Header Ads Widget

خواتین اسلام کی علمی خدمات

 خواتین اسلام کی علمی خدمات

خواتین اسلام کی علمی خدمات

از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی



اسلام سے قبل اقوامِ عالم میں خواتین سے متعلق جہاں غیر معقول و غیر منصفانہ افکار و نظریات پائے جاتے تھے، وہیں دوسری طرف ان خواتین کے ساتھ غیر شریفانہ اور وحشیانہ سلوک کیے جاتے تھے، مگر جوں ہی گلشنِ ہستی میں اسلام کی آمد ہوئی، تو جہاں اسلام نے احترامِ آدمیت، اخلاقیات اور اقدارِ انسانیت کی تعلیم دی، وہیں دوسری طرف نہ صرف یہ کہ خواتین کو مکمل حقوق عطا کیے بلکہ معاشرے کے اس دبی اور احساسِ کمتری میں مبتلا صنفِ نازک کو حدودِ شرع میں رہتے ہوئے ہر کام کرنے اور ہر خدمات انجام دینے کی حوصلہ افزائی بھی کی، چنانچہ جہاں ابناے اسلام نے دینی و علمی ہر اعتبار سے غیر معمولی خدمات انجام دیں، وہیں بناتِ اسلام نے بھی ایک قدم پیچھے ہی رہ کر ان تمام خدمات کو اپنے حصے کے بقدر انجام دیں، عہدِ نبوت ہی سے لے کر عہدِ خلفاء راشدین، بنی امیہ و بنی عباس کے عہد میں روشن کارنامے انجام دیئے ہیں، انہیں کارناموں کی بنا پر علماءِ دین کی طرح یہ خواتین بھی کتب طبقات و رجال کی زینت بنیں، پھر  ان خواتین اسلام تذکرے کے لیے یا تو مستقل کتابیں تصنیف کی گئی، مثلاً امام طبرانیؒ کی” عشرۃ النساء “ ابنِ طیفورؒ کی ”بلاغات النساء “ امام ابنِ قیمؒ کی ”اخبار النساء “ امام سیوطیؒ کی ” نزہۃ الجلساء فی اشعار النساء “ یا پھر کتاب کے آخر میں ہی مستقل باب ” کتاب النساء “ کے عنوان سے خواتین کا ذکر جمیل کیا گیا، اور خواتین اسلام کے کارناموں کے تذکرے پر کتب نویسی کا یہ سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے، چنانچہ عباس محمود عقاد کی ” المرأۃ فی القرآن “ محمد فرید وجدی کی ”المرأۃ المسلمۃ“ اور ڈاکٹر اکرم ندوی صاحب کی ”محدثات“ بالخصوص قابلِ ذکر ہے۔

              یوں تو ان با کمال خواتین اسلام نے علم تفسیر سے لے کر حفظ قرآن و تجوید،  حدیث و سنت، فقہ و فتاویٰ، تصنیف و تالیف، وعظ و تذکیر، شعر و ادب، رشد و ہدایت، تصوف و تزکیۂ نفس، کتابت و خطاطی اور  انشا پردازی غرض کہ ایسے بے شمار علوم و فنون ہیں جن کی طرف خواتین نے توجہات مبذول کیں، اور کارناموں کی نمایاں تاریخ رقم کر دیں، مگر چوں کہ یہ مختصر تحریر ان تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنے کا متحمل نہیں ہے، اور نہ ہی یہ مقصود ہے، البتہ ”بطورِ مشت نمونہ از خروارے“  کے چند گوشوں پر مختصر نقوش پیش خدمت ہے۔

علومِ قرآن 

      زمانۂ نبوت سے لے کر تاحال بے شمار و لا محدود بنات و خواتین قرآن کریم کے حافظات، قاریات، مقریات اور مفسرات گزریں ہیں، امام القراء ابن جزریؒ نے اپنی صاحبزادی سلمیٰ کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے قرأت سبعہ میں قرآن مجید حفظ کر کے سنائی تھی، یہ قرأت عشرہ کے بھی قاریہ تھی، اور اپنے زمانے کے سب سے زیادہ قابل تھی، محمد بن سیرین کی بہن حفصہ بنت سیرین نے محض بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک کو مع تفسیر حفظ کر لی تھی، حتیٰ کہ محمد بن سیرین بھی اس فن میں اپنی بہن کی طرف رجوع کرتے، امام زین الدین کا بیان ہے کہ جب میں اپنے ماموں امام‌ اشرف الاسلام عبد الوہاب سے تفسیر پڑھ کر والدہ کے پاس لوٹتا تو وہ مجھ سے دریافت کرتی کہ” بھائی نے آج کیا تفسیر بیان کی ہے “ جب میں بتاتا کہ فلاں فلاں سورتوں کی تفسیر بیان کی، تو فرماتیں کہ کیا فلاں کا قول نقل کیا ہے؟ کیا فلاں بات بیان کی؟ جب میں نفی میں جواب دیتا تو بیان کر کے کہتی کہ انہوں نے اس کو چھوڑ دیا تھا، اسی طرح خلیفۂ ہارون رشید کی زوجہ زبیدہ کے محل سرا میں ایک ہزار باندیاں قرآن مجید پڑھا کرتیں تھیں، اور ان کی آواز شہد کی مکھیوں کی سی سنائی دیتی تھی۔

خدماتِ حدیث

        محدثین کرام نے علم  حدیث و متعلقات حدیث کو محفوظ کر کے تاریخ انسانی کا جو بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے، خواتین اسلام نے بھی ایک معتد بہ ذخیرہ تیار کیا ہے، جس طرح محدثین کرام نے تحمل حدیث کے لیے آبلے پاؤں سے ہزاروں میل کا سفر کیا، خواتین اسلام نے بھی ان سفری صعوبتوں کو لبیک کہا اور اپنی صنفی صلاحیت کے مطابق غربت و بے وطنی کی زندگی بسر کر کے تحصیل علم کی، ام علی تقیہ بنت ابو الفرج غیث بن علی صوریہ بغدادیہ نے بغداد سے مصر جا کر مدتوں قیام کیا، اور امام ابو طاہر احمد بن محمد زلفی سے اکتساب فیض کیا ام احمد فاطمہ بنت نفیس الدین محمد بن حسین نے ملک شام سے مصر و طرابلس کا سفر کر کے اپنے چچا سے روایت کی، ام محمد زینب بنت احمد بن عمر کا وطن بیت المقدس تھا، امام ذہبی نے اس کو ”المعمرۃ الراحلۃ“  کے لقب سے یاد کیا ہے، کیوں کہ وہ تحصیل علم کی غرض سے دور دراز ملکوں کا سفر کرتی تھیں، یہ محدثات جب کسی محدث کی درسگاہ میں جاتیں تو ان کے لیے الگ انتظام ہوتا تھا، لیکن جبکہ خود درس حدیث دیتی تو بالعموم اپنے مکان میں ہی دیتی، اور طلبۂ حدیث وہیں آ کر استفادہ کرتے، ان محدثات نے صرف درس و تدریس پر ہی بس نہ کی بلکہ تصنیف و تالیف کے ذریعے سے بھی اشاعتِ حدیث کا کام کیا، چنانچہ امام ذہبی نے عجیبہ بنت محمد بن ابو غالب بغدادیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے اساتذہ و مشائخ کے حالات دس جلدوں میں لکھی تھی، ” ولھا مشیخۃ فی عشرۃ اجزاء“ اسی طرح خدیجہ بنت محمد بغدادیہ نے اپنے استاذ ابن میمون کی جملہ مرویات کو علیحدہ کتاب میں جمع کی تھی، اور بعض محدثات ایسی بھی ہیں جو اپنی جلالت شان کی بنا پر القاب سے نوازی گئی ہیں، مثلا ست العرب، ست الشام، تاج النساء وغیرہ۔

فقہ و فتاوی

            خواتین اسلام میں بہت سے فقیہات و مفتیان گزری ہیں، علامہ ابن قیم کی تصریح کے مطابق تقریباً بائیس صحابیات فقہ فتاویٰ میں مشہور تھیں، جن میں سات امہات المؤمنین شامل تھیں، اور ان سب میں نمایاں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ فقیہۃ الامت تھی، مشہور حنفی عالم شیخ علاء الدین سمرقندی (٥٣٩ھ) کی صاحبزادی فاطمہ فقیۃ جلیلہ تھی، فاطمہ نے اپنے والد اور شوہر سے باضابطہ فتویٰ نویسی بھی سیکھی تھی، اور ان کے شوہر شیخ علاء الدین کاسانی (م٥٨٧ھ) کو  ”بدائع الصنائع“ کے دورانِ ترتیب جب تسامح ہوتا تو فاطمہ تنبیہ و تصحیح کر دیتی تھی، شیخ تقی الدین ابراہیم بن احمد علی واسطی کی صاحبزادی امۃ الرحمن ملکۂ تفقہ میں شہرت رکھتی تھی، اور ست الفقہاء کے لقب سے یاد کی جاتی تھی۔

شعر و ادب

      خواتین اسلام نے ادب و شعریت میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا ہے، اور ان میں بھی زبردست شاعرات و ادبیات گزری ہیں، چنانچہ مریم بنت ابو یعقوب اندلس کے مشہور شاعرہ و ادیبہ گزری ہیں، یہ عورتوں کو شعر و ادب کی تعلیم بھی دیتی تھی، ان کے بارے میں لکھا ہے” الحاجۃ ادیبۃ شاعرۃ جزلۃ مشہورۃ کانت تعلم النساء الادب و تحتشم لدینھا و فضلھا“ اسی طرح مشہور محدثہ زینب بنت کمال ہاشمی مکہ مکرمہ کے اہل عقل و دانش میں سے تھی، ساتھ ساتھ شعر و شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھی، اسی طرح اندلس کے شاعرات میں سے غسانیہ، وادی آشیہ، نزہون وغیرہ اس حوالے سے بالخصوص لائق ذکر ہیں۔

خطاطی و کتابت

        اسلامی علوم کے دورِ ارتقا میں ایسے بے شمار مسلم خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علوم کی ترویج و ترقی میں کسی سے کم حصے نہ لیے، کتابت و خطاطی میں بھی اہم کردار ادا کیے ہیں، چنانچہ فخر النساء شہدہ بنت احمد کاتبہ کے لقب سے مشہور تھیں، کیوں کہ یہ خوش نویس تھیں، ام الفضل فاطمہ بنت حسن بن علی الاقرع بغداد کے مشہور اور استاذ زمانہ خوش نویس تھیں، مشہور خطاط ابن البواب کی پوری نقل بھی کرتی تھیں، اور اہل علم کو بھی سکھاتی تھیں، اسی طرح امۃ الرحمن خدیجہ بنت یوسف عالمہ، فاضلہ اور محدثہ تھیں، اور خطاطی میں بھی شہرت رکھتی تھی، امام ذہبی کا بیان ہے کہ ”وجودت الخط علی جماعۃ“ 

الغرض یہ کہ اسلام کے اندر علوم کی دنیا میں نہ صرف یہ کہ مردوں نے نام اور جہان پیدا کیا، بلکہ بنات و خواتین اسلام نے بھی اپنی صنفی نزاکت کے با وصف تقریباً ہر فن میں لائق قدر اور قابلِ تحسین کارنامے انجام دیے، سطورِ بالا میں جن چند خاص اصناف و پہلؤوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اس سے اس بات کی صداقت واضح ہو جاتی ہے۔

تاریخ۔  10/11/2023

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

  1. ماشاءاللہ بہت خوب ، اللہ تعالیٰ راقم الحروف کے قلم میں قوت و طاقت بخشے اور مزید محنت کرنے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین ،،،، ۔ ایک عبارت شاید اس طرح سے ہے ،،۔ سورتوں کی تفسیر ، نظرثانی فرما لیں

    جواب دیںحذف کریں

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!