Header Ads Widget

محبوب العلماء و الصلحاء پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہ العالیہ| حیات و خدمات

 محبوب العلماء و الصلحاء پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہ العالیہ: حیات و خدمات

محبوب العلماء و الصلحاء پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہ العالیہ: حیات و خدمات

از: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی


یہ بات کانوں سے بارہا سنی گئی کہ بر صغیر ہند میں اشاعتِ اسلام اور اشاعت دین و توحید کا ایک بڑا ذریعہ صوفیاءِ کرام ہیں، یہ بات ٹھیک بھی ہے کہ انھی اہل اللہ نے اپنے خانقاہوں اور خلوت گاہوں میں بیٹھ کر ہزاروں کی زندگیاں بدل دیں، اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو شرک و کفر، بدعات و خرافات اور باطل عقائد و نظریات کے دلدل سے نکال کر ایمان و توحید کی طرف لائے، بر صغیر میں ہر زمانے میں صوفیاء کرام کا ایک گروہ موجود رہا ہے، اور ان 15 صدیوں میں ان صوفیاء کرام کی ایک لمبی فہرست ہے، انڈیا کی افیشل رپورٹ کے مطابق دو حضرات ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ملکی پیمانے پر اثرات ڈالے ہیں، ایک حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور دوسرے سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ، ان دونوں حضرات کے اصلاح و ارشاد کے اثرات ہزاروں پر نہیں بلکہ لاکھوں اشخاص پر پڑے ہیں،  ایک بڑی تعداد نے ان کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا ہے، اور اب تیسری شخصیت جو اسی مقبولیت و محبوبیت کے حامل ہیں وہ ہے حضرت جی پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ، حضرت جی کا فیض صرف برصغیر میں ہی نہیں بلکہ یورپ، امریکہ، افریقہ دنیا کے تقریباً 70 سے زائد ملکوں تک پھیلا ہے، ان کی ذات ایسی ذات ہے کہ جن کی بنا پر لاکھوں لوگوں کو رجوع اللہ کی توفیق رفیق ہوئی، جن کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کے تعلق مع اللہ میں مضبوطی آئی، جن کے نورانی چہرے کے دیدار سے خدا یاد آتا ہے، جن کو دیکھ کر عمل صالح کرنے کی ہمت، جذبہ، لگن اور ولولہ پیدا ہوتا ہے، جن کی صحبت کیمیاے اکسیر ہے، کتنوں کو کندن بنا دیا، کتنوں کے جوہر کو نکھارا، سلوک کی راہ میں کتنے ہی مشت خاک کو رشک آفتاب بنا دیا، کتنے لوگوں کو اسلام کی دولت عظمیٰ نصیب ہوئی، کتنوں نے مقصد زندگی کی واقفیت حاصل کر لی، کتنوں نے خدا اور رسول کو پا لیا، یقینا یہ سب حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ کی ذات کا فیض ہے، جن کا وجود ہم سب کے لیے ایک نعمت عظمیٰ اور ان سے عقیدت و محبت ہم سب کے لیے باعث اجر و سعادت ہے۔


ولادت و ابتدائی حالات 

حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ کی ولادت باسعادت جھنگ کے کھرل خاندان میں یکم اپریل 1953 عیسوی میں ہوئی، حضرت جی چونکہ اپنے والدین کے سب سے چھوٹے فرزند تھے اس لیے آپ پورے خاندان کے لیے مرکز توجہ بن گئے، والدین اور بھائی بہنوں کی بے پناہ شفقتیں و محبتیں آپ کے نصیبے میں آئی، آپ کا پورا گھرانہ پاک طینت، نیک طبیعت اور انتہائی دیندار تھا، بالخصوص آپ کے والدین عبادت و ریاضت کے خوب شائق تھے، پابندیِ صوم و صلاۃ اور اہتمام نوافل و تہجد میں قابل رشک تھے، حضرت جی خود رقم طراز ہیں کہ ” وہ ( حضرت جی) جب اپنے زندگی کے تیسرے سال میں تھا اور والدہ صاحبہ کے ہمراہ ایک ہی بستر میں سوتا تھا تو کئی مرتبہ رات کے آخری پہر میں والدہ صاحبہ کو بستر پر موجود نہ پا کر اٹھ بیٹھتا، دیکھتا تھا کہ وہ سرہانے کی طرف مصلیٰ بچھا کر نماز تہجد میں مشغول ہے، میں منتظر رہتا کہ نماز کب ختم ہوگی ؟ والدہ صاحبہ نماز کے بعد دامن پھیلا کر آواز سے رو رو کر دعائیں مانگتی اور میرا بھی نام لے کر خوب دعائیں مانگتی۔



تعلیم و اساتذۂ کرام

حضرت جی نے ناظرۂ قرآن پاک غلام رسول صاحبؒ سے پڑھی، پھر اسکول میں داخلہ لیا اور چھٹی سے بارویں جماعت تک مسلسل عربی کا مضمون پڑھنے کی وجہ سے صرف و نحو میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی، مگر اس میں مزید استعداد پیدا کرنے کے لیے ایک عربی استاد محمد حسین صاحب سے بھی استفادہ کیا پھر ایف ایس سی کا امتحان دینے کے بعد مفتی ولی اللہ صاحبؒ مفتی اعظم جھنگ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں مثلاً گلستاں، بوستاں، مالا بد منہ وغیرہ پڑھی، اور صرف و نحو کی کتابیں مثلاً شرح مأۃ عامل وغیرہ شام کے گھنٹے میں پڑھتے تھے، پھر عربیت میں مزید گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کے لیے ماہرِ نحو و صرف مولانا محمد اشرف شاد صاحبؒ سے دو مرتبہ دورہ صرف و نحو کیا، بلکہ صرف صغیر کو ایک ہی سانس میں سنا کر انعام و اکرام سے بھی نوازے گئے، فقہ کی کتابیں حضرت مولانا امین کشمیری صاحبؒ سے پڑھی، اور عمدۃ الفقہ کو اپنے شیخ سید زوار حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے خصوصی مجالس میں پڑھی، عربی ادب کی کتابیں آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا حبیب اللہ ناظم معھد الفقیر سے پڑھیں، پھر حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سے قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر دو سال میں سبقاََ سبقاََ مکمل کی، پھر حدیث پاک حافظ الحدیث مولانا جعفر صاحب سے پڑھی مزید یہ کہ آپ کو کئی مدارس سے اعزازی سند و اجازت بھی حاصل ہے بالخصوص دارالعلوم دیوبند سے۔


حصول بیعت و طریقت

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ حضرت جی خاندانی دینی ماحول اور والدین کی خصوصی تربیت و صحبت کی بنا پر عہدے طفولیت سے ہے نیک صفت و نیک خو طبیعت و شخصیت کے مالک تھے، بر ایں بنا ابتدا ہی سے آپ کا خصوصی ذوق و رجحان بھی اصلاح و تزکیۂ نفس کی طرف رہا، اسی تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی غرض سے آپ نے اپنے ملک کے کئی نامور و معروف خانقاہوں کے چکر کاٹے، مگر ہر جگہ سے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پامالی اور بدعت و خرافات کی رواج پذیری نے آپ کو ناکام و نامراد واپس کر دیا، اور تقریباً ڈھائی سال مرشد و رہبر کی تلاش و جستجو میں سرگرداں و مرغ نیم بسمل کی طرح رقصاں رہے ،مگر اس مدت میں بھی آپ نے اپنے آپ کو آزاد نہیں رکھا، بلکہ کتبِ تصوف سے استفادہ و رہنمائی حاصل کرتے رہے، ریاضت و مجاہدے کے ذریعے اپنے آپ کو اس اس عالی مقام تک لے گئے تھے کہ ایک ولی کامل حضرت بابو جی عبداللہ رحمت اللہ علیہ نے آپ کے متعلق خط میں ارشاد فرمایا ” معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا قلب جاری ہو چکا ہے، آپ فوراً کسی شیخ سے بیعت ہو جائیں، اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے لاکھوں انسانوں کو ہدایت عطا کریں گے، اگر بیت نہ ہوئے تو خطرہ ہے کہ شیطان مردود فتنے میں نہ ڈال دے “ پھر آپ نے بعد غور و فکر سید زوار حسین شاہؒ کے در دولت پر حاضر ہوئے، اور آپ کے ساتھ بیعت و ارادت کے ساتھ ساتھ باضابطہ تلمیذی تعلق بھی استوار کر لیے، پھر کیا تھا آپ ایک عاشقِ صادق اور طالبِ حق بن کر روزانہ شیخ کے آستانے پر حاضری دینے لگے، حتیٰ کہ جب آپ انجینیئرنگ کے امتحان سے فارغ ہوئے تو احباب کے ایک وفد کے ساتھ مسکین پر حاضر ہوئے اور چار ماہ کی ریاضت سے اصلاح نفس اور تزکیہ قلب میں مصروف ہو گئے، روزانہ سات سات گھنٹے مراقبہ میں منہمک و مصروف رہتے، بعدہ اپنے شیخ سید زوار حسین شاہؒ سے خوب سے خوب استفادہ کیے، اور ترقیات کے مراحل و مدارج طے کرتے رہے، حتیٰ کہ وہ غمگین کن حادثہ بھی پیش آیا جس نے آپ کو اپنے شیخ سے ہمیشہ کے لیے فرقت کا زخم اور داغ دے دیا، حضرت جی اپنے شیخ کے انتقال پر ملال سے ماہی بے آب کے مثل تڑپ اٹھے، اور مہینوں آنکھوں سے سیل رواں جاری رہا، بعدہ حضرت مرشد عالم رحمت اللہ علیہ سے بیعت ثانی کے رابطے قائم کیے، اور مرشد عالم رحمت اللہ علیہ نے ہی آپ کو نقشبندی اجتماع کے موقع پر اجازت و خلافت سے نوازا، یہی آپ کے مرشد ثانی تھے، حضرت مرشد عالم کے 90 سالہ مجاہدانہ اور عارفانہ زندگی کی تعلیمات کا لب لباب و خلاصہ آپ کا یہ ملفوظ ہے کہ ” اپنے عقائد اور ظاہری اعمال کو علماءِ دیوبند کے مطابق بناؤ، اور اتنی محنت کرو کہ خالق اور مخلوق دونوں کو تم پر ترس آ جائے “ حضرت جی پیر ذوالفقار صاحب نے شیخ وجیہ الدین صاحب سے سلوک و تصوف کے باب میں کافی اکتساب فیض بھی کیا، گویا کہ حضرت جی نے تزکیۂ نفس و تصفیۂ قلب کے واسطے کل چار مشائخ سے بالخصوص استفادہ کیے ہیں، (1) مرشد اول سید زوار حسین شاہ (2) مرشد ثانی مرشد عالم پیر غلام حبیب (3) حضرت شیخ وجیہ الدین (4) حضرت بابو جی عبداللہ رحمہم اللہ سے۔


ازدواج و اولاد

حضرت جی کی شادی خانہ آبادی امام العلماء و الصلحا حضرت خواجہ محمد عبدالملک صدیقی رحمت اللہ علیہ کی سب سے چھوٹی دختر نیک اختر سے ہوئی، جو قرآن پاک کی حافظہ تھی، نکاح و رخصتی خانیوال کے سالانہ اجتماع پر 23 مارچ بروز جمعہ کو ہوئی، نماز جمعہ کے بعد خود حضرت صدیقی صاحب رحمت اللہ علیہ نے خطبۂ نکاح پڑھا، اور مختصر بیان میں یہ بھی فرمایا کہ ” یہ ذوالفقار اور نصرت علی میرے بچے ہیں، مجھے اتنے عزیز ہیں کہ ان پر تو میری جان بھی قربان ہے “ 

                       حضرت جی کے دو صاحبزادے ہیں (1) مولانا پیر حبیب اللہ نقشبندی (2) مولانا پیر سیف اللہ نقشبندی اول الذکر صاحبزادے کی ولادت 24 ستمبر 1985 جھنگ میں ہوئی، جبکہ ثانی الذکر کی پیدائش اسی کے دو سال بعد 25 ستمبر 1987 میں ہوئی، ماشاءاللہ دونوں صاحبزادے ایم اے عربی اور فاضل وفاق المدارس ہیں، دونوں صاحبان اپنے والد حضرت نقشبندی کے نقش قدم پر روا دواں ہیں، ایک مرتبہ حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے بڑے صاحبزادے کے متعلق فرمایا کہ ” میں نے حبیب اللہ کے بارے میں بہت سی دعائیں اللہ رب العزت سے مانگی تھی، جن میں سے کئی ایک پوری ہو چکی ہے اور جو باقی ہے اللہ تعالیٰ وہ بھی قبول فرمائے، ایک دعا اس فقیر نے یہ بھی کی تھی کہ اے اللہ ! حبیب اللہ کو وقت کا مجدد بنا دے، اللہ تعالیٰ سے پر امید ہوں کہ وہ ہماری دعا کی ضرور لاج رکھے گا، دونوں صاحبزادوں میں اللہ تعالی نے گو نا گوں صلاحیتیں ولیاقتیں بخشی ہیں، مگر بڑے صاحبزادے میں انتظامی صلاحیت جبکہ چھوٹے صاحبزادے میں علمی ذوق نمایاں اور قابل رشک ہیں۔


اخلاق و کردار

سفید لباس میں ملبوس، سر عمامے سے مزین، آپ کی ظاہری شخصیت بھی غیر معمولی جاذبِ نظر اور دلنشیں ہے، آپ کا سراپا نہایت ہی خوبصورت ہے، آپ پر پڑنے والی ہر نظر ناظرین کے لیے درسِ حیات ہوتا ہے، منثور کی طرح ایسے پہلو دار شخصیت کے حامل ہیں کہ جس پہلو سے دیکھا جائے اس میں قوسِ قزح کے مانند گوناگوں رنگ سمٹتے نظر آتے ہیں، آپ کی آواز و انداز گفتگو میں قدرتی طور پر حلاوت و شیرینی نمایا ہوتی ہے، انسان شناسی و موقع شناسی کا کمال پایا جاتا ہے، چونکہ آپ کو ہر طبقے و ہر قسم کے لوگوں سے واسطے پڑھتے ہیں اس لیے گفتگو میں ” کلم الناس علی قدر عقولھم “ کو پیش نظر رکھتے ہیں، اسی طرح خوش طبعی و خوش مزاجی و مہمان نوازی کا بھی خاص وصف پایا جاتا ہے، اتباع سنت میں تو آپ طاق ہیں، معمولی سے معمولی عمل کو بھی سنت کے سانچے میں ڈھالتے ہیں، اتباع نبوی گویا آپ کی طبیعت کا جزءِ لا ینفک ہے، مکروہات شرعیہ آپ کی رگ رگ میں سرایت ہو کر مکروہات طبعیہ بن گئی ہے، خور و نوش، گفتار و کردار، نشست و برخاست، ارادہ و عمل اور ذوق و رجحان غرض کی ہر ہر عمل میں اتباع نبوی کا مزاج پیدا ہو گیا ہے، آپ کے اتباع نبوی و اتباع سنت کے بے شمار نادر و بے مثال واقعات موجود ہیں۔


اشاعتِ دین کی فکر 

حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ پر اشاعتِ دین و سنت کا بے حد فکر و غم سوار رہتا ہے، دن و رات اشاعتِ دین کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں، نہ تن بدن کی فکر، نہ آرام کی خواہش، نہ ضروریات کی پروا، بس ہمہ وقت فکرِ مسلسل و جہدِ پیہم میں مصروف رہتے ہیں، ذاتی تقاضوں پر دینی خدمات کو ترجیح دیتے ہیں، دن کہیں رات کہیں گویا کہ ” انى دعوت قومى ليلا و نه‍ارا “ کی عملی تفسیر نظر آتے ہیں، اور ” انفروا خفافا و ثقالا “کے مطابق پیغامِ الہیٰ کی تبلیغ و ترسیل میں دربدر سرگشتہ و سرگرداں نظر آتے ہیں، آپ کی خواہش اور دلی تمنا ہے کہ وہ تمام دنیا میں اشاعتِ اسلام کے لیے تربیت یافتہ افراد کو بھیجوں، آپ نے دعوت کے لیے کٹھن سے کٹھن اور مشکل و دور دراز مقامات کا بھی سفر کیا ہے، حتیٰ کہ ساؤتھ افریقہ کے سفروں میں ایسی جگہ بھی پہنچے جہاں سائنس دانوں نے یہ لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ the end of the world ( یعنی دنیا کا آخری کنارہ ) وہاں سمندر کے پانی میں آپ نے اپنے پاؤں ڈال کر اللہ کے اگے التجا کی، کہ یا اللہ یہاں سے آگے آپ کی زمین ختم ہو گئی ورنہ میں تیری دعوت و محبت کے پیغام کو لے کر آگے سے آگے چلا جاتا۔

      ع   میرا ہے پیغام محبت جہاں تک پہنچے۔

      

                     آپ نے ابھی تک دعوتِ دین کے لیے 70 سے زائد ملکوں کا سفر کیا، انڈیا، نیپال، بنگلہ دیش، سعودی عرب، سنگاپور، مصر، تھائی لینڈ انڈونیشیا سویڈن روس فرانس امریکہ جرمنی برطانیہ اٹلی ترکی افغانستان تاجکستان ازبکستان کا کو وغیرہ 70 ملکوں میں دعوت کا پیغام پہنچایا ہے حتی کہ اگر کسی ملک کا سفر کسی خاص غرض سے کرتے تو اس میں بھی دعوت کی نیت کر لیتے اور یوں دعوت و پیغام کا مجسمہ جہاں جاتے نہ صرف یہ کہ سب کو دلدادہ و گرویدہ کر لیتے بلکہ ان سب کے باطن میں انقلاب کا بیج بو دیتے، شخصیت میں اصلاح پیدا کر دیتے، اسی لیے اگر آپ کسی شہر میں داخل ہوتے تو اگر چہ وقتِ دخول تنے تنہا ہوتے، مگر جب رخصت ہوتے تو پورے شہر سے جماعتیں الوداع کرنے کے لیے آتیں، اور نمدیدہ آنکھوں اور غم زدہ چہروں کے ساتھ حضرت کو رخصت کرتے۔


زیرِ سرپرستی مدارس 

      حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ نے خلقِ خدا کی رہنمائی جہاں دعوتی و اصلاحی پہلو سے کی، آپ نے ان مصروفیات کے علاوہ دیگر پہلوؤں سے بھی خلق خدا کو فائدہ پہنچایا ہے، آپ درجنوں مدارس وجامعات کے سرپرست و نگراں ہیں، اور پوری احساس ذمہ داری کے ساتھ خالصتاً لوجہ اللہ ان کی نگرانی و سرپرستی فرماتے ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں،

(1)  دارالعلوم جھنگ۔ یہ گلشن (دارالعلوم) جو حضرت جی کے لگائے ہوئے ہیں، اس میں شعبہ حفظ اور درس نظامی کے ساتھ ساتھ دارالافتا کا شعبہ بھی سرگرم عمل ہے، حضرت جی کی دلی آرزو ہے کہ دارالعلوم جھگ بھی دارالعلوم دیوبند کے طرز پر کام کرے، اور یہاں کا ہر تعلیم یافتہ دینی و علمی، روحانی و عرفانی ہر لحاظ سے درخشندہ تابندہ منارۂ نور بنے۔

(2) معہد الفقیر الاسلامی جھنگ۔ یہ ادارہ تعلیم و تربیت کے حوالے سے مثالی ادارہ ہے، تعمیر بھی مثالی اور دلکش ہے، اس میں بھی درس نظامی، تخصص فی الفقہ اور دارالافتاء باضابطہ قائم ہے، نیز یہ کہ اس کی مسجد زینب میں اعتکاف کا خصوصی بندوبست بھی ہے، ان کے علاوہ جامعہ زینب لاہور، جامعہ احیاء العلوم کراچی، آس اکیڈمی لاہور، جامعہ عائشہ اکیڈمی لاہور کے علاوہ درجنوں مدارس آپ کے زیر سرپرستی ہیں۔


معمولات یومیہ

       حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ ” میرے لیے دن رات کا فرق ختم ہو گیا ہے“ نیز حضرت جی ہی فرماتے ہیں کہ ” میرا وقت بالکل بھی ضائع نہیں ہوتا “ ان دونوں اقوال سے بخوبی بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت جی کس قدر جہد مسلسل اور مصروف ترین شخصیت ہیں، اولا تو دن رات کا کوئی فرق نہیں، ثانیاً یہ کہ کوئی وقت بھی بیکار نہیں جاتا، حضر میں بالعموم معمولات کچھ اس طرح ہیں کہ اشراق کے بعد سونے کا معمول، تین گھنٹہ تقریباً سونے کے بعد 11 بجے اٹھ جاتے ہیں، اور ناشتہ کرتے ہیں، ظہر کے بعد معھد الفقیر کے متعلق میٹنگ ہوتی ہے، بعد عصر تفریح، بعد مغرب ملاقات و مطالعہ، بعد عشاء طلبہ افتا و دورہ حدیث شریف کی تربیت، بعدہٗ تا فجر مطالعہ و کتب بینی اور ذکر مراقبہ میں مشغول رہتے ہیں، آپ اپنے اسباق و معمولات کے پابند ہیں، لایعنی کاموں اور بحثوں سے مکمل اجتناب کرتے ہیں، جس سے وقت میں بہت ہی برکت ہوتی ہے، اور دعوت و اصلاح کے متعلق فکر مند اور درد مند رہتے ہیں۔


 تصنیف و تالیف 

              حضرت جی نے تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی دینی خدمات انجام دی ہیں، اور بحمدللہ آپ کی کتابیں بہت مقبول و مفید ہوتی ہیں، کیونکہ آپ کتابوں کو مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ لکھتے ہیں، حتیٰ کہ بعض دفعہ کتابوں کو لکھنے کے لیے آپ اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ مکمل یکسوئی و خلوص نیت حاصل ہو جائے، مزید یہ کہ اس میں باطنی طور پر روحانی توجہ بھی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے کتاب اثر انگیزی میں دو چند ہو جاتی ہے، بعض تصانیف درج ذیل ہیں، 

(1) حیات حبیب۔  اس کو حضرت جی نے اپنے پیر و مرشد پیر غلام حبیب رحمت اللہ علیہ کے سوانح حیات پر لکھی ہے، پوری کتاب با وضو تہجد و اشراق کے درمیان والے وقت میں لکھی ہیں، یہ کتاب 17 ابواب پر مشتمل ہے، اس میں برمحل اشعار کے استعمال کی وجہ سے حضرت جی کا ذوق ادب کا بھی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

(2) با ادب با نصیب۔  یہ کتاب ادب آموزی میں طاق ہے، چونکہ دین اسلام میں ہر جگہ ادب شناسی کی تعلیم دی گئی ہے، اور زندگی کی ہر راہ پر ادب کی ضرورت پڑتی ہے، لہذا اس کتاب کا مطالعہ بیش بہا فوائد کا ضامن ہے۔

(3) مجالس فقیر۔  یہ حضرت جی کی دعوتی، تربیتی، اصلاحی اور روحانی مجالس کا گراں قدر مجموعہ ہے، جو تقریباً 10 جلدوں میں شائع ہو چکی ہے، اس میں عجیب و غریب نکات و معارف بیان ہوئے ہیں۔


نامور خلفاءِ عظام

حضرت جی کے قابلیت و علمیت اور صالحیت و صلاحیت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اپ کے حلقہ خلفاء میں مشہور زمانہ اہل علم شامل ہے ان میں محدث، مفسر، متکلم، فقیہ، مفکر، قلم کا،ر ڈاکٹر اور انجینئر سب شامل ہیں، مزید یہ کہ آپ کے دست گرفتوں میں حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی جیسا مفکرِ قوم و ملت، اور ڈاکٹر تقی الدین ندوی جیسا شہرۂ آفاق محدث شامل ہیں، چند مشہور زمانہ شخصیات جن کو حضرت جسے بیعت و ارادت کا تعلق ہے درج ذیل ہیں، مفتی سلمان بجنوری محدث دار العلوم دیوبند، مفتی ابو لبابہ شاہ منصور، پیر سیف اللہ نقشبندی، حضرت مولانا سیف الرحمن درخواستی، حضرت مولانا خلیل الرحمن انوری، شیخ الحدیث مولانا حبیب اللہ مدظلہ، ڈاکٹر حماد طفیل مدظلہ (طائف) مولانا محمد ایوب سورتی (انگلینڈ) حضرت مولانا محمد قاسم منصور (اسلام اباد) حضرت مولانا سید کاشف کریم مدظلہ (ریاض) وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ حضرت جی کا فیض چار دانگ عالم میں پہنچے، اور ان کی نسبت و صحبت سے دین کی خوب ترقی و ترویج ہو۔     آمین



تاریخ۔  17/11/2023

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

تبصرہ کرکے اپنی رائے ضرور دیں!