Header Ads Widget

شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ حیات و خدمات

 شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ حیات و خدمات

شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ حیات و خدمات


از قلم: محمد علقمہ صفدر ہزاری باغوی


        بعض ہستیاں اتنی قدآور اور اپنی صلاحیتوں و لیاقتوں کے اعتبار سے اس قدر کثیر الجہات و متنوع الصفات ہوتی ہیں کہ اہلِ زمانہ اپنی تمام تر کوششوں کے بعد بھی ان کے علمی مقام و مرتبے کا صحیح اندازہ قائم نہیں کر سکتے، ایسی شخصیتیں جہاں اپنی وسعت و جامعیت میں طاق ہوتے ہیں وہیں زمانے میں بھی نادر ہوتے ہیں، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی قدس اللہ سرہ انہیں بلند قامت شخصیتوں میں سے تھے جو اپنے زمانے کے عبقری و المعی کہے جانے کے لائق تھے، کہ جن کی نظیریں ہر دور میں گنی چنی ہوتی ہے، ویسے تو انیسویں صدی کے نصف آخر سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک ہندستان کے سیاسی، علمی، ادبی، فکری منظر نامہ پر ایسے کئی مقتدر شخصیات نے اپنے خاص فکر و نظر، جہد مسلسل اور اخلاق و کردار سے ایک دنیا کو متاثر کیا ہے، مگر ان شخصیتوں میں بھی شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کا نام اپنی جامعیت و انفرادیت کی بنا پر جدا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو وسیع و عمیق علم، تحقیقی مزاج، شگفتہ و سیال قلم، دلنشیں انداز خطابت، معتدل فکر اور تدبر آشنا ذہن جیسی دولت و نعمت سے نوازا تھا، جہاں ایک طرف آپ محبوب و مقبول مدرس تھے، وہیں دوسری طرف انشا پردازی، قلمی گلکاری اور خامہ طرازی میں بھی با کمال تھے، جہاں آپ نے تفسیر قرآن لکھ کر اپنے تفسیری ذوق کا ثبوت دیا وہیں صحیح مسلم شریف جیسی بلند و بالا کتاب کی شرح لکھ کر اپنی حدیث دانی کا لوہا منوایا، جہاں’’ الشہاب‘‘ کو لکھ کر دفاع اسلام کا فریضہ انجام دیا وہیں’’ العقل و النقل‘‘ جیسی کتاب کے ذریعے اسلام اور عقل کے مابین تعارضِ موہومہ کو رفع کیا، جہاں دار العلوم دیوبند جیسے عظیم ادارے کی مسندِ تدریس میں بیٹھ کر علمی گتھیاں اور فنی مغلقات حل کیے وہیں سیاسی سماجی جلسوں میں بھی مقالوں اور تقریروں کے ذریعے ملکی و ملی خدمات انجام دیے۔

خاندان پیدائش و نام 

       سرزمینِ دیوبند اور اطراف میں سادات، صدیقی و عثمانی نسب کے کئی خانوادے آباد ہیں، علامہ عثمانی کا بھی سلسلۂ نسب خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے، آٹھویں صدی ہجری میں عثمانی نسب کا ایک بزرگ شیخ ابو الوفاؒ دیوبند میں سکونت پذیر ہوئے، ان کا مزار محلۂ محل میں واقع ہے۔

          حضرت علامہ عثمانیؒ کی ولادت ١٠ محرم الحرام ١٣٠٥ھ مطابق ١٨٨٩ء کو بجنور میں ہوئی، جہاں آپ کے والد مولانا فضل الرحمان عثمانیؒ ان دنوں ڈپٹی انسپکٹر تعلیمات کے عہدے پر فائز تھے، آپ کے والد مولانا فضل الرحمان بھی علمی شخصیت تھے اور با قاعدہ ’’خاقانیِ ہند‘‘ جیسے لقب سے ملقب کیے گیے تھے، آپ کا نامِ گرامی ’’شبیر احمد‘‘ جیسا کہ مشہور ہے، پیدائشی نام نہیں ہے، اور اصل نام فضل اللہ ہے، اور آپ نے کئی جگہ اس کی صراحت بھی کی ہے، مگر شبیر احمد کے نام سے شہرت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ آپ عشرۂ محرم میں پیدا ہوئے تھے، لہذا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یومِ شہادت کی مناسبت سے شبیر احمد کے لقب سے مشہور ہو گیے۔

تعلیم و اساتذۂ کرام

   جب آپ چھے سال کی عمر میں پہنچے، تو آپ کے سب سے پہلے استاذ حافظ محمد عظیم دیوبندیؒ صاحب نے دستور کے مطابق قاعدۂ بغدادی میں بسم اللہ کرائی، پھر ١٣١٢ھ میں دارالعلوم دیوبند میں با ضابطہ داخلہ لے کر حافظ نامدار خانؒ کے پاس قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی، بعدِ ازاں فارسی منشی منظور احمدؒ اور مولانا یاسین صاحبؒ (والد مفتی شفیع عثمانیؒ) کے پاس پڑھی، پھر ١٣١٨ھ سے عربی تعلیم کا آغاز کیا، حتیٰ کہ ١٣٢٥ھ میں دورۂ حدیث شریف سے اول پوزیشن کے ساتھ فراغت حاصل کی، ایام طالب علمی سے ہی آپ تمام فنون خصوصاََ منطق و فلسفہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے حتیٰ کہ اپنے ہم‌سبقوں اور نیچے درجے کے بچوں کو بلا تکلف خارج اوقات میں درس بھی دیتے تھے، جس میں اچھے اچھے طلبہ بھی شریک ہوتے تھے، آپ کی اس قابلیت و مہارت سے آپ کے اساتذہ بھی خوب واقف تھے، آپ کے اساتذہ میں حضرت شیخ الہندؒ، مولانا غلام رسولؒ، مولانا حکیم محمد حسنؒ، مولانا سید مرتضی حسنؒ، مفتی عزیز الرحمٰنؒ اور حافظ محمد احمد صاحبؒ (مہتمم دارالعلوم دیوبند) وغیرہ خصوصاََ قابلِ ذکر ہیں۔

تدریسی خدمات

      آپ ١٣٢٥ھ میں دارالعلوم سے فارغ ہوئے، چوں کہ ایام طالب علمی میں ہی آپ کی قابلیت شہرت پا چکی تھی اور اساتذہ کی نگاہوں میں بھی آپ ایک ہونہار طالب علم کی حیثیت رکھتے تھے، لہذا ١٣٢٦ھ کے شوال سے آپ کو دار العلوم دیوبند میں ہی منصبِ تدریس پر فائز کیا گیا، اور شروع ہی سے درسیات کی اعلیٰ کتابیں آپ کے ذمے سپرد کر دی گئیں، ابھی چند ماہ ہی درس دیے تھے کہ مدرسہ فتحپوری دہلی کی صدارت کے لیے آپ منتخب ہوکر چلے گیے، یہ مدرسہ بھی اپنی نوعیت کا اہم ادارہ تھا، آپ یہاں پر ١٣٢٧/١٩١١ تک رہے، پھر دوبارہ دارالعلوم دیوبند کی طلبی پر دیوبند چلے آے، یہاں آنے کے بعد آپ نے جھوٹی بڑی تقریباً ہر کتابوں کا درس دیا، اور باکمال درس دیا، حتیٰ کہ شیخ الہند کی موجودگی میں ہی آپ دورۂ حدیث شریف میں کبھی مسلم شریف اور کبھی ابو داؤد شریف کا درس دینے لگے، چوں کہ علامہ عثمانی منقول و معقول، تحریر و تقریر اور تصنیف و تالیف ہر ایک میں ید طولی رکھتے تھے، لہذا طلبہ کے مابین بھی شروع سے ہی ہر دل عزیز رہے، معلومات، علمی تحقیقات، نوادرات اور بصیرت میں علماء و فضلا پر تفوق و بالادستی حاصل کر چکے تھے، اور ستم بالاے ستم یہ کہ ایام نو عمری و زمانۂ نو خیزی میں ہی اعتماد و وثوق کے اس مقام پر پہنچ گیے تھے جہاں لوگ بالعموم عمریں کھپانے کے بعد پہنچتے ہیں۔

تدریس کے سلسلے میں آپ علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے ساتھ ڈھابیل بھی تشریف لے گئے تھے، جہاں آپ نے کئی سال درجۂ علیا کی کتابیں پڑھائی، علامہ انور شاہ کشمیری کے بعد آپ یہاں پر شیخ الحدیث کے منصب پر بھی فائز رہے، پھر دوبارہ دیوبند میں دوبارہ دارالعلوم کی صدارت اہتمام کے لیے تشریف لاے، اور تقریباً آٹھ سال دار العلوم دیوبند کے صدر مہتمم بھی رہے، پھر دوبارہ ڈھابیل تشریف لے گیے تھے۔

علامہ عثمانی بحیثیت خطیب

     ’’ ہونہار پروے کے چکنے چکنے پات‘‘ یعنی مستقبل کے بلند و عظیم شخصیتیں بچپنے سے ہی سعادت مند پیشانیاں لیے رہتے ہیں، جو اہلِ بصیرت کو خوب نظر آتا ہے، علامہ عثمانی بھی انہیں ہونہاروں میں سے ایک تھے، ٢٧ رمضان ١٣٢٧ھ میں جب جمعیت الانصار کی تحریک اٹھی، تو آپ اس تحریک کے سرگرم رکن منتخب ہوئے، جمعیۃ الانصار کے فرائض و منصوبے میں جہاں دیگر دینی شعبہ جات تھے، وہیں ایک شعبہ’’جلسۂ علمیہ‘‘ کے نام سے بھی جمعیت کے تحت وجود پذیر ہوئی، چوں کہ آپ اس تحریک کے عظیم رکن بھی تھے، سو آپ نے مرادآباد کے جلسے میں’’ اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک معرکۃ الآراء مضمون پیش کیا، پھر آگے کی کیفیت ناظم جمعیت کی روداد میں سنیے’’ آٹھ بجے مولانا مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی دیوبندی کھڑے ہوے، اور اسلام کے عنوان پر اپنی تقریر شروع کی، یہ وہ زبردست تقریر ہے کہ جس کی کوئی بات دلائل عقلیہ سے خالی نہیں، فلسفۂ و حکمت اور علم کلام کے ذریعے سے جو آج کل تعلیم یافتہ گروہ کا تختۂ مشق ہے، ان تمام اعتراضات کو اٹھایا گیا‘‘ (حیات عثمانی ص ١٠٦) اس مجلس کے بعد علامہ کی عظمت کے پرچم مزید بلند ہو گیے، اور آپ کے علمی منزلت کے تذکرے ہونے لگے، اسی درمیان آپ آریاؤں سے مناظرہ کرنے کراچی بھی تشریف لے گیے، بحمد اللہ مناظرے میں ظفرمندی سے ہم کنار ہوے، بعدِ ازاں کراچی میں آپ نے جمعیۃ الانصار کا ایک شعبہ’’ قاسم المعارف‘‘ کے نام سے آغاز و افتتاح کیا، 

الغرض علامہ عثمانیؒ نے جمعیۃ العلماء اور جمعیۃ الانصار کے سیاسی  مجلسوں میں خوب تقریریں کیں، پھر جب مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، تو آپ نے پاکستان کی حمایت میں ہندستان کے ہر بڑے بڑے شہروں میں جا کر تقریریں کیں، آپ کے تقریر کردہ مقامات میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، کراچی، حیدرآباد، ملتان، سہارنپور، بجنور، میرٹھ، دہلی، مرادآباد، بریلی، رڑکی، گجرات، سنبھل، سرگودھا، ڈھاکہ، پشاور، کلکتہ اور سورت جیسے ہر اہم مقام شامل ہیں، اور جہاں بھی تقریر کی اس کے مثبت نتائج سامنے آئے، کیوں کہ آپ کے تقریر کے وقت سامعین سراپا گوش بن جاتے، اور بات کو سماعت کے ذریعے دلوں میں اتارتے جاتے۔

علامہ عثمانی کی جرأت و حق گوئی

       علامہ عثمانی صرف ایک باکمال خطیب ہی نہیں تھے بلکہ حق گو خطیب تھے، اظہارِ حق میں بے باک تھے، سلطان کی سلطنت یا حاکم کی ستم زوری  کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے، ایک وقت ایسا آیا کہ نظامِ حیدرآباد عثمان علی خان پر تفضیلیت کا غلبہ تھا، اتفاق سے وہ مسجد میں نماز پڑھنے آے، تو علامہ عثمانی نے دلنشیں انداز میں فضائل صحابہ پر تقریر فرمائی، آپ کی بے باکانہ اظہارِ حق پر لوگ‌ بہت خوش ہوے، آپ نے فرمایا کہ’’ اگر آج حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پیرہن کا ٹکڑا بھی نظام صاحب کو مل جائے تو وہ اس کو مایۂ افتخار تصور کریں گے، اس پر نظام صاحب اپنی جگہ سے اچھل پڑے اور فرمانے لگے کہ بے شک مولانا‘‘ 

           اسی طرح  جب آپ مع وفد کے گنبد خضرا کے بقاءِ دوام کے سلسلے میں حجاز شریف تشریف لے گیے، مؤتمر میں شاہ ابن سعود اور علماءِ نجد و حجاز کے سامنے جرأت و بہادری کے ساتھ اپنے صحیح نقطۂ نظر کو واضح کر دیا، اور چوں کہ علماء نجد توحید و شرک کے مسئلے میں ذرا متشدد تھے، سو آپ نے سلطان کے سامنے ہی اس غلو آمیز نقطۂ نظر کی تردید کی، اور صحیح زاویۂ نگاہ کو پیش کر دیا، اس سے جہاں ایک طرف آپ کا علمی رعب و داب علماءِ حجاز کے دلوں پر بیٹھا، وہیں دوسرا عظیم فائیدہ یہ ہوا کہ آج تک الحمدللہ ظاہراً انہیں علما کے بدولت گنبدِ خضرا اپنی شان و شوکت کے ساتھ دل آویز منظر پیش کر رہا ہے، اور جو درحقیقت اب مدینہ منورہ کی تصویری شناخت ہے۔

قیامِ پاکستان کے مساعی

علامہ عثمانی نے قیامِ پاکستان کے سلسلے میں بھی غیر معمولی کردار ادا کیا، مسٹر محمد علی جناح جو اس تحریک کے سب سے بڑے قائد تھے علامہ عثمانی سے اس سلسلے میں مشورے بھی کرتے تھے اور علامہ عثمانی بھی ان کے دوش بدوش رہے، حتی کہ بانیانِ پاکستان میں آپ کا بھی نام شمار کیا جاتا ہے، حصولِ پاکستان کے لیے آپ نے با ضابطہ تحریکیں چلائئ اور جمعیت علماء ہند کے مقابلے میں مسلم لیگ کے نظریہ پاکستان کی حمایت و تائید میں ١٩٤٥ء میں شہرِ کلکتہ کے اندر جمعیت علماء اسلام کی بنیاد ڈالی، پھر کلکتہ میں ہی چار روزہ جمعیت علماء اسلام کا شاندار اجلاس ہوا، مگر آپ اس اجلاس میں مرض کی بنا پر شرکت نہ فرما سکے، لیکن ۲۹ صفحے پر مشتمل ایک طویل پیغام آپ نے لکھ کر کلکتہ کے اجلاس میں بھیج دیا، اس پیغام نے سامعین پر عجیب محویت اور بے خودی کا عالم طاری کر دیا، اور نعرہاے تکبیر اور علامہ عثمانی زندہ باد کے نعرے لگائے گیے، اس پیغام میں ایک جگہ لکھا ہے” بہر حال اس(مرکز) کا نام پاکستان رکھو یا حکومت الہیہ یا اور کوئی، اتنی بات ضرور ہے کہ مسلمان ایک مستقل قوم ہیں، اور ان کے لیے ایک مستقل مرکز کی ضرورت ہے جو اکثریت و اقلیت کی مخلوط حکومت میں کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتا “( حیات عثمانی ص ٤٨٧) آپ اس جمعیت کے صدر بناے گیے اور پھر بفضل خدا رو بہ صحت ہو گیے، اور حصول پاکستان کے سلسلے میں دیوبند، میرٹھ، دہلی وغیرہ مقامات میں جا کر جوشیلی تقریریں کیں، اور قیامِ پاکستان کی کامیابی کو یقینی بنانے لگے، یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہو جانے کے بعد اس نئے مملکت اسلامیہ کی پرچم کشائی کے لیے قائد اعظم نے ڈھاکہ میں علامہ ظفر عثمانی اور کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانی کا انتخاب کیا، چنانچہ پاکستان کو سب سے پہلے ان بزرگوں کے ہاتھوں سے پرچم کشائی کا شرف حاصل ہوا۔

وفات حسرت آیات

       علامہ عثمانی کی وفات ١٤ دسمبر ١٩٤٩ء میں وزیر تعلیم بہاولپور اسٹیٹ کی کوٹھی پر واقع ہوئی، وفات سے پہلی والی شب میں بخار اور سینۂ میں تکلیف تھی، مولانا بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی نے آپ کو غسل دیا، پھر آپ کی میت کو لکڑی کے تابوت میں بند کر کے کراچی لایا گیا، جہاں بے شمار مسلمانوں نے نماز جنازہ پڑھی، اور نماز جنازہ مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ نے پڑھائی، اور آپ کا جسدِ خاکی اسلامیہ کالج جمشید روڑ کراچی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔      انا للہ وانا الیہ رجعون


مرتحل شد چوں شیخ عثمانی

دل ما شد زتیغِ غمِ دونیم

گفت نامیؔ بسال رحلت او

شیخ الاسلام قدوۂ اقلیم

                                                         ١٣٦٩ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے