Header Ads Widget

مبشراتِ دارالعلوم دیوبند

 مبشراتِ دارالعلوم دیوبند

مبشراتِ دارالعلوم دیوبند

از قلم: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی


دارالعلوم دیوبند کی تاسیس و قیامِ بنیاد محض رسمی اور متعارف طریقے پر نہیں ہوئی، بلکہ اولاََ پردۂ غیب میں ہی اس کی منصوبہ بندی ہوئی، یہ ایک الہامی ادارہ ہے جس کی غیبی بشارتیں اہل اللہ کے قلوب پر وارد ہوئیں، بزرگانِ دین کا اس پر مکاشفہ ہوا، بزرگوں اور اپنے اساتذہ کرام سے بارہا یہ بات سنی گئی، کہ تاسیس دار العلوم کے زمانے میں اس وقت کے اکثر اہل اللہ کے قلوب پر دیوبند میں مدرسہ کے قیام کا مکاشفہ ہوا، بلکہ قیامِ دار العلوم سے صدیوں قبل ہی بشارت غیبی کے طور پر اس کا ذکر ملتا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوّر اللہ مرقدہ نے ارشاد فرمایا کہ” حضرت مجدد الف ثانی قدس اللہ سرہ کے ان مکاتیب میں جو ابھی چھپے نہیں ہیں، میں نے لکھا دیکھا ہے کہ جب بادشاہ جہانگیر نے ان کو قید کر کے دہلی بلایا، اور ان کا دیوبند سے گزر ہوا، تو فرمایا کہ” اس جگہ سے علمِ نبوت کی بُو آتی ہے‚‚ چنانچہ واقعی اس جگہ کو اللہ تعالیٰ نے علم شریعت و نبوت کا منبع و مصدر اور مرکز و مظہر قرار دیا، اور اس سرچشمے سے ایسے ایسے اہلِ علم و دانش برآمد ہوے کہ عہدِ حاضر میں جن کی نظیر و مثال پورے عالمِ اسلام میں کمیاب ہیں۔


اسی طرح قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ یہ مدرسہ الہامی مدرسہ ہے، اس کا آغاز بھی الہام سے ہوا ہے اس کی تعمیر بھی الہام سے ہوئی، اور طلبہ کا داخلہ بھی الہام سے ہوتا ہے، بلکہ بعض واقعات سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس کے اساتذہ کا تقرر اور تعین بھی خاص زاویوں میں ہوتا ہے، اور یہاں کی خدمت ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی، اس مدرسے کا آغاز کسی اور مدرسہ کی طرح رسمی مشورے سےنہیں تھا بلکہ وقت کے اکابر و مشائخ کا ایک اجماع سا ہے‘‘ 


میخانے کی بنیاد

         آج دار العلوم کی شاندار و عظیم عمارت اور گنبدِ بیضا جہاں قائم ہے، یہ دار العلوم ابتداءََ دس سال مسجدِ چھتہ میں رہا، پھر مسجدِ قاضی اور پھر جامع مسجد میں کچھ ایام تک چلتا رہا، جب مستقل عمارت کی ضرورت پیش آئی تو دار العلوم دیوبند کے مہتمم ثانی حضرت شاہ رفیع الدین صاحبؒ کے زمانۂ اہتمام میں دارالعلوم کی پہلی عمارت کی بنیاد کھودی جانے والی تھی اس کے لیے احاطے کے نشانات بھی ڈالے جا چکے تھے، تو حضرت شاہ رفیع الدین صاحب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ اس مقام پر تشریف لائے ہیں اور ارشاد فرما رہے ہیں کہ ”یہ احاطہ بہت مختصر ہے “ یہ فرمانے کے بعد آپ نے عصا مبارک سے زمین پر بنیاد کے لیے نشان لگایا کہ ”دار العلوم یہاں آنے چاہیے اور اس نشان پر عمارت بنائی جاے“ صبح اُٹھ کر جب دیکھا گیا تو زمین پر نشان موجود تھا، چنانچہ اسی نشان پر عمارت کی تعمیر کی گئی، ( اخلاص کا تاج محل٣٤؃)


ع۔    خود ساقیِ کوثر نے رکھی میخانے کی بنیاد یہاں

        تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں


دودھ کا کنواں

        احاطۂ مولسری میں جو کنواں ہے اس کے متعلق بھی حضرت مولانا رفیع الدین صاحب نے ایک خواب دیکھا تھا کہ” کنواں دودھ سے بھرا ہوا ہے، اور بہت سے لوگ جمع ہیں، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے دستِ مبارک سے لوگوں کے برتن بھر بھر کر دودھ تقسیم فرما رہے ہیں، بعض کے پاس چھوٹے برتن ہیں اور بعض کے پاس بڑے برتن ہیں،، پھر خود ہی مراقبے کے بعد مولانا نے اس خواب کی تعبیر یہ ارشاد فرمائی کہ دودھ سے مراد علم اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قاسمِ علم ہیں اور برتنوں کا چھوٹا بڑا ہونا مقدارِ طرف کو بتلا رہا ہے، کہ ہر شخص اپنی اپنی استعداد و حفظ اور ذکاوت کے موافق علم سے مستفید ہوگا لیکن ان شاء اللہ کوئی محروم نہ ہوگا، اور جو دار العلوم دیوبند میں آ کر بھی علم سے محروم رہیگا وہ دراصل حرماں نصیب ہی ہوگا۔ ( مبشرات) 

خوابِ عجیب

           مولفِ مبشرات نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب کا ایک خواب نقل کیا ہے، جس کو خود صاحب خواب نے مولفِ مبشرات کو سنایا۔ فرمایا کہ اپنے بزرگوں کے طرز کے موافق مجھے شروع ہی سے درس و تدریس سے قلبی لگاؤ اور وعظ و تبلیغ سے طبعاً دلچسپی تھی، انتظامی امور اور ذمہ داریوں کو اٹھانے کے لیے طبیعت کا رجحان نہیں تھا، نیابتِ اہتمام کے فرائض تو کئی سال سے تدریس کے ساتھ انجام دے رہا تھا، لیکن ۱۳٤٨ھ میں جب متفقہ طور پر دارالعلوم کی مجلسِ شوریٰ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (سرپرست دار العلوم دیوبند) نے میری عذر خواہی کے باوجود دارالعلوم کے اہتمام کا عہدۂ جلیلہ میرے لیے تجویز فرمایا، تو میں نے بزرگوں کے حکم کی بنا پر اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے مجبوراً سر نگوں کر دیا، مگر اس عظیم ذمہ داری سے ذہن کو اُلجھن رہتی تھی، اور قلب میں اضطراب رہتا تھا، بارگاہِ الٰہی میں بارہا دعائیں کرتا، لیکن سکونِ قلب حاصل نہ ہوتا تھا، آخر چند ماہ کے بعد ١٣٤٩ھ میں میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں خود اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور استاذِ محترم حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر معزز مدرسینِ دارالعلوم بہ غرضِ زیارت روضئہ مقدسہ مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے، اور ہم سب مدینہ منورہ کے کسی عالیشان ہوٹل میں پہنچ گیے، اور کھانے کے لئے دسترخوان چنا گیا ہے اور سب کھانا کھانے کی تیاری میں ہے، میں نے حضرت مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ کہ ہم لوگ جس کام کے غرض سے آے ہیں پہلے وہ کام کرنا چاہیے، کھانا پھر ہوتا رہیگا، حضرت نے فرمایا کہ بالکل ٹھیک ہے، چلیے اور ہم سب حرمِ نبوی کی طرف چل پڑے، جب ہم حرمِ نبوی میں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ حرمِ نبوی کے چھت پر دار العلوم کی عمارت ہے ہم سب اوپر دارالعلوم کی عمارت میں گیے، میں نے دیکھا کہ میرا دار العلوم والا خاص کمرہ بھی موجود ہے، اور عمارتِ دار المشورہ بھی موجود ہے، ہم سب دار المشورہ میں داخل ہوئے، تو وہاں حضرت مولانا مدنی کے بھائی حضرت مولانا سید احمد صاحب مدنی موجود ہیں، اور انہوں نے ہم سب کے لیے کھانے کا انتظام کر رکھا ہے، چنانچہ دسترخوان بچھا دیا گیا، تو پھر میں نے حضرت مولانا سے عرض کیا کہ حضرت ہم لوگ جس کام کے لیے آئیں ہیں، پہلے وہ کام ہونا چاہیے، کھانے کا کام بعد میں ہوتا رہیگا، حضرت نے فرمایا یہی مناسب ہے پہلے زیارت سے فارغ ہو جائیں، چنانچہ ہم سب زینے سے نیچے اترتے ہوئے چلیں، زینہ ختم ہونے کے بعد لمبا مسقف راستہ دور تک چلتا گیا تھا، جس میں اندھیرا بہت تھا، ہم سب چلتے رہے اور اندھیرا بڑھتا گیا حتیٰ کہ ایک دوسرے کو ہم لوگ دیکھ نہ سکتے تھے، اندھیرے سے مجبور ہوکر ساتھیوں میں سے ایک ایک شخص پیچھے ہٹتا رہا، کافی دور چلنے کے بعد روشنی نمودار ہوئی، اور حرمِ نبوی صاف دکھلائی دیا، روضۂ مقدسہ پر پہنچا تو دیکھا کہ جالیوں کے بہ جائے ایک بارہ دری سی ہے، جس کے چاروں طرف تین تین دروازے ہیں، اس عمارت کے وسط میں ایک مسہری بچھی ہوئی ہے، جس پر فداہ ابی و امی احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھے ہوئے آرام فرما رہے ہیں، میں نے مواجہ شریف میں پہنچ کر سلام عرض کیا، تو جواب کے ساتھ حضرت نے چادر مبارک سے اپنے دونوں مقدس ہاتھ مصافحہ کے لیے بڑھاۓ، میں نے فوراً آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں حضور کے ہاتھوں کو تھام لیا، اور مجھ پر گریہ طاری ہو گیا، کافی دیر تک میں حضور کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے رہا، اور کچھ معروضہ کرتا رہا، اور روتا رہا، اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نہایت شفقت کے ساتھ تسلی آمیز الفاظ ارشاد فرماتے رہے، اسی حالت میں آنکھ کھل گئی، اسی وقت سے ذہنی خلجان دور ہو گیا، اور اضطراب قلبی جاتا رہا، اور دار العلوم کے اہتمام کی ذمہ داری کو سنبھالنے کے لیے شرحِ صدر اور اطمینان قلب ہو گیا۔

خانۂ کعبہ اور علم کی کنجیاں

            اسی مبشرات میں لکھا ہے کہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقریر میں حضرت شاہ رفیع الدین صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے متعلق ارشاد فرمایا کہ دار العلوم دیوبند کے مہتمم ہونے سے پہلے انہوں نے خواب میں دیکھا کہ علم کی کنجیاں میرے ہاتھوں میں دی گئی ہیں، وہ تعجب کرتے تھے کہ علم میں میرا کوئی بڑا درجہ نہیں ہے، پھر ایسا کیوں ہوا ؟  مگر جب دار العلوم کے مہتمم بناے گیے تو معلوم ہوا کہ ان کے ذریعے علم دنیا میں پھیلے گا،  اسی تقریر میں آگے چل کر حضرت مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ایک دوسرا خواب انہوں نے ہی یہ دیکھا تھا کہ ’’ مدرسہ کے چمن میں خانہ کعبہ ہے، اور لوگ اس کا طواف کر رہے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی حیثیت اسلام میں وہ شان رکھتی ہے جو عالم میں خانہ کعبہ کے انوار و برکات لیے ہوے ہے، ہماری عملی حالت گو بہت گری ہوئی ہے، مگر خدا کا عظیم الشان احسان ہے کہ اس نے ہم سے اس مرکز کی خدمت لی“

سب کو ناز رہیگا   

         حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب نے ایک خواب دیکھا تھا کہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ سابق صدر مدرس دار العلوم دیوبند مدرسہ کے صحن میں کھڑے ہیں، اور دار العلوم کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں کہ ’’ سب ناز مٹ جائیں گے مگر یہ چیز باقی رہے گی جس پر سب کو ناز ہوگا ‘‘ 


علوم کا نہر

      ۱۳۷۰ھ میں حضرت مولانا قاری طیب صاحب کے سفر پاکستان سے واپسی پر استقبالیہ تقریب میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ استقبالیہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ جس جگہ ہم سب جمع ہیں یہ کوئی معمولی جگہ نہیں ہے، تذکرۃ الرشید میں ہے کہ حضرت نانوتوی نے خواب دیکھا تھا کہ میں خانۂ کعبہ کے چھت پر کھڑا ہوں، اور میرے پیروں کے نیچے سے نہریں نکل کر تمام عالم میں چاروں طرف پھیل رہی ہیں، اس خواب کا مصداق دار العلوم اور اس کی شاخوں کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ‘‘

مدرسہ دیوبند کی ترقی

       ایک بار حضرت حافظ محمد احمد صاحب کے اہتمام سے متعلق دار العلوم میں اختلاف ہو گیا، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ (سرپرست دار العلوم) تحقیق حال کے لیے دیوبند تشریف لاے، فریقِ مخالف کی شکایت پر حضرت گنگوہی نے فرمایا ’’ آپ لوگ تو اس پر اصرار فرما رہے ہیں، اور میں نے حق تعالیٰ کے سامنے اس معاملے کو تین بار پیش کیا، اور ہر دفع یہی جواب ملا کہ مدرسہ دیوبند کی ترقی حافظ احمد ہی کے ہاتھوں مقدر ہے ‘‘ اس میں صاف اور واضح اشارہ ہے کہ دار العلوم دیوبند بفضلہ تعالیٰ خوب ترقی کریگا، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دار العلوم دیوبند کی مثال اس پاکیزہ اور تناور درخت کی سی ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں راسخ و ثابت ہیں، اور جس کی شاخیں پورے وسیع آسمان کو احاطے کیے ہوے ہے، جن کے برکات و فیوض بستی بستی گھر گھر میں ہر لمحے برستی رہتی ہے۔ 

دارالعلوم دیوبند کے در و دیوار، اس کے عالیشان تعمیرات اور اس کے مستحکم نظام کو دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ دار العلوم کسی انسانی ہستی سے زور سے نہیں بلکہ کوئی ما ورائی قدرت ہے جو اسے سنبھالے ہوے ہیں، ورنہ انسانی قدرت میں یہ کہاں کہ پانچ ہزار بچوں کی صبح و شام کی کفالت اپنے سر لے لے، اور یہ سلسلہ روز بروز ترقی افزوں ہیں۔


اللہم زد فزد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے