذیبی پہلو سے جس میں آپ اردو غزل کے تاریخی شخصیات کو بھی جانیں گے، اور شاید اس میں آپ کو نفسِ غزل کی تاریخ  کا بھی احساس ہو، ملاحظہ فرمائیں ’’ حامد جی ! غزل خسروؔ کا بچپن ہے، برہمنؔ کی دھڑکن ہے، قلی کا لڑکپن ہے، ولیؔ کی جوانی ہے، شاہ حاتمؔ کا شباب ہے، ذوقؔ کا تخیل ہے، داغؔ کی زبان ہے، سوداؔ کی فصاحت ہے، خان آرزوؔ کی شیرینی ہے، مومنؔ کے شان ہے، غالبؔ کا استعارہ ہے، میرؔ کی تشبیہ ہے، حالیؔ کی روح ہے، دردؔ کی دوا ہے، جانِ جاناں کی دعا ہے، فانیؔ کا خواب ہے، آتشؔ کی گرمی ہے، آبروؔ کی لاج ہے، یقینؔ کا انعام ہے، ذوقؔ کا عزم ہے، بے خودؔ کی خودی ہے، حسرتؔ کی آرزو ہے، آرزوؔ کی خواہش ہے، اصغرؔ کی محبت ہے، جگرؔ کا لہو ہے، شمیمؔ کی ادا ہے، امانتؔ کی دیانت ہے، تسکینؔ کا سکون ہے، شکیلؔ کا حسن ہے، ریاضؔ کی توبہ ہے، پروینؔ کی خوشبو ہے، شادؔ کی خوشی ہے، فراقؔ کی تڑپ ہے، گلزارؔ کی مہک ہے، ساحرؔ کا جادو ہے، راحتؔ کا تیور ہے، کیفؔ کی مستی ہے، صابریؔ کا وقار ہے، منور راناؔ کا اعتبار ہے، باذلؔ عباسی کی صداقت ہے، راجا مہدیؔ کی شان ہے، ظفرؔ کے سر کا تاج ہے، غزل ہمارا کل ہے، غزل ہمارا آج ہے، غزل ابتدا سے محبت ہے، انتہا تک حقیقت ہے ‘‘


             جب یہ جان لیے کہ اردو کا بچپنا اور لڑکپنا کہاں گزرا، ایام شباب کو کہاں کہاں بتایا، یہ کن کن کی آرزو اور خواہش بنی، کن لوگوں کے بدولت ان کا وقار قائم ہوا، یہ کن شعراء کی شان اور عظمت کی داستان بنی، تو اب یہ بھی انہیں کی زبانی سنتے جائیے کہ انہیں زبان و بیان کی نعمت سے کس نے نوازا، اس کے ادبی نشیمن میں کن لوگوں نے چار چاند لگاے، کن عظیم شخصیات نے اسے ترقی کے مراحل طے کرواے، چنانچہ حکیم صاحب پھر خود ہی کو مخاطب کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ’’ حامد جی !  غزل اردو شاعری کی ایک کامیاب اور مقبول صنف سخن ہے، اس کے ماتھے پر چاند اُگا ہے، لبوں پر میرؔ کی تشبیہات سجی ہیں، شاہ حاتمؔ نے اس کے منہ میں زبان رکھ دی، آتشؔ و داغؔ نے اسے بولنا سکھایا، آبروؔ نے اسے حسنِ سلیقہ بخشا، میرؔ کے دیوان کا درد اس کی آواز میں سمٹ آیا، اس کی اداؤں میں غنچے چٹکے، اس کے چہرے پر چاندنی چٹکی، ایسا لگتا ہے کہ یہ کشمیر کی گل پوش وادی میں حبّہ خاتونؔ کے درد بھرے گیتوں کے جھر جھر کرتے جھرنوں کا ترنم ہے‘‘ 

                  یہ سب باتیں تو ٹھیک ہے کہ غزل کس ظالم کے لیے درد بنا، اور کس مظلوم و مجروح کے لیے درماں، کس نے اس کے منہ میں زبان رکھ دی، یا کس نے اس کو قوتِ نطق و اعجاز سے سرفراز کیا، کس نے اسے حسنِ سلیقہ و حسنِ انداز بخشا یا کس نے اس کے غنچے چٹکاے، لیکن سوال ہوتا ہے کہ خود حامد صاحب غزل کو کن نظروں سے دیکھتے ہیں، یا نازنینِ غزل جب خود پیادہ پا ان کے پاس ان کے گھر کے آنگن میں قدم رنجہ ہوتی ہے تو حامد صاحب دوشیزۂ غزل کی کیا کیا خیالی تصویریں بنا لیتے ہیں، یا خیالات کی کتنی دنیا آباد کر لیتے ہیں، اور ان کے اپنے جذبات کا کیا عالم ہوتا ہے، آئیے انہیں کی زبانی سنتے چلیں ’’ اپنے دامن میں شگفتہ و تر و تازہ پھول سمیٹے اپنے حنائی ہاتھ میں شاخِ گل تھامے خوشبو کے فرحت بخش جھونکے کی طرح کون نازنین خراماں خراماں چلی آ رہی ہے، اس کے لبوں پر غنچے چٹک رہے ہیں، اس کی ہر سانس میں گلابوں کی خوشبو بسی ہے، اس کے رخساروں پر گلاب کھلے ہیں، اس کی قدم بوسی کے لیے بھی گلاب بچھے ہیں، اور اس کی نرگس آنکھوں کے چمن زاروں میں بھی خوشبوؤں و مسرتوں کے پھول ہی پھول کھلے ہیں، 

        ناظرین !  کیا یہ نازنینِ غزل نہیں ہے جو اتنی سج دھج سے بزمِ غزل میں آئی ہے کہ اس کی فضا میں مشک و عنبر کی خوشبو پھیل گئی ہے، جذبات میں شگفتگی و تازگی آ گئی ہے ‘‘ ایک اور جگہ یوں خامہ ریزاں ہیں ’’ میرے خوابوں کے بے نام جزیروں کی پیاسی ریت پر کون جل پری اُتری ہے ؟ یہ گھنگھرؤں کی سی مترنم آواز کیسی ہے جو سناٹوں کا سینہ چیر کر میرے دردِ دل پر دستک دے رہی ہے، میرے دل کی سنسان راہ وادی میں یہ کیسی روشنی ہے، کیسی خوشبو ہے جس نے دل کی فضا کو منوّر و معطّر کر دیا ہے۔

     حامد جی! اس معطر فضا اور روشنی میں میرے بے نام سے خوابوں اور جذبوں نے پری چہرہ غزل کا نام پڑھ لیا ہے‘‘

حامد صاحب کی جب کہیں دل آزاری ہوتی ہے، یا ان کی خاطر خواہ محبوب کے جانب سے دلداری نہیں ہو پاتی، تو ان کا دل دلِ افگار بن جاتا ہے، اور دلِ ناشاد بن کر گوشۂ نشیں ہو جاتا ہے، پھر طوعاً و کرہاً خود ہی اپنے آپ کو دلاسا دیتے ہیں، اپنی دل کی دنیا از سرِ نو خود بساتے ہیں، اور اپنی دلِ نا شاد اور دلِ مضطر کو یوں تسلی آمیز جملے سے فرحاں و شاداں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ’’ جب اپنے بیگانے ہو جاتے ہیں، جب دوست منہ موڑ کر چل دیتے ہیں، جب خوشیاں دامن سمیٹ کر رخصت ہو جاتی ہیں، جب درد پتوں کی طرح زخموں کی چنگاریوں کو ہوا دیتا ہے، جب محبوب بچھڑ جاتا ہے، جب کوئی غم خوار نہیں ہوتا، جب کوئی دوست نہیں رہتا تو غزل ہی مونس و غم خوار بن کر دردِ دل پر دستک دیتی ہے اور یہی ہے جو دعا بن کر لبوں پر تھرتھرانے لگتی ہے‘‘


قارئینِ کرام! اب رخصت ہوتے ہوتے تعارفِ غزل کا ایک اور شہ پارہ ملاحظہ فرماتے جائیں ” حامد جی !  غزل کی تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ زلفِ محبوب کی چھاؤں میں بیٹھ کر لکھی جانے والی غزلوں کی ہی عوامی مقبولیت نے قدم بوسی کی ہے اور نگاہوں سے بوسہ دیا ہے، ان غزلوں کو جن کا عنوان حسن و شباب رہا ہے آج بھی جب ” بہاروں پھول برساؤ، مرا محبوب آیا ہے، آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قاتل مجھے، ” شریکِ زندگی کو کیوں شریکِ غم نہیں کرتے “ یہ چراغ بچھ رہے ہیں مرے ساتھ جلتا جلتے، اور میرے محبوب میری محبت کی قسم “ کے بول کانوں میں پڑتے ہیں تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانوں میں شہد ٹپک رہا ہے، چوڑیوں کی چھنک پایل کی چھنک کاجل ترنگ سا بجتا محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آسمان کی الہامی فضاؤں سے کوئی پری چھم سے دل کے آنگن میں اتر آئی ہے “

        اگر آپ کو بوریت محسوس نہ ہو، اور مضمون کی طوالت گراں باریِ خاطر کا باعث نہ ہو تو براے کرم گلدستۂ غزل کی تعریف کو خلاصے کے طور پر ایک اور اقتباس دیکھ ہی لیں” غزل جانِ غزل کی مسکراہٹ ہے، محبوب کے قدموں کی آہٹ ہے، یہ ایک تجلی بھی ہے، ایک تسلی بھی، ایک قہقہ بھی ہے، ایک درد بھی، ایک چینخ بھی ہے، ایک چیلنج بھی، ایک پیغام بھی ہے، ایک الہام بھی، شاعر کا خواب بھی ہے، اس کی تعبیر بھی، حدیث دل کی تفسیر بھی ہے،دکھوں اور غموں کے لیے اکسیر بھی، یہ آنسوں بھی ہے، آرزو بھی اور غزل سازِ دل پر پڑنے والی مضراب کی بازگشت بھی ہے اور زندگی کی حقیقت بھی، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ موجودہ دور کے صفحے پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے اور روشن مستقبل کا عنوان بھی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے