دارالعلوم دیوبند کا فیض
از قلم: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی
حق جل مجدہٗ نے دارالعلوم دیوبند کو وہ شہرت و مقبولیت عطا کی جس کی نظیر و مثال نہ یہ کہ تاریخ ہند میں بلکہ تاریخ اسلام میں کم یاب تو کجا بالکل نایاب ہے، آپ تاریخ اسلام کے ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کر ڈالیے، اور پوری تحقیق و تفحیص کے ساتھ تاریخ اسلام کے ہر دور کے ہر ورق کو بہ نظر غائر مطالعہ کر ڈالیے، ایسا ادارہ جو بالکل کس مپرسی کے عالم میں شروع ہوا ہو، اور حکومت کی سرپرستی و تعاون اور کسی رئیس و ریاست کے امید دلاے بغیر محض توکلاََ علی اللہ جس کی بنیاد رکھی گئی ہو، اور عظمت کے اس مقامِ بلند کا حامل ہو گیا ہو، ایسا ادارہ، ایسی تعلیم گاہ ان پورے ڈیڑھ ہزار صدیوں میں جریدۂ عالم پر نمودار نہیں ہوا۔
اور محض یہی نہیں کہ اسے مقبولیت و شہرت کا بامِ عروج حاصل ہوا، بلکہ خالقِ کائنات نے اسے مرجعیت و مرکزیت کے لازوال و بے مثال دولت سے ہم کنار فرمایا، اور اسے چودہویں و پندرہویں صدی اور مابعد کے ایام و اقران کے لیے منارۂ عرفان و آگہی اور ام المدارس دار العلوم قرار دیا، یہاں تک کہ مسلسل جد و جہد کے بعد وہ آج نہ صرف ہندستان بلکہ ایشیاء کے اندر اسلامی تعلیم کا ایک عظیم الشان مرکز ہے، اور اس کی روحانیت کی کشش کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف اطراف ملک بلکہ امریکہ، افریقہ، عرب ممالک اور اسلامی دنیا کے ہر حصے سے فدائیدانِ قرآن و حدیث آ کر پروانہ وار اس کے گرد جمع ہوتے ہیں۔
اس کی آغوش میں ایسے ایسے فضلا اور ماہرِ علومِ نبوت و شریعت تیار ہوے جنہوں نے علوم و معارف کی تاریخ میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا کر دیا، اور دینی و اسلامی خدمات کی ایک جداگانہ تاریخ رقم کردی، یہی تو وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مقبولیت کا معراج عطا کیا اور دارالعلوم کے ابتداء قیام ہی سے اکنافِ عالم بخارا سمرقند، افغانستان، روس و ایران کے طالبان علوم اپنی تشنگی کو سیراب کرنے اور اپنے دامنِ بے مایہ کو علمی و عرفانی سرمایہ سے پر رونق و پر بہار بنانے کے لیے سرزمین دیوبند وارد و صادر ہونے لگے، اور پھر دارالعلوم دیوبند اور علماءِ دیوبند کا فیض عالم کے چپے چپے اور گوشے گوشے میں پھیلنے لگا، ان علما کا رسوخِ علم، جہد و تقویٰ، ایثار و اخلاص، دینی غیرت و حمیت، وفا شعاری و جاں نثاری اور راہِ حق میں قربانی کے تذکرے اور چرچے ملکی سرحد کو عبور کرتے ہوئے عالم اسلام کے کونے کونے تک ہونے لگا، اور جیسے کہ امامِ حرم شیخ صالح نے دیوبند میں تشریف آوری کے موقع پر مسجدِ رشید میں ایک خطاب کے دوران فرمایا کہ ’’ دار العلوم دیوبند نہ صرف ہندستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے، اور دار العلوم دیوبند کے علما نے ایسے عظیم الشان کارنامے انجام دیے ہیں، جن کی گونج دنیا کے کونے کونے تک پہنچی ہے‘‘
آج سے پچاسوں سال قبل دارالعلوم دیوبند کی تعلیم و تربیت کے نتائج و ثمرات کے بارے میں لاہور کے ’’زمیندار‘‘ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ اس وقت ہندستان کے طول و عرض میں علومِ دینیہ سے واقف جتنی ہستیاں نظر آتی ہیں ان میں بڑا حصہ اسی دریاے علم (دارالعلوم دیوبند) سے سیراب ہوکر نکلا ہے، ہندستان کے بڑے بڑے علما نے اسی مہتم بالشان مدرسے میں زانوے ادب تہ کیا ہے، اور درحقیقت علمی خدمات کی گراں مایگی میں ہندستان کی کوئی درسگاہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، یہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی ایک دو مستثنیات کو چھوڑ کر کوئی دار العلوم ایسا نہیں جو اس سے ٹکّر کھا سکے، اور جس نے ملت بیضا اسلامیہ کی اتنی اہم خدمات انجام دی ہوں‘‘( تاریخ دارالعلوم دیوبند ج١ ص٤٤٩)
شیخ الاسلام کا حیرت انگیز واقعہ
شیخ الاسلام فخرِ دیوبندیت حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے دورۂ ہند میں دارالعلوم دیوبند کی عالمی و آفاقی فیض و مقبولیت کا تذکرہ کرتے ہوے فرمایا ’’ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے خود اس شہر کی نسبت سے مشرف فرمایا ہے، جس شہر نے صرف ہندستان میں نہیں، بر صغیر میں نہیں، پوری دنیا میں علم اور دین کا نور پھیلایا ہے، مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا کے تقریباً ہر خطے کا سفر کروایا، اور دنیا کے چھے بر اعظم میں سے کوئی بر اعظم ایسا نہیں جہاں مجھے بار بار جانے کا اتفاق نہ ہوا ہو، اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات اور وہاں کے حالات سے واقفیت کا موقع اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہ دیا ہو، لیکن اس دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں، کوئی جگہ مجھے ایسی نہیں ملی جہاں دیوبند کی روشنی نہ پڑی ہو، اور جہاں دیوبند اور فرزندانِ دار العلوم کوئی نہ کوئی عظیم دینی خدمت انجام نہ دے رہے ہوں۔
ایک مرتبہ میرے میزبان انڈونیشیا کے دور دراز پہاڑی علاقے میں مجھے لے گیے، لے جانے کا مقصد یہ تھا کہ ہنگاموں سے ہٹ کر چند لمحات تفریح کے بھی گزارے جائیں، ایک پہاڑی مقام تھا، وہاں گھومنے کے لیے نکلے، نماز کا وقت ہونے والا تھا، میں نے چند ساتھیوں سے کہا کہ مجھے مسجد میں لے جائیں، مسجد میں جا کر نماز مغرب پڑھی، تو جو صاحب امامت فرما رہے تھے وہ دارالعلوم دیوبند کے فرزند تھے، ایشیا ہو یا افریقہ، امریکہ ہو یا یورپ، لاطینی امریکہ ہو یا آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک، کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں دار العلوم دیوبند کے فرزندان اس سے بالواسطہ یا بلا واسطہ فیض حاصل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی عظیم دینی خدمات انجام نہ دے رہے ہوں، اللہ جل جلالہ کی قبولیت اور ہی چیز ہے، وہ چاہے تو خاک کے ایک ذرے کو آفتاب و ماہتاب بنا دے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے دیوبند کی خاک کو ایسی ہی مقدس اور ایسا ہی ایمان افروز بنایا کہ جہاں جہاں اس کا نور پہنچا ہے وہاں اس کی روشنی پھیلی ہے، وہاں کے لوگ دیوبند سے واقف ہیں۔
ہم عرب ممالک میں جاتے ہیں، عرب علما سے ملتے ہیں، ان سے جب ہندستان کے کسی بڑے شہر کا نام پوچھتے ہیں تو سوائے دلی اور بمبئی کے اور کسی بڑے شہر کا نام نہ لے سکیں گے، لیکن اگر ان مشہور شہروں کے بعد کسی شہر کو اگر وہ جانتے ہیں تو وہ دیوبند ہے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کے شکر ادا کرنے کا حق تو ادا ہو ہی نہیں سکتا کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے مجھے نسبی اعتبار سے بھی وطنی اعتبار سے بھی، دیوبند سے نسبت عطا فرمائی ہے، (دار العلوم دیوبند کی مرکزیت ص14 بحوالہ خطبات دورۂ ہند)
حضرت محبوب العلماء و الصلحاء کا چشم دید واقعہ
اللہ رب العزت نے اس عاجز کو دین کی نسبت سے دنیا کے چالیس سے زیادہ ملکوں کے سفر کرنے کی توفیق بخشی ہے، اس جگہ بھی گیے جہاں چھے مہینے دن اور چھے مہینے رات ہوتی، سائبریا میں بھی گیے جہاں یخ بستہ ہوائیں اور برف ہی برف نظر آئی، ہم نے برف پر نماز پڑھی، ایسی جگہ بھی دیکھی جس کو end of the world ( دنیا کا آخری کنارہ) کہتے ہیں، حکومت نے وہاں یہ بات لکھی ہوئی ہے، کیوں کہ جون کے مہینے میں ایک ایسا دن آتا ہے، جب وہاں پر تقریباً ایک لاکھ سیاح اکٹھا ہوتے ہیں، وہاں پر ایک دلچسپ منظر یہ ہوتا ہے کہ سورج غروب ہونے کے لیے سمندر کے پانی کے قریب آتا ہے اور ہر غروب ہونے کے بجائے دوبارہ طلوع ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس لیے دنیا کے سائینس دان اس جگہ کو دنیا کا آخری کنارہ کہتے ہیں، افریقہ کے جنگل بھی دیکھے اور امریکہ کی دنیا بھی دیکھی لیکن ایک بات عرض کردوں، یہ عاجز جہاں بھی گیا، آبادی تھی یا جنگل تھا، پہاڑوں کی چوٹیاں تھیں یا زمین کی بستیاں تھیں، وہاں پر دار العلوم دیوبند کا کوئی نہ کوئی روحانی فرزند بیٹھا دین کا کام کرتا نظر آیا، دارالعلوم دیوبند کو اتنی مقبولیت حاصل ہو چکی ہے ‘‘ (علماءِ دیوبند کا تاریخی پس منظر ص٢٢) اللہ اکبر ! یہ علماء دیوبند کے جذبۂ اخلاص و للہیت کے برکات نہیں تو اور کیا ہے، ان کی جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کے ثمرات نہیں تو اور کیا ہے، ان کی تبلیغی محنت اور دعوتی قربانیوں کے نتائج نہیں تو اور کیا ہے، ان کی فکرِ امت اور دردِ ملت کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ نہ آبادی دیکھی، نہ صحرا کا پروا کیے، نہ زمین کی پستیوں کا کبھی خوف ستایا، نہ پہاڑ کی بلندیاں ان کے نیک عزائم کو پسپا کر سکی، نہ برفیلی زمین اس کے پیروں کو لغزش و جنبش دے سکی، نہ پتھریلی چٹان ان کے قدموں کو ورم دے سکی، نہ سورج کی تیز ترین دھوپ حائلِ راہ ہو سکی، نہ رات کی تاریکیاں ہراساں کر سکی، ہر جگہ اور ہر مقام میں پہنچ کر دینی خدمتوں کے ذریعے خلقِ خدا کی رہنمائی و نفع رسانی کی، خالقِ حقیقی سے مخلوق کے تعلقات کو استوار کرایے، مقصدِ حیات سے آگاہ و خبردار کراے، لا یعنی خرافات سے اجتناب و احتراز کی تلقین کی، دینی تعلیم کو عام کیا، خدائی پیغام کی تبلیغ کی، احکام شریعت کی ترویج و اشاعت میں کوششیں صرف کی،
حضرت مفتی راشد اعظمی صاحب کا واقعہ
حضرت الاستاذ مفتی راشد اعظمی صاحب اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ’’ مولانا قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند نے بچپن میں خواب دیکھا کہ میں خانۂ کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوں، میرے جسم سے دودھ کی نہریں نکل نکل کر ہر طرف جا رہی ہیں، کسی عارف کامل نے اس خواب کی تعبیر یہ بتلائی کہ یہ بچہ بڑا ہو کر ان شاء اللہ حضور ﷺ کے دین کی ایسی خدمت کریگا کہ اس کا فیض دنیا کے چپے چپے میں جائیگا، دوستو! آج آپ کہیں بھی چلے جائیں دارالعلوم دیوبند کا فیض چمکتا ہوا نظر آئیگا، حضرت مولانا نعمت اللہ الاعظمی کے ساتھ میں ایک ایسے ملک میں گیا جو دنیا کا سب سے پہلا ملک ہے، جہاں سے دنیا شروع ہوتی ہے، جہاں سورج سب سے پہلے طلوع ہوتا ہے، اور جہاں سب سے پہلے فجر کی نماز ادا کی جاتی ہے، یعنی فیجی، ہم چلتے گیے، اور گھنٹوں چلتے رہیں، پھر ہم ایک جزیرے میں پہنچے تو ماشاءاللہ وہاں عربی کے مدرسے قائم ہیں، اور کئی مدرسے قائم ہیں، جہاں دورۂ حدیث تک کی تعلیم ہوتی ہے، تو ہم نے ان علماء سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں سے پڑھ کر آے ہیں ؟ کہنے لگے کہ دار العلوم دیوبند سے پڑھ کر آے ہیں۔
دوستو! چپے چپے میں جہاں ہمارا وہم و گمان بھی نہیں جاتا، دار العلوم دیوبند کے فارغین وہاں پہنچ کر دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں‘‘
دارالعلوم دیوبند جو اسلام کی مذہبی اور تعلیمی خدمات انجام دے رہا ہے اور مغربی تہذیب و تمدن کے سیلاب سے جس طرح اس نے اسلامی ہند کی روحانی عمارت کو محفوظ رکھا ہے ہندستان کے طویل و عریض بر اعظم کا ایک ایک گوشہ اس کی گواہی دے سکتا ہے ایسے وقت میں جب کہ علوم جدیدہ کی روشنی نے ظاہر میں نظروں کو خیرہ کر دیا تھا، جب دنیوی عزت و مناصب کی کشش اچھے اچھے دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی، جب کہ لوگ مذہب سے بے پروا اور مذہبی تعلیم کی طرف سے غافل ہو چکے تھے، اور قال اللہ اور قال الرسول کی مقدس آواز نئی تعلیم کے نقار خانے میں دب گئی تھی، اور مغربی تعلیم و تمدن کے فاتحانہ شور اور پکار سے مغلوب ہو چکی تھی اس نازک وقت میں دیوبند اور صرف دیوبند تھا جو قرآن و حدیث کے عَلَم کو سنبھالے ہوے کھڑا رہا، ملک کی غفلتوں اور سرد مہریوں کی آندھی نے رہ رہ کر گرانا چاہا مگر وہ پہاڑ کی طرح قائم رہا، فاتح تہذیب کی خندہ زنی اس کو ایشائیت اور اس قدامت سے منحرف نہ کر سکی، نئی تعلیم کی سیلاب نے چاہا کہ اپنی رَو میں اسے بہا لے جاے، اس کو بھی شکست ہوئی، اور وہ کس مپرسی کے باوجود ایک طرف اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرتا رہا اور دوسری طرف اپنی روحانیت کی روشنی ملک کے گوشے گوشے میں پہنچاتا رہا۔
ہندوستان میں مذہب کے اثر و رسوخ کی وجہ
حضرت الاستاذ مولانا سلمان بجنوری صاحب رقم طراز ہیں ”دارالعلوم نے مسلمانوں کے دین و مذہب اور افکار و نظریات کی حفاظت میں جو کردار ادا کیا اور ان کو مسلکِ مستقیم پر لانے اور اس پر قائم رکھنے میں دارالعلوم کا جو مقام ہے اس کا اعتراف ہر کس و ناکس اور دوست و دشمن نے کیا ہے، اس سلسلے میں ذیل کی شہادت یقیناً قابلِ توجہ ہے جو ماہنامہ ”الرشید“ کے نہایت وقیع اور ضخیم ”دارالعلوم نمبر“ میں صفحہ 402 پر درج ہے، صاحبِ مضمون لکھتے ہیں ” تقسیمِ ملک کے بعد سابق ریاست بہاولپور میں جامعہ عباسیہ بہاولپور کے بارے میں ماہرین تعلیم اور بڑے بڑے افسران کا اجلاس ہو رہا تھا، اجلاس میں دیگر حضرات کے علاوہ سید حسنین احمد شاہ صاحب چیف انجینیئر بھی موجود تھے، انہوں نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ میں تقسیمِ ملک سے پہلے ایک دفعہ امریکہ گیا، وہاں کے ایک ہوٹل میں بیٹھا تھا کہ اونچے طبقے کے دو امریکن وہاں آئے، نشستیں سنبھالنے کے بعد ادھر وہ خورد و نوش میں مشغول ہوئے، اور انہوں نے ایک موضوع چھیڑ دیا جو میرے لیے بڑا دلچسپ تھا، ان میں حسبِ ذیل گفتگو ہوئی،
ایک بولا: کیا وجہ ہے کہ ہندوستان میں مذہب کا اثر و رسوخ زیادہ پایا جاتا ہے حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک بھی ہندوستان کا مقابلہ نہیں کر سکتے؟
دوسرے نے جواب دیا: مشرق وسطیٰ جغرفیائی لحاظ سے یورپ کے قریب تر ہے، اس لیے یہاں یورپ کے اثرات زیادہ پہنچے ہیں، ہندوستان دور رہ جاتا ہے۔
پہلا: نہیں! یہ بات نہیں ہے، ہندوستان مکمل طور پر برطانوی حکومت کے زیرِ تسلط ہے، اور اس تسلط کو تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر چکا ہے پھر بھی فاتحِ قوم وہاں کے مسلمانوں سے مذہب کا دامن نہیں چھڑوا سکی۔
دوسرا: شاید یہ بات ہو کہ ہندوستان ایک غریب ملک ہے اس لیے تہذیبِ نو وہاں قدم نہیں جما سکی۔
پہلا: یہ بات بھی نہیں ہے، اول تو اس لیے کہ وہ اتنا غریب نہیں ہے، اور اگر واقعی غریب ہو تو غریب کو اپنی طرف مائل کر لینا زیادہ آسان ہے، اس طرح سے دو چار سوال و جواب کے بعد پہلا بولا جہاں تک میں نے اس مسئلے پر سوچا ہے، اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہندستان میں دینی تعلیم کا ایک ادارہ ہے جس کا نام ”دیوبند“ ہے وہ تحریر و تقریر کے ذریعے مذہبی تعلیم کی اشاعت کر رہا ہے اور وہی ادارہ وہاں پر مذہبی اقدار کی بقا کا ضامن ہے (دارالعلوم دیوبند خدمات، حالات، منصوبے ص ۹)
واقعہ یہ ہے کہ علم و فن کی اشاعت کا مرکز اور اعلی مذہبی تعلیم گاہ ہونے کے ساتھ مسلمانوں کے دین و ایمان اور ان کے مسلک کا ایسا محافظ ہونا کہ دیوبند کی نسبت ہی مسلکِ صحیح کا عنوان بن جائے یہ دارالعلوم دیوبند کا وہ امتیاز ہے جو تاریخ اسلام کم ہی اداروں کو نصیب ہوا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: علماء دیوبند اور قرآنی خدمات
یہ بھی پڑھیں: علماء دیوبند عربوں کی نظر میں
0 تبصرے
تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!